تاریکی کسی بڑے سمندر کی گہرائی و گیرائی کی طرح اب ہمارے پورے معاشرے پر محیط ہے۔ بیشتر معاملات میں تاریکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ بعض معاملات میں تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ جب تاریکی حد سے بڑھ جائے تو قدم قدم پر چراغ روشن کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس وقت ہمیں کچھ ایسا ہی کرنا ہے۔ احمد فرازؔ نے خوب کہا ہے ؎
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
آج کا ہمارا معاشرہ اس قدر الجھا ہوا ہے کہ بعض معاملات میں کوئی بھی سرا ہاتھ میں آتا دکھائی نہیں دیتا۔ سوچنے بیٹھیے تو ذہن ماؤف ہو جاتے ہیں۔ کچھ سمجھنے کی کوشش کیجیے تو عقل کو ہتھیار ڈالتے دیر نہیں لگتی۔ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ تو کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیے؟ اچھے وقت کا انتظار کیجیے؟ ہم نے اپنے لیے بے عملی کو بہترین آپشن کی حیثیت سے اپنالیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اب اس بات پر ہمارا ایمان ہی نہیں رہا کہ عمل بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور اُسی کے ذریعے معاملات بہتر بنانے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ پس ماندگی میں ہم انوکھے نہیں۔ دنیا بھر میں درجنوں معاشرے پس ماندہ ہیں اور اپنے معاملات درست کرنے پر متوجہ بھی نہیں۔ اس کا جو بھی منطقی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے وہ ہوا ہے اور ہم دیکھ بھی سکتے ہیں۔ کوئی ایک بھی معاشرہ ایسا نہیں جس نے اپنے معاملات لیاقت اور محنت کے بغیر درست کیے ہوں، بے عملی کو گلے لگائے رہنے کی حالت میں کچھ پایا ہو۔ ایسا اس لیے نہیں ہوسکتا کہ یہ قدرت کے طے کردہ اصولوں کے خلاف بلکہ برعکس ہے۔ قدرت نے کسی بھی فرد یا معاشرے کی حقیقی ترقی اور بہبود کے حوالے سے چند شرائط رکھی ہیں۔ جب تک وہ شرائط پوری نہیں کی جاتیں تب تک کوئی فرد کامیاب ہوسکتا ہے نہ معاشرہ۔ کسی بھی پس ماندہ معاشرے میں عام مشاہدے کی بات یہ ہے کہ لوگ دھیرے دھیرے حوصلہ ہارتے چلے جاتے ہیں۔ کام کرنے کی لگن بھی کمزور پڑنے لگتی ہے۔ لوگ لیاقت میں اضافے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ تعلیم کا سلسلہ کمزور پڑنے لگتا ہے۔ جب تعلیم ہی پوری لگن سے حاصل نہیں کی جائے گی تو تربیت کہاں سے راہ پائے گی؟ پس ماندہ معاشروں میں لوگ دیکھا دیکھی کچھ کرنے کی لگن سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہمت ہار دینے سے کچھ حاصل ہوسکتا ہے؟ پسماندگی کی طرف مائل معاشروں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اس بات کا احساس ستاتا رہتا ہے کہ معاملات کو مزید خرابی سے بچانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ ایسے ماحول میں بہتری کے لیے کچھ کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ جب لوگوں کے حوصلے شکست و ریخت سے دوچار ہوں تب اُنہیں مثبت انداز سے سوچنے پر مائل کرکے عمل نواز رویہ اپنانے کے لیے تیار کرنا بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔
آج کا ہمارا معاشرہ شدید نوعیت کی خرابیوں سے دوچار ہونے کے باعث بہت سے معاملات میں انتہائی خرابی کی طرف جاچکا ہے۔ بہت کچھ ہے جو داؤ پر لگ چکا ہے اور جو کچھ بچا ہے وہ بھی تباہی و بربادی کے آغوش میں سمانے کا منتظر ہے۔ ایسے میں اصلاح کا مرحلہ خاصا جاں گُسل ثابت ہوتا ہے۔ جو لوگ اصلاح پر مائل ہوں اُنہیں غیر معمولی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ لوگ آسانی سے اپنی اصلاح پر مائل نہیں ہوتے۔ ماحول میں پائی جانے والی خرابیاں اُنہیں مایوسی کی طرف دھکیلتی رہتی ہیں۔ وہ جب یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ بہت کوشش کرنے پر بھی خاطر خواہ نتائج کا حصول آسان نہ ہوگا تب اُن میں کچھ کرنے کی لگن دم توڑنے لگتی ہے۔ اس مرحلے میں وہ صرف معمول کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ معمول کی سطح بھی بہت معمولی ہوتی ہے۔ کم سے کم جو کچھ مل سکتا ہے اُس پر ہی گزارا کرنے کی ذہنیت تیزی سے پنپنے لگتی ہے۔ لوگ معاملات کو درست کرنے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مایوسی جب پھیل کر معاملات پر محیط ہو جائے تب ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ اب ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں مجموعی طور پر اصلاحِ احوال کے حوالے سے بہت کچھ طے کرنا ہے۔ محض تماشا دیکھتے رہنے کا وقت لد گیا۔ تماشا دیکھتے رہنا کبھی آپشن نہیں ہوا کرتا۔ ہم اِسے آپشن بناکر اپنے لیے مزید آپشنز کی راہ مسدود کر دیتے ہیں۔
معاشرے میں پائی جانے والی خرابیاں اگرچہ دل و دماغ پر قیامت ڈھانے والی ہیں مگر دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں۔ اول یہ کہ مشکلات اور پریشانیوں کے حوالے سے ہم انوکھے نہیں‘ اور بھی کئی معاشرے طرح طرح کی خرابیوں سے دوچار ہیں اور اُنہیں بھی اصلاحِ احوال کے حوالے سے بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ دوم یہ کہ آج ہمیں اپنے گرد جتنی بھی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں اُن میں سے بیشتر ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں۔ چار پانچ عشروں کے دوران ہمارے فکر و عمل میں در آنے والی کجی نے یہ سارے گُل کھلائے ہیں۔ یاد رکھنے کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جن میں خرابیاں پائی جاتی ہیں‘ دور بھی اُنہی کو کرنا ہوتی ہیں۔ کوئی اور بھلا ہمارے معاملات کیوںدرست کرے گا؟ ہمارے معاملات میں پائی جانے والی تمام خرابیاں اس بات کی منتظر ہیں کہ ہم سمجھیں، سوچیں، منصوبہ سازی کریں، حکمتِ عملی ترتیب دیں اور میدانِ عمل میں آکر اپنے پورے وجود کو معاملات بہتر بنانے میں کھپادیں۔
اس وقت معاشرے کی خرابیاں چند شعبوں تک محدود نہیں۔ کم و بیش ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ خراب چل رہا ہے۔ جب معاملات اِس حد تک بگڑے ہوئے ہوں تو اصلاحِ احوال کا عمل منضبط ہونا چاہیے تاکہ جو کچھ بھی کیا جائے وہ سوچ سمجھ کر کیا جائے اور متعلقہ حدود کا خیال رکھا جائے۔ جذباتیت اور سطحی ذہنیت بروئے کار لانے سے معاملات مزید بگڑتے ہیں، خرابیاں پختہ ہوتی جاتی ہیں۔ ایسے میں اصلاح کا عمل توجہ بھی چاہتا ہے اور صبر و تحمل بھی۔ بگاڑ زیادہ ہو تو اصلاح کا عمل دیر سے نتائج پیدا کرتا ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ کچھ لوگوں کا بھلا اس بات میں ہوتا ہے کہ خرابیاں برقرار رہیں۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے پُرعزم ہیں تو اُنہیں ناکام بنانے کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں۔ یہ انتہائی افسو ناک امر سہی مگر حیرت انگیز بالکل نہیں کیونکہ ہر بگڑے ہوئے معاشرے میں کچھ لوگ اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ کسی بھی شعبے میں کوئی بہتری نہ آنے پائے۔ ایسا وہ اس لیے چاہتے ہیں کہ خرابیوں کے برقرار رہنے ہی سے اُن کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ جس طور کسی بزنس مین کو ابتدا میں کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بالکل اُسی طور ماحول کی اصلاح پر کمربستہ رہنے والوں کو بھی قدم قدم پر مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں۔ جب تاریکی بڑھ جاتی ہے تو اُس سے ڈرنے کے بجائے چراغ روشن کرنا پڑتے ہیں۔ چراغوں اور شمعوں کے روشن کیے جانے سے اندھیرے کا غرور توڑنے میں مدد ملتی ہے۔ اندھیرا چاہے جتنا بھی گہرا ہو، اُس کا غرور توڑنے کے لیے محض ایک چراغ یا شمع کا روشن کردیا جانا بھی کافی ہوتا ہے۔ محض ایک دِیا جل رہا ہو اور وہ بھی ٹمٹماتے ہوئے تو اندھیرا یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ جامع و ہمہ گیر ہے۔ اُس چراغ کی حد تک اندھیرا ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو معاشرے کی بہتری کے لیے اپنے اپنے حصے کی شمعیں جلانی ہیں تاکہ اندھیرے کا غرور ٹوٹتا رہے۔ بہت سے چھوٹے کام مل کر ایک بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کرتے ہیں اور یوں اصلاحِ احوال کی راہ حقیقی معنوں میں ہموار ہوتی ہے۔
آج ہم معاشرے کی مجموعی کیفیت دیکھ کر محض کڑھتے رہتے ہیں۔ یہ کڑھن فطری ہے مگر اِس سے کچھ بہتری واقع ہونے والی نہیں۔ لازم ہے کہ ہم اپنے اپنے حصے کا اچھا کام کریں، ماحول کو بہتر بنانے کے حوالے سے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں‘ کر گزریں۔ آگے بڑھنے اور کچھ کر دکھانے کے یہی ایک معقول صورت ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اِسی طور اپنے بُرے حالات کو پچھاڑتے ہیں۔ ہمیں بھی اِسی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔