"MIK" (space) message & send to 7575

دنیا کو دیکھنے کا مزہ

ایستھر گراہم کا نام انگریزی دان حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ایستھر نے معاشرے پر بہت گہری نظر رکھتے ہوئے بہت کچھ خاصی آسانی سے بیان کیا ہے۔ اُس کی ایک بے مثال تحریر کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ ''ایک بار میں ٹرین میں سفر کر رہی تھی۔ سامنے والی نشست پر ایک بچہ اپنے باپ کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ بچے کے لیے ٹرین کا سفر بہت دلچسپ تھا۔ ممکنہ طور پر یہ اُس کا پہلا پہلا سفر تھا کیونکہ اُسے بہت کچھ دیکھنے کو مل رہا تھا اور جو کچھ بھی وہ دیکھ رہا تھا اُسے ممکنہ طور پر تمام جزئیات کے ساتھ بیان کر رہا تھا۔ اُس کا جوش و خروش قابلِ دید اور قابلِ داد تھا۔ آس پاس کے تمام مسافر اُس پر متوجہ تھے اور اُس کی خوشی میں خوش ہوکر اُس کا حوصلہ بڑھارہے تھے۔ ٹرین جہاں جہاں سے گزرتی جاتی وہاں جو کچھ بھی دکھائی دیتا وہ بچہ اُسے ایسے بھرپور انداز سے بیان کرتا کہ سُنتے ہی دل خوش ہو جاتا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی وہ دیکھ رہا ہے اُسے تمام جزئیات کے ساتھ یوں بیان کرے کہ سُننے والوں کے ذہن کے پردے پر بھرپور تصویر سی کھنچ جائے‘‘۔
''دو بار ایسا ہوا کہ سامنے سے کوئی مال گاڑی آئی تو اُسے راہ دینے کی غرض سے ہماری ٹرین کو کسی سٹیشن پر روک دیا گیا۔ بچے کا جوش و خروش مال گاڑی کے حوالے سے بھی برقرار رہا۔ اُس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ مال گاڑی میں کیا کیا ہو سکتا ہے۔ جب باپ بیٹا اپنا سٹیشن آنے پر اترنے کی تیار کرنے لگے تو میں نے اُس کے والد کی طرف تھوڑا جُھک کر کہا 'آپ کے بیٹے کا جوش و خروش مثالی نوعیت کا ہے۔ دنیا کو دیکھنا ہے تو بچے کی نظر سے دیکھنا چاہیے کیونکہ جس جوش و خروش سے وہ دنیا کو دیکھتے ہیں اُسی جوش و خروش سے دیکھنے کی صورت میں یہ دنیا اپنی ساری خوبصورتی ہماری آنکھوں کے سامنے بے نقاب کرسکتی ہے‘۔ بچے کے باپ نے میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: اِس میں کوئی شک نہیں کہ بچے ہر نئی چیز کو بہت شوق سے دیکھتے ہیں اور بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اور اگر ہمارے پاس دنیا کو دیکھنے کا اور کوئی طریقہ نہ ہو تو تب تو بچوں کا شوقِ اظہار اور بھی خصوصی ٹھہرتا ہے۔ اِتنا کہتے ہوئے اُس نے اٹھتے ہوئے راستہ ٹٹولا۔ تب میں نے جانا کہ وہ بصارت سے محروم تھا!‘‘
ہر بچے کے لیے باپ سپرمین ہوتا ہے۔ وہ باپ کو جادوئی چراغ کا جن سمجھتا ہے کہ جو بھی فرمائش کی جائے گی وہ پوری کر دے گا۔ اور اگر باپ دنیا کو دیکھنے کے قابل نہ ہو تو بچہ اُس کے لیے آنکھ بن جاتا ہے۔ معروف موسیقار اختر حسین (اکھیاں) مرحوم کی والدہ دیکھ نہیں سکتی تھیں۔ ماں تو بیٹے یا بیٹی کی آنکھوں ہی سے دیکھ سکتی ہے۔ وہ بیٹے کو آواز دیتے ہوئے کہتی تھیں ''اختر حسین! وے میری اکھیاں!‘‘ اور پھر اختر حسین نے اپنے نام میں ''اکھیاں‘‘ کا اضافہ کر لیا!
دنیا کو بچوں کی آنکھوں سے دیکھنا تو ایک عجیب ہی معاملہ ہے۔ بچوں کو ہر نئی چیز بہت تیزی سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ دنیا کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے ہیں اور وہ بھی فوری و جیسا ہے جہاں ہے کہ بنیاد پر۔ اُن میں بلا کا تجسّس ہوتا ہے۔ یہ تجسّس انہیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ اگر بچوں کو ڈھنگ سے کچھ سکھانے کی کوشش کی جائے، اُن کی بروقت اور معقول راہ نمائی کی جائے تو وہ بہت کچھ بہت تیزی سے سیکھتے ہیں اور ذوق و شوق میں کمی بھی نہیں آتی۔ آج کے بچے ماحول سے زیادہ آشنا ہیں۔ وہ بہت سے معاملات سے خاصی تیزی سے واقف ہو جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے بچوں کو نیا جاننے کی لگن سے سرشار کر رکھا ہے۔ ہاں! ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ بچے ایسا بہت کچھ دیکھ رہے ہیں جو اُنہیں چھوٹی عمر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ بہت سی ویب سائٹس بچوں کے لیے نعمت سے کم نہیں کیونکہ یہ ویب سائٹس اُن میں تجسّس کا مادّہ پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر دوسرا بہت کچھ ایسا ہے جو بچوں کو بگاڑ کی طرف لے جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر خیر کی قوتیں کم اور شر کی قوتیں زیادہ اور قدرے زور آور ہیں۔ معاشروں کو بگاڑنے والے زیادہ متحرک ہیں۔ اِن میں سے بیشتر کسی نہ کسی کے ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ یوں نئی نسل کو بگاڑنے کے لیے بھی انٹرنیٹ کو خوب بروئے کار لایا جارہا ہے۔
اب والدین کے لیے ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کو ارتکاز و انہماک سے دور لے جانے والی ویب سائٹس سے کس طور دور لے جایا جائے۔ جن ویب سائٹس میں بچوں کی بہت زیادہ دلچسپی ہے‘ وہ فضول مواد سے بھری ہوئی ہیں۔ کھیل تماشوں والی بہت سی ویب سائٹس بچوں کو بہت تیزی سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ یہ ویب سائٹس بچوں کے ذہن مسخ کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ اِن کے ذریعے بچوں کا وقت ضائع کرنا بنیادی مقصد ہے۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں کو اس حوالے سے خصوصی طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو آن لائن کھیل تماشوں میں الجھاکر اُن کا بہترین زمانہ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کی سازش پر انتہائی باریک بینی، انہماک اور جاں فشانی سے عمل کیا جارہا ہے۔ پس ماندہ دنیا اِس ایجنڈے کو مکمل طور پر سمجھنے سے اب تک قاصر ہے۔ ہمیں اپنے بچوں میں ذوق و شوق کی وہی سطح برقرار رکھنی ہے جو اِس عمر میں ناگزیر اور پسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ کسی بھی بچے کی شخصیت کو پروان چڑھانے اور اُسے بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والی خصوصیت تجسّس ہے۔ تجسّس ہی بچوں کو کچھ نیا جاننے اور سیکھنے کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ جو کچھ معلوم نہیں ہے وہ جاننے کی شدید خواہش جب تک دلوں میں جوان رہتی ہے تب تک انسان سیکھتا ہی رہتا ہے۔ جب یہ خواہش دم توڑنے لگتی ہے تب انسان ٹھہرے ہوئے پانیوں جیسا ہو جاتا ہے یعنی اُس کے وجود پر کائی بھی جمنے لگتی ہے، تعفّن بھی اٹھنے لگتا ہے۔ بڑی عمر میں ایسا ہوتا ہی ہے کیونکہ لوگ جذبہ و شوق کی دولت سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بچوں میں یہ کجی دکھائی نہیں دینی چاہیے۔ اُن میں کچھ نہ کچھ نیا جانتے رہنے کا شوق ہر صورت برقرار رکھا جانا چاہیے۔
زندگی کا سارا حُسن اس امر میں پوشیدہ ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ نیا جانتا رہے اور جو کچھ وہ جان لے اُس کی مدد سے اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی مثبت تبدیلی یقینی بنانے پر مائل بھی ہو۔ بچوں اور نوجوانوں کے حوالے سے یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ اِسی صورت اُن کی شخصیت تشکیل پاتی ہے، اُن میں بھرپور اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ کچھ کرنے کے حوالے سے اپنے ذہن کو کوئی واضح سمت دینے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ سب کچھ راتوں رات ہوتا ہے نہ خود بخود۔ شعوری کوشش ہی کے ذریعے زندگی کا کوئی واضح رخ متعین کیا جاسکتا ہے۔ اور اِس سے بھی بڑا کام ہے ثابت قدم رہنے کا۔ ہاں، بنیادی شرط ہے ذوق و شوق اور تجسّس۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے لاپروائی پر مبنی رویہ اپنانے سے گریز ناگزیر ہے۔ ماہرین سے مشاورت کے ذریعے بچوں کے ذہن کو ایک واضح سمت دی جاسکتی ہے۔ سکول کے ماحول میں اساتذہ کی محنت سے بھی بہت سے اہم نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں مگر یہ ذہن نشین رہے کہ بچوں کو مستقبل کے حوالے سے تیار کرنے کی اصل ذمہ داری والدین کی ہے۔ گھر یا خاندان کے بزرگوں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار دیانت اور جاں فِشانی سے ادا کرنا چاہیے۔ بچوں کو نیا سیکھنے کا ماحول فراہم کرنا والدین کے ساتھ ساتھ گھرانے یا خاندان کے بزرگوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ اِس ذمہ داری سے کماحقہٗ اُسی وقت عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے جب والدین اور خاندان کے بزرگ خود بھی حصولِ علم کے حوالے سے ذوق و شوق کا مظاہرہ کریں، کچھ نیا جاننے کی کوشش کریں اور جو کچھ نیا جان لیا ہو اُس کے بارے میں بچوں سے کھل کر بات کریں۔ اِسی صورت اُنہیں زندگی کے نئے اور انوکھے پہلوؤں سے رُوشناس کرایا جا سکتا ہے۔ دنیا کو پہلی پہلی بار دیکھنے کا بڑا مزہ ہے اور بچوں کو اس مزے سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں