ہم بہت کچھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی انسانی فطرت کا ایک ناگزیر حصہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش ہر وقت دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ اب عام آدمی کا مزاج یہ ہوگیا ہے کہ ہر روز کچھ نہ کچھ نیا جاننے کو چاہیے۔ یہ ضرورت بہت حد تک سوشل میڈیا کے ذریعے پوری ہو رہی ہے۔ شارٹ آڈیو، وڈیو فائلز اور مواد کے ذریعے پل پل کچھ نہ کچھ نیا جاننے کو مل رہا ہے۔ کبھی کبھی کوئی ہلکا پھلکا جملہ طبیعت میں تازگی بھر دیتا ہے۔ کسی نے کوئی گیت بھیج دیا تو اُس کے دو بول سننے سے دل خوش ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ وڈیوز کا بھی ہے۔ وڈیوز کی مدد سے انسان بہت کچھ جان لیتا ہے اور محظوظ بھی ہولیتا ہے۔
کیا کچھ نیا جان لینا کافی ہے؟ کیا ہم اب صرف اس لیے رہ گئے ہیں کہ کچھ نہ کچھ نیا جانتے رہیں، کچھ نہ کچھ نیا دیکھتے اور پڑھتے رہیں؟ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے کیا وہ سب کا سب ہمارے کام کا ہے؟ کیا تمام معلومات کا ہم تک پہنچنا لازم ہے؟ اور کیا لازم ہے کہ ہم اپنے ذہن کو معلومات کے کباڑ خانے میں تبدیل کرتے چلے جائیں؟ اِن تمام سوالوں پر غور کرنا اب محض ضروری نہیں بلکہ ناگزیر ہے۔ ہم بہت کچھ جاننے کی کوشش میں اپنے ذہن کو کارآمد و ناکارہ یعنی ہر طرح کی معلومات کا کباڑ خانہ بناتے جارہے ہیں۔ جب ذہن میں بہت کچھ جمع ہوتا رہتا ہے تو اُس کی کارکردگی پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ ذہن بھرا ہوا ہو تو ڈھنگ سے تجزیہ نہیں کرسکتا۔ یوں وہ خیالات کو مربوط کرنے میں بھی دشواری محسوس کرتا ہے۔ یہ دشواری عمل میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح پورا وجود غیر متوازن ہو جاتا ہے۔
ہم جو کچھ بھی جاننا چاہتے ہیں وہ مختلف طریقوں سے ہم تک پہنچتا ہے۔ اب اینڈرائیڈ فون کے ذریعے بہت کچھ ہم تک خاصے مؤثر انداز سے پہنچتا ہے۔ سوشل میڈیا پر دنیا بھر کی معلومات میسر ہیں۔ بہت سی ایپس ہمیں آڈیو، وڈیو فائلز کے ذریعے بہت کچھ دیتی ہیں اور اس طرح ذہن کی بنیاد وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں متن کی شکل میں بھی مواد ہم تک پہنچتا رہتا ہے۔ ہم اخبارات بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بالکل درست! سب کچھ بہت کام کا ہے مگر ایک بات عام آدمی کے ذہن سے نکل گئی ہے‘ وہ یہ کہ سب کچھ کسی بھی درجے میں کتاب کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتا۔ کتاب کل بھی ہمارے لیے شخصیت کی تشکیل و تطہیر کا بہترین ذریعہ تھی اور آج بھی بہترین ذریعہ کتاب ہی ہے۔
ہر کتاب ایک کھڑکی ہے جس کے ذریعے ہم محض اپنے زمانے ہی نہیں بلکہ گزرے ہوئے زمانوں میں بھی جھانک سکتے ہیں۔ انسان نے ڈھائی تین ہزار سال کے فکری و علمی سفر کے دوران جو کچھ بھی سوچا‘ وہ آج کتابوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ ہر عہد کی کتابیں موجود ہیں جو ہماری نگاہِ التفات کی منتظر ہیں۔ کسی بھی عہد کا بھرپور جائزہ لینا ہے تو اُس عہد سے متعلق کتاب اٹھائیے اور اِس دور سے اپنا رابطہ منقطع کرلیجیے۔ ایک معیاری کتاب انسان کو حال سے بے نیاز کرکے ماضی یا مستقبل میں لے جاتی ہے۔ بہت سوں نے آنے والے زمانوں کی ایسی تصویر کھینچ رکھی ہے کہ اُن کے بیان کردہ زمانے آبھی چکے اور اُن کی بیان کردہ چیزوں سے بہتر چیزیں بنا بھی لی گئیں مگر پھر بھی اُن کتابوں کے بیانیے کا جادو کمزور نہیں پڑا۔ بعض کتابوں کا جادو تو ڈیڑھ‘ دو ہزار سال گزر جانے پر بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کتب بینی زندگی کا حصہ تھی۔ تب علم کے حصول کے دوسرے ذرائع پروان نہیں چڑھے تھے۔ کتب بینی ہی کے ذریعے شخصیت کی تشکیل و تطہیر کا فریضہ انجام دیا جاتا تھا۔ تب اپنی مرضی یا ضرورت کی کتابیں حاصل کرنا آسان نہ تھا۔ کتب خانوں کے چکر لگانا پڑتے تھے۔ جو کتابیں شناختی کارڈ یا لائبریری کارڈ کی بنیاد پر جاری کروائی جاتی تھیں اُنہیں ہفتہ یا پندرہ دن میں لوٹانا پڑتا تھا۔ یوں دوسری کتابیں مل پاتی تھیں۔ اِس مشق کا ایک اپنا ہی مزہ تھا۔ کتب خانے جانا، کیٹلاگ کھنگال کر کتابیں منتخب کرنا، پھر اُنہیں جاری کرانا‘آج یہ سب کچھ یاد آتا ہے تو ایک الگ ہی دنیا کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اب کسی بھی کتاب کا حصول کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ انٹرنیٹ کی مدد سے من پسند کتاب چند لمحات میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتی ہے۔
کتابیں ہمارے وجود کی تعمیر و ترقی اور تشفی کے لیے ناگزیر ہیں۔ سرسری طور پر لکھے گئے جملوں کو پڑھ پڑھ کر اب بہت سے لوگ خوش ہو تے رہتے ہیں کہ اچھا خاصا مطالعہ کرلیا! سوشل میڈیا پر جو جملے یا پیراگراف ہمیں روزانہ پڑھنے کو ملتے ہیں وہ چند لمحات کے لیے دل بہلا سکتے ہیں۔ کسی کتاب کا اقتباس بھی تھوڑی دیر کے لیے ہم پر کوئی تاثر قائم رکھ سکتا ہے۔ اگر شخصیت کو پروان چڑھانا ہے تو مطالعے کی عادت ڈالنا پڑے گی۔ کتب بینی کا متبادل کچھ بھی نہیں۔ مشاہدہ بھی انسان کا ایک بنیادی وصف ہے اور بہت کام کا وصف ہے مگر کتب بینی کا معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ آج بھی جو لوگ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں اُن کے رنگ ڈھنگ الگ ہی ہوتے ہیں۔ شخصیت کو متوازن رکھنے میں مطالعہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مطالعے ہی کی مدد سے ہم دنیا کو نئے زاویوں سے دیکھنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
عظیم کتابیں اپنا اثر ہر حال میں چھوڑتی ہیں۔ کسی بھی بڑی کتاب کا مطالعہ انسان کو بلندی عطا کرتا ہے۔ عظیم مصنفین کی محنت ہمیں دنیا کے انوکھے زاویوں سے رُوشناس کراتی ہے۔ عظیم ذہن بہت بڑا سوچتے ہیں اور جو کچھ اُن کے خیالات میں پایا جاتا ہے وہ عمومی سطح پر نہیں ہوتا۔ شخصیت کی رفعت یقینی بنانے کے لیے ادبِ عالیہ کا مطالعہ کل بھی ناگزیر تھا اور آج بھی ناگزیر ہے۔ کل تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ ہی خیالات کو تیزی سے پھیلانے کی صلاحیت اور آسانی ہمیں کتب بینی کی ضرورت سے بے نیاز کردے گی۔ ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نے ہمیں بہت کچھ بہت آسانی سے پڑھنے کے قابل بنادیا۔ آج ہم دنیا بھر کے اخبارات و جرائد چند کلکس سے پڑھ سکتے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر لکھنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ ہم ہزاروں پرسنل بلاگز سے گزر کر متعلقین کے خیالات سے رُوشناس ہوسکتے ہیں۔ لوگ اخبارات و جرائد کے لیے لکھنے کے معاملے میں بھی خوب جولانیاں دکھارہے ہیں۔ یہ سب کچھ پڑھ کر کچھ دیر کے لیے تو انسان گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ کل تک یہ حالت تھی کہ کسی کا مضمون پڑھنے کے لیے اخبار خریدنا پڑتا تھا۔ اب انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے ہزاروں اخبارات کھنگالے جاسکتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں مضامین اور کالم آسانی سے اور تقریباً مفت پڑھے جاسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جو روزانہ بیسیوں مضامین پڑھتے ہیں۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے ملنے والا بصری مواد بھی ذہنوں کو وسعت بخشنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ذہنوں میں گیرائی تو پیدا ہو رہی ہے، گہرائی کا نام و نشان تک نہیں۔ ہم بہت کچھ پڑھ رہے ہیں مگر جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ کسی بھی درجے میں ایسا نہیں کہ ذہن کو جِلا بخشے، تازگی عطا کرے۔ انٹرنیٹ کی مدد سے ہم تک پہنچنے والا بیشتر مواد انتہائی سطحی ہے۔ اس مواد کے ذریعے کوئی بھی اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ سب کچھ دلکش دکھائی دیتا ہے اور تھوڑی دیر کے لیے ہماری آنکھوں کو بھاتا بھی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس میں دَم نہیں، تاثیر نہیں، روح نہیں۔
اگر کسی کو نئی دنیاؤں کی سیر کرنی ہے یا اُن میں جھانکنا ہے تو کتابوں کی شکل میں موجود کھڑکیاں کھولنا پڑیں گی۔ نئی دنیائیں تلاش کرنا کون سا مشکل کام ہے؟ کوئی بھی عظیم کتاب کھولیے اور ایک نئی دنیا میں داخل ہو جائیے، اُس کا حصہ بن جائیے۔ ہر بڑی کتاب میں سبھی کچھ ہماری دنیا سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اگر کوئی مطالعے کا ذوق پروان چڑھائے اور پھر شوق کو بھی مہمیز دے تو عقلِ سلیم کی منزل تک پہنچنے سے اُسے کوئی نہیں روک سکتا۔ ادبِ عالیہ کا مطالعہ انسان کو سمجھنے اور سوچنے کی تحریک دیتا ہے۔ یہی تحریک شخصیت کا گراف بلند کرکے زندگی کو بامعنی بناتی ہے۔