"MIK" (space) message & send to 7575

بہت دیکھنے والے کم دیکھتے ہیں

آپ نے یہ بات بیسیوں بار پڑھی اور سنی ہوگی کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ کیا واقعی؟ سوچئے تو سہی‘ وقت بے شک کم ہے مگر مقابلہ ہے کہاں۔ ہم مقابلے کے قابل رہے کب ہیں؟ اب تو صرف تماشا رہ گیا ہے۔ وقت ہمیشہ کم ہی تھا۔ انسان جو کچھ سوچنا اور کرنا چاہتا ہے اُس کے تناظر میں دیکھیے تو وقت اُس وقت بھی بہت کم تھا جب یہ بظاہر بہت زیادہ تھا۔ اب وقت اِتنا کم ہے کہ اِسے نہ ہونے کے برابر سمجھیے۔ حالت یہ ہے کہ ڈھنگ سے کچھ نیا‘ کچھ ہٹ کر کرنے کا سوچئے تو ذہن کام نہیں کرتا کہ آغاز کہاں سے کیجیے۔ آج کے ماحول میں چاروں طرف جو کچھ ہے اُسے دیکھ دیکھ کر ذہن صرف الجھتا ہے۔ ذہن کو مستحکم و مربوط رکھنے کی تمام شعوری اور غیر محسوس کوششیں قدم قدم پر دم توڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ عام آدمی تو خیر کچھ سمجھ ہی نہیں پارہا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ جنہیں سوچنے کی تھوڑی بہت توفیق اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے وہ بھی سوچنے سمجھنے کی راہ پر کچھ دور چلتے ہیں اور تھک کر ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں۔ تازہ دم ہوکر پھر چلتے ہیں اور پھر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے میں کیا سمجھیے اور کیا سوچئے۔
دنیا کو سمجھنے اور اُس کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے انسان کا مزاج۔ عادتیں بگڑ چکی ہیں۔ ذہن و دل پر ہر طرف سے یلغار ہے اور یلغار بھی ایسی کہ ہر گام ہتھیار ڈالتے ہی بنے۔ وقت بھی کم ہے اور صلاحیت و سکت بھی محدود بلکہ محدود تر۔ اِس کے باوجود حالت یہ ہے کہ قدم قدم پر ع
دل کی دھڑکن تیز ہوئی‘ رفتار بڑھی ارمانوں کی
والا معاملہ سر اٹھانے لگتا ہے۔ زندگی اُس مقام پر لے آئی ہے جہاں ہمارے لیے بظاہر کچھ زیادہ نہیں بچا۔ کہنے کو چاروں طرف بہت کچھ ہے۔ ایجادات کا زمانہ گزر چکا کہ جو کچھ بھی ایجاد کیا جانا تھا وہ ایجاد کیا جاچکا ہے‘ اب اختراعات کا بازار گرم ہے۔ بازار اختراعات پر مبنی اشیا سے بھرے پڑے ہیں۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور اِس کے نتیجے میں زندگی مشکل تر ہوئی جاتی ہے۔ اکیسویں صدی کا انسان عجیب طرح کے خلجان میں مبتلا ہے۔ ذہنوں میں ایسی پیچیدگیاں بھرگئی ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتیں۔ بہت کچھ ہے جو غیر محسوس طور پر ہماری نفسی یا فکری ساخت کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم بہت کچھ ایسا کر رہے ہیں جس کا ہمیں خود بھی کچھ اندازہ نہیں ہو پاتا۔ بعض معاملات میں ہماری طرزِ فکر و عمل خالص میکانیکی انداز کی ہوچلی ہے یعنی ہم جو کچھ کرتے ہیں اُسے ڈھنگ سے محسوس بھی نہیں کرتے۔
یہ سب کیوں ہے؟ غور کرنے کا محل ہے مگر ہم غور کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ زندگی سوچے سمجھے بغیر بسر کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ نفسی امور کے ماہرین کی نظر میں یہ محض عادت نہیں بلکہ لت ہے۔ اُن کی بات بالکل درست ہے۔ سوچنا ہر انسان کے لیے بنیادی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کو سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کے بعد معیاری انداز سے جینے کے قابل ہونے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ صرف انسان ہی تو ہے جس کے لیے سمجھنے اور سوچنے کا معاملہ رکھا گیا ہے۔ اگر کوئی انسان یہی کام نہیں کر رہا تو پھر معیاری انداز سے کیونکر زندہ رہ سکتا ہے۔ زندگی ہر حال میں گزر جاتی ہے۔ جی ہاں! گزر جاتی ہے۔ اگر سوچئے، سمجھیے تو پھر محض گزرتی نہیں بلکہ بسر ہوتی ہے۔ دنیا کو ہم کیا سمجھتے ہیں؟ اِسے اگر ہم صرف بازار سمجھیں تو بازاری ذہنیت پروان چڑھے گی۔ پھر ہم ہر معاملے میں ناپ تول کرتے پھریں گے۔ یہ مناسب بات ہے مگر ہر معاملے میں نہیں۔ دنیا کو بازار سمجھ کر زندگی بسر کرنے میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ ہم ہر معاملے کو نفع و نقصان کے آئینے میں دیکھنے اور پرکھنے لگتے ہیں۔ زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو سودے بازی سے بہت اوپر ہے۔ ہر معاملے کو خالص سودے بازی کی ذہنیت کے ساتھ دیکھا اور برتا نہیں جاسکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے لیے صرف گھاٹے کا سودا منتخب کرتے ہیں۔ کیا یہ دنیا کوئی مکتب ہے؟ جی! ہے تو سہی۔ یہاں قدم قدم پر بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بہت سے لوگ دوسروں کو بہت کچھ سکھانے پر بھی تُلے رہتے ہیں۔ اگر کوئی سیکھنا چاہے تو یہ دنیا مکتب ہے اور زندگی قدم قدم پر اُستاد کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر دنیا کو صرف مکتب سمجھنا غلط ہوگا۔ دنیا اور بہت کچھ ہونے کے ساتھ ساتھ مکتب بھی ہے۔ یہ دنیا نہ تو گلشن ہے نہ ویرانہ۔ اِسے محض صحرا نہ سمجھیے اور محض ہری بھری آبادی سمجھنے سے بھی گریز کیجیے۔ زندگی انگور کا دانہ ہے یعنی کھٹا بھی ہے اور میٹھا بھی۔ اور اِن دونوں ذائقوں کی موجودگی ہی میں زندگی کا اصل لطف پوشیدہ ہے۔ زندگی وہی ہوتی ہے جس رنگ میں ہم اِسے دیکھتے، پرکھتے اور برتتے ہیں۔ جامد سوچ کے ساتھ جینے کی صورت میں زندگی کہیں اٹک جاتی ہے اور پھر مشکل ہی سے آگے بڑھتی ہے۔ زندگی کو اُس کے ہر رنگ کے ساتھ قبول کرنے ہی سے بات بن سکتی اور بنتی ہے۔ زندگی کا بنیادی تقاضا ہے سنجیدگی۔ جس انسان میں سنجیدگی کا مادّہ ہوتا ہے وہ بھاگ دوڑ ضرور کرتا ہے مگر رُکتا بھی ہے، بعض معاملات پر زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔ جن چیزوں پر برائے نام بھی توجہ نہیں دی جانی چاہیے اُنہیں ترک کردیتا ہے یا اُن کی طرف جاتا ہی نہیں۔
دنیا میلے کی طرح ہے۔ اِس میں سو طرح کے آئٹم ہیں۔ کرتب باز بھی بہت ہیں اور سدھائے ہوئے جانور بھی کم نہیں۔ مسخرے بھی بہت ہیں اور رقاص بھی کم نہیں۔ اِس میلے کی ساری رونق ہمارے لیے ہے۔ اور ہم خود بھی اِس میلے کا حصہ ہیں۔ آج ہمارا معاملہ یہ ہے کہ زندگی کا بڑا حصہ اِس میلے کی رنگینیاں دیکھنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ زندگی ہم سے بہت کچھ مانگتی رہتی ہے اور ہم رنگینیوں سے محظوظ ہونے کا سلسلہ توڑ نہیں پاتے۔ کیا کیجیے کہ دل ہے کہ مانتا نہیں۔ دنیا کا میلہ بہت رنگین اور بہت پُرلطف ہے مگر یہی رنگینی اور یہی پُرلطف ہونے کی حالت ہمیں ڈکار رہی ہے۔ آج کا انسان دنیا کے میلے میں گم ہوکر باقی سب کچھ بھول گیا ہے۔ اُسے یہ بھی یاد نہیں کہ یہاں اُسے کس مقصد کے تحت بھیجا گیا تھا، کیا کرنا تھا۔ زندگی دیکھتے ہی دیکھتے گزر جاتی ہے اور جب ہوش آتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
اِس دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ اِسے وہی لوگ ڈھنگ سے اپنا سکتے ہیں جو رُکنا، ٹھہرنا جانتے ہیں، سنجیدہ ہونے کے ہنر سے واقف ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی میں بھی استحکام پیدا کرنے کے فن میں مہارت کے حامل ہیں۔ دنیا کو میلہ سمجھنے میں کچھ ہرج نہیں۔ اِس صورت میں بھی انسان بہت کچھ دیکھتا، سمجھتا اور سیکھتا ہے۔ اِس میلے کی رونقیں ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں۔ سوال صرف لطف کشید کرنے کا نہیں، اِس سے کئی قدم آگے جاکر زندگی کو ڈھنگ سے برتنے کا ہے۔ اگر ہم زندگی کے میلے میں گم ہوئے بغیر یعنی حواس برقرار رکھتے ہوئے اِسے دیکھیں تو بہت کچھ سیکھیں گے۔ اِس میلے میں گم رہنے والوں کے ذہن آپ کو الجھے ہوئے ملیں گے۔ ہم خواہ کسی ماحول میں ہوں، اُس ماحول کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اُس سے کچھ الگ رہنا ہے۔ اپنے وجود کو الگ رکھ کر اُس پر متوجہ رہنے کی ضرورت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ آج کی دنیا بہتات اور فراوانی کی دنیا ہے۔ اِس دنیا میں گم ہو جانے پر ہم اپنے وجود کو صرف ضیاع اور زیاں کی طرف لے جائیں گے۔
یہ تھوڑا سا ٹھہر کر‘ کچھ سوچنے کا محل ہے۔ ہر معاملے میں تیزی اچھی نہیں ہوتی۔ کہیں کہیں رفتار کم بھی کرنا پڑتی ہے تاکہ گرنے سے محفوظ رہا جائے۔ دنیا کے میلے میں گم نہیں ہو رہنا۔ اِسے حساب کتاب سے دیکھنا ہے، کچھ نہ کچھ سیکھنا ہے تاکہ زندگی متوازن ہے۔ اِس میلے میں بہت کچھ دیکھنے کے لیے ڈھنگ سے دیکھنا شرط ہے تاکہ ہم بھی کچھ دکھانے کے قابل ہوسکیں۔ سوال مقدار کا نہیں‘ معیار کا ہے۔ قدم قدم پر یاد رہے کہ ؎
حقیقت ہے دنیا کے میلے کی اِتنی
بہت دیکھنے والے کم دیکھتے ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں