ہمارے تمام افکار و اعمال کسی نہ کسی مادّی یا مالی منفعت کے حصول کے لیے ہوتے ہیں؟ یہ لازم نہیں! ہر انسان کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو بظاہر کسی مالی منفعت کے حصول کی خاطر نہیں ہوتا۔ اگر ہر معاملہ صرف اور صرف مالی یا مادّی منفعت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جائے تو جینا محال ہو جائے۔ اگر کوئی اس گمان میں رہتا ہے کہ ہر خیال اور ہر عمل صرف اور صرف منفعت کے حصول کے لیے ہوتا ہے تو اپنی سوچ بدلنے پر متوجہ ہو۔ ہم یومیہ بنیاد پر یا پھر کسی بھی معمول کے تحت جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہماری طرزِ فکر کا عکاس ہوتا ہے۔ عام آدمی کسی منفعت کے بغیر کچھ کرنے کے حوالے سے زیادہ غور نہیں کرتا۔ اُس کی نظر میں ہر معاملہ کسی نہ کسی منفعت کے دائرے میں گھوم رہا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو اخلاص، شفقت اور شائستگی کی بنیاد پر ہے۔ ہم کم و بیش ہر روز ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جو بظاہر کسی بھی طرح کی مادّی یا مالی منفعت کے لیے نہیں ہوتا۔ ہمارے بہت سے تعلقات کسی غرض کے لیے نہیں ہوتے۔ کسی کے ساتھ مل بیٹھنا کس غرض کے لیے ہوتا ہے؟ کوئی ہمارا خیال رکھتا ہے اور ہم کسی کا خیال رکھتے ہیں۔ اور یہ عمل کسی صلے کی تمنا یا پروا کے بغیر ہوتا ہے۔
ہر انسان اپنے وجود کو مستحکم رکھنے، اپنی شخصیت کو زیادہ بار آور بنانے کے لیے بہت کچھ کرتا ہے۔ شخصی ارتقا کے ماہرین اس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ سیکھنے کا عمل زندگی بھر یعنی مرتے دم تک جاری رہنا چاہیے۔ ایسا کرنا ناگزیر ہے کیونکہ ہمارے ماحول میں اور اُس سے باہر تبدیلیاں بھی جاری رہتی ہیں۔ یہ دنیا ہر وقت تبدیل ہو رہی ہے۔ اِس بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے والے ہی بھرپور کامیابی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ جس کسی نے بھی کچھ کرنا چاہا‘ کچھ بننے کی ٹھانی ہے اُسے طرح طرح کی تبدیلیوں سے ہم کنار ہونا پڑا ہے۔ تبدیلی صرف ہماری دنیا کا نہیں بلکہ پوری کائنات کا بنیادی اصول ہے۔ اس اصول کو سمجھے بغیر دنیا کو سمجھنا اور اپنے آپ کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانا بہت دشوار ہوتا ہے۔ کامیابی کی شدید خواہش کے حامل کسی بھی انسان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ زندگی میں سبھی کچھ صرف مالی منفعت کے لیے نہیں ہوتا۔ ہم بہت کچھ اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے کر رہے ہوتے ہیں، مثلاً علم و فن سے گہرا شغف اگر شخصیت کی تشکیل میں معاونت کے لیے بھی ہو تو ایک خاص مدت کے بعد ہی کچھ حاصل ہو پاتا ہے۔ اعلیٰ درجے کی کتابیں ہم محض اس لیے نہیں پڑھتے کہ اُنہیں پڑھتے ہی ہمیں کچھ حاصل ہو جائے یا یوں کہیے کہ ہمیں مطالعے کا معاوضہ دیا جائے۔ مطالعے کا معاوضہ ملتا ہے مگر ایک خاص مدت کے بعد اور کسی ایسی شکل میں جس کا ہم نے گمان تک نہ کیا ہو۔ جب کوئی انسان بہت پڑھتا ہے، بہت سے علوم و فنون کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کی لیاقت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ وہ مہارت کا حامل ہوتا جاتا ہے۔ یہ وصف اُسے بہتر معاشی امکانات کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان سکول کے زمانے سے مطالعے کا گہرا شغف رکھتا ہو تو آٹھ دس سال کے بعد یہ مطالعہ اُسے کچھ دینے لگتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ شعوری سطح پر یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھ یا سیکھ رہے ہیں اُس سے فوری طور پر مالی منفعت حاصل ہو جائے۔ اِس نوعیت کی سوچ بنتے کام بھی بگاڑ دیتی ہے۔
عام آدمی کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی کام کا فوری نتیجہ چاہتا ہے۔ ہر معاملہ فوری نتائج دینے والا نہیں ہوتا۔ کوئی بھی راتوں رات ڈاکٹر نہیں بن جاتا۔ کسی کو انجینئر بننا ہے تو سات آٹھ سال تک تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں کسی میچ میں جو بیٹسمین ڈبل یا ٹرپل سنچری سکور کرکے خوب داد بٹورتا ہے اُس نے بھی اننگز صفر سے شروع کی ہوتی ہے۔ کسی کو اچانک بہت کچھ مل جائے تو زیادہ دیر ٹِکتا نہیں کیونکہ محنت کے بغیر بہت زیادہ دولت یا کامیابی مل جانے کی صورت میں انسان اُس کی قدر نہیں جانتا اور اُس کا رویہ قدرے لاپروائی پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ لاپروائی مفت ملی ہوئی دولت یا کامیابی کو بالآخر برباد کردیتی ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ مطالعے اور مشاہدے سے بھی انسان کو بہت فائدہ پہنچتا ہے مگر ایک خاص وقت کے بعد۔ مذہبی یا روحانی نقطۂ نظر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر خالص مادّی یا دُنیوی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ ہر کوشش کا فوری پھل یا معاوضہ ممکن نہیں۔ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرنے کے بعد متعلقہ شعبے میں عملی تجربہ یقینی بنانے کے بعد ہی انسان ڈھنگ سے کچھ پانے کے قابل ہو پاتا ہے۔
مطالعہ اور مشاہدہ‘ یہ ایسے اوصاف ہیں جو زندگی کا معیار بلند کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ مطالعے اور مشاہدے ہی کی بنیاد پر لوگ اچھے اداکار، منیجر، سیلزمین، معلم، دکاندار، صنعتکار، بینکار، محقق، شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور مزید بہت کچھ بن پاتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کے بڑے اور حقیقی کامیاب انسانوں کو آپ صاحبِ مطالبہ پائیں گے۔ مطالعہ ہی اُن کے فن کو نکھارتا ہے۔ رہی سہی کسر مشاہدے سے پوری ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ پڑھنے اور سیکھنے میں ایک عمر کھپ جاتی ہے۔ میرؔ نے کہا ہے ؎
مت سہل ہمیں جانو‘ پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ہر طرح اور ہر سطح کے علم و فن کا یہی معاملہ ہے۔ ایک زمانہ لگتا ہے تب کہیں محنت رنگ لاتی ہے، کامیابی کے خد و خال نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ سارا کھیل قدرت کے نظام سے ہم آہنگ رہتے ہوئے حقیقی تحمل پسندی کو اپنانے کا ہے۔ عمومی سطح پر ہم میں چونکہ اب تحمل کا مادّہ زیادہ نہیں رہا اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ بہت کچھ بہت تیزی سے مل جائے۔ یہ سوچنے کی زحمت کم ہی لوگ گوارا کرتے ہیں کہ قدرت نے ہر معاملے کی ایک میعاد مقرر کر رکھی ہے۔ اُس میعاد کے مکمل نہ ہونے کی صورت میں معاملات ناپختہ رہ جاتے ہیں۔ یوں کامیابی بھی پختہ نہیں ہو پاتی۔
کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی کے لیے ایک طرف تو تحمل درکار ہوتا ہے اور دوسری طرف ہر معاملے کو نفع و ضرر کی کسوٹی پر پرکھنے کی ذہنیت سے گریز بھی لازم قرار پاتا ہے۔ دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو کسی واضح معاوضے یا صلے کے بغیر ہے۔ کسی سے محبت بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ کسی کے لیے شفقت کا اظہار بھی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کے بغیر ہوا کرتا ہے۔ اگر بات معاوضے سے شروع ہوکر معاوضے پر ختم ہو تو پھر کیسی محبت اور کہاں کی شفقت؟ والدین کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ جب بچے کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں تب اُن کے لیے کچھ کمانا ممکن نہیں ہوتا۔ تعلیم و تربیت کے طے شدہ یا مروج مراحل سے گزرنے کے بعد ہی اولاد کچھ کرنے یعنی ڈھنگ سے کمانے اور کسی شعبے میں اپنا نام پیدا کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ والدین بسا اوقات عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اولاد پر تیزی سے بہت کچھ کرنے اور کامیابی یقینی بنانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ اگر اولاد کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ہے تو پھر اُنہیں ماسٹرز کی سطح تک تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرنے دینا چاہیے۔ جب وہ تعلیم و تربیت کو مطلوب وقت دے چکیں تب اُن سے کچھ کرنے کی توقع وابستہ کی جانی چاہیے۔ اولاد کی شخصیت کی تشکیل کا مرحلہ کبھی کبھی والدین کی عجلت سے خرابی کا شکار ہوکر بعد کے سارے معاملات بگاڑ دیتا ہے۔
ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جس میں فوری نتائج کے حصول کی خواہش خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ سیکھنے کے مراحل میں بھی کمانے کی خواہش و کوشش بنتے کام بگاڑ رہی ہے۔ تحمل بنیادی شرط ہے۔ منطقی مدارج سے گزر کر ہی ہم کچھ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔