"MIK" (space) message & send to 7575

خرابی سے خرابی تک

اب کے مون سون نے کچھ اور ہی سوچا ہوا‘ کچھ اور ہی ٹھانی ہوئی ہے۔ بادل ہیں کہ آرام کرنے کا نام نہیں لے رہے۔ بارش شروع ہوتی ہے تو جھڑی ہی لگ جاتی ہے۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ جمعرات کو شروع ہونے والی بارش جھڑی کی صورت ہفتہ بھر جاری رہتی ہے۔ کراچی میں معاملہ یہ ہے کہ ہر دن ہی جمعرات ہوا جاتا ہے۔ محکمۂ موسمیات کبھی کم ثابت ہوتا ہے اور کبھی زیادہ۔ اب کے سارے اندازے غلط نکلے۔ بعض اوقات تو کیفیت یہ ہوئی کہ ؎
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
ایسا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
اور سچ تو یہ ہے کہ بارش نے سبھی کچھ ملیا میٹ کردیا ہے۔ جو لوگ بارش کو ترسا کرتے تھے اور اللہ سے رحمت برسانے کی دعائیں مانگا کرتے تھے وہ پریشان ہیں اور اب پناہ مانگتے پھرتے ہیں۔ اُنہیں کیا معلوم تھا کہ بارانِ رحمت کو یاروں نے زحمت میں تبدیل کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ بادل برستے ہیں تو فضا خوش گوار ہو جاتی ہے۔ کراچی میں فضا خوشگوار ہو جاتی ہے مگر لوگ اندیشوں میں غرق ہو جاتے ہیں۔ پانی کم ڈبوتا ہے، اندیشے غرقاب رہنے پر زیادہ مجبور کرتے ہیں۔ شدید گرمی اور حبس کے ستائے ہوئے لوگ جب بادلوں کو دیکھتے ہیں تو دل کھل اٹھتے ہیں کہ اب رحمتِ خداوند کو جوش آیا ہے، اب ابر ہائے کرم برسیں گے تو زمین کے ساتھ ساتھ دل بھی سیراب ہوں گے۔ کون ہے جو گرمی کی شدت کے ہاتھوں پریشان ہوکر بار بار آسمان کی طرف نہ دیکھتا ہو اور بادلوں کا منتظر نہ رہتا ہو۔ ملک بھر میں لوگ مون سون کے منتظر رہتے ہیں کہ زمین کی دُعا مستجاب ہونے پر پانی برسے گا تو کھیت سیراب ہوں گے اور ڈیم بھریں گے۔
تین سال قبل کراچی میں بارش نے ایسی قیامت ڈھائی تھی کہ لوگ سہم گئے تھے۔ گزشتہ برس بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب جب ساون کی جھڑی لگی، اہلِ کراچی کے دل بیٹھ بیٹھ گئے۔ یہ تو کفر کے درجے میں ہے کہ بارش کو زحمت سمجھا جائے۔ اللہ کی طرف سے تو رحمت ہی برستی ہے۔ ہماری نا اہلی اور کوتاہی اِسے زحمت میں تبدیل کرے تو یہ ہمارا مقدر۔ جو کراچی سمیت ملک بھر میں سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں‘ انہوں نے غالباً کام نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ سبھی جانتے ہیں اور محکمۂ موسمیات کی طرف سے کئی بار الرٹ جاری ہوتا ہے کہ فلاں فلاں ہفتوں میں موسلا دھار بارش کا امکان ہے، تیار کرلی جائے مگر برائے نام بھی تیاری نہیں کی جاتی۔ غیر معمولی بارش کے ہاتھوں رونما ہونے والی ممکنہ تباہی سے نمٹنے کے لیے جو فنڈز مختص کیے جاتے ہیں‘ وہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جاتے ہیں۔ نالوں کی صفائی کے لیے جو رقوم مختص کی جاتی ہیں اُن سے کہاں کیا صفائی کی جاتی ہے‘ یہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا۔ مقامی اور صوبائی انتظامی مشینری جن کے ہاتھوں میں ہیں اُنہیں ذرا سی بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔ مستقل نوعیت کی کوتاہی ہر سال بارش کے دوران اہلِ شہر کو ایک عجیب سے خلجان سے دوچار رکھتی اور شدید پریشانی کے حوالے کر دیتی ہے۔ کوئی نہیں ہے جو حساب دے اور کوئی نہیں ہے جس کو اپنی نوکری اور تنخواہ حلال کرنے کا خیال ستائے کہ تھوڑا بہت کام کرکے اہلِ شہر کو تھوڑی سی راحت بخش دی جائے۔
کچھ دنوں سے اس بات کا بڑا غلغلہ ہے کہ پاکستان کے حالات بھی سری لنکا جیسے ہوتے جارہے ہیں اور جن چار‘ پانچ ممالک کے دیوالیہ ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اُن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو سری لنکا جیسے حالات سے دوچار کرنے کی مشق کراچی میں کئی سال سے جاری ہے۔ کئی سال سے بین الاقوامی شہر بننے کی بھرپور صلاحیت و سکت رکھنے والے کراچی کو ناکام ریاست کے درجے میں رکھنے پر کچھ زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام بھی اب تک درست نہیں ہو پایا۔ ایسے میں اِسے حقیقی بین الاقوامی شہر میں تبدیل کرنے کا خواب کس طور شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے؟ یاروں نے یہ بدیہی حقیقت بھی نظر انداز کر رکھی ہے کہ کراچی پر پورے ملک کی معیشت کا مدار ہے۔ یہ شہر پھلے گا، پھولے گا تو ہی پورے ملک کو فائدہ ہوگا۔ کراچی کا امن پورے ملک کے لیے راحت کی نوید ثابت ہوتا ہے۔ کراچی میں مالیاتی و معاشی استحکام پورے ملک کے استحکام کی راہ ہموارکرتا ہے۔ ملک بھر سے آئے ہوئے لاکھوں افراد کراچی سے جو کچھ کماکر بھیجتے ہیں اُس سے آبائی علاقوں میں اُن کے اہلِ خانہ کی گزر بسر ہوتی ہے۔ کراچی میں حالات بہتر ہوتے ہیں تو معاشی سرگرمیاں ڈھنگ سے جاری رکھنے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے اور یوں ملک بھر میں لاکھوں گھرانوں کے لیے ڈھنگ سے جینے کا سامان ہو پاتا ہے۔ دو دن کی بارش میں کراچی ایک بار پھر ساکت و جامد سا ہوگیا ہے۔ شہر بھر میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہوگیا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے کی بارش کے دوران جو پانی کھڑا ہوا تھا وہ ابھی تک سُوکھا بھی نہیں تھا کہ پانی کی نئی کھیپ آگئی۔ شہر پھر وہیں آ کھڑا ہوا جہاں سے چلا تھا یعنی خرابی سے خرابی تک کا سفر جاری ہے۔
صوبائی حکومت کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مقامی انتظامیہ بھی کچھ زیادہ نہیں کر پائی۔ کئی علاقوں میں ایک بار پھر کشتیاں چلانا پڑی ہیں۔ بعض علاقوں میں اتنا پانی کھڑا ہے کہ موٹر سائیکل تو رہی ایک طرف، کار والے بھی ڈھنگ سے گزرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ ایسے میں پیدل چلنے والوں کی مشکلات کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیجیے۔ دلخراش حقیقت یہ ہے کہ بعض علاقوں میں لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ اشیائے خور و نوش اور ضرورت کی دیگر چیزوں کے حصول کے لیے بھی گھر سے نکلنا ممکن نہیں رہا۔ جن کے پاس تھوڑی بہت گنجائش ہے وہ تو دس پندرہ دن کا کھانا پینا جمع کر رکھتے ہیں۔ یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور کیا کریں؟ کئی دن کوئی کام نہ ملنے پر اُن کے ہاں تو کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ یہ چند درجن کا نہیں‘ لاکھوں افراد کا معاملہ ہے۔ مخیر افراد امداد تقسیم کرتے ہیں، کھانا پہنچاتے ہیں مگر وہ بھی ایک خاص حد تک ہی ایسا کرسکتے ہیں۔ باقی بوجھ تو خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ جب شہرِ قائد کے مکینوں کو مصائب کا سامنا ہوتا ہے تب حکومتی اور انتظامی مشینری دکھائی نہیں دیتی۔ جن سے نالوں کی صفائی تک نہ ہو پائے اور جو سڑکوں کو ٹریفک کے لیے معیاری انداز سے کلیئر بھی کرسکیں اُن سے کسی اور بہتری کی کیا اُمید رکھی جائے؟ کیا واقعی یہ سمجھ لیا جائے کہ ملک کو سری لنکا بنانے کی مشق کا آغاز کراچی سے کیا گیا ہے؟ ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کو یوں بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے گویا اِس کا وجود ہی نہ ہو۔ سب کھانے پینے میں مصروف ہیں۔ جس شہر کے ذریعے ملک کو چلایا جاتا ہے اُسی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہ تو انتہا ہے۔ جو سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں‘ ان کی جوابدہی کسی موقع پر تو ہونی ہی چاہیے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اپنے ساتھ ساتھ باقی ملک کے کروڑوں افراد کے لیے بھی معاش کا ذریعہ بنے ہوئے شہر کو درست حالت میں لانے کے لیے کچھ سوچا جائے، کچھ کیا جائے؟ اگر کوئی اُسی شاخ کو کاٹے جس پر خود بیٹھا ہوا ہو تو لوگ اسے کیا کہیں گے؟ کراچی کے بارے میں نہ سوچنے والوں کو کیا کہا جائے؟ اِس ایک شہر کے استحکام سے پورے ملک کا استحکام وابستہ ہے۔ ایسے میں اِسے نظر انداز کرتے رہنا کسی بھی طور گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ اب انتہا ہوچکی ہے۔ اب تو کراچی سمیت تمام بڑے شہروں کو منظم کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ ملک بھر میں لوگ بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔ معاملات کو مافیا کی نذر کرنے کی بھی کوئی نہ کوئی حد ہونی چاہیے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
ہے انتہائے یاس بھی اِک ابتدائے شوق
پھر آ گئے وہیں پہ چلے جہاں سے ہم
انتہائے یاس کو ابتدائے شوق بنانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں