شعور کا معاملہ ہمیشہ عجیب رہا ہے۔ یہ کیفیت انسان کو سیدھی راہ دکھاتی ہے اور بھٹکاتی بھی ہے۔ جن کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا وہ بے شعور کہلاتے ہیں اور کچھ لوگ ہر معاملے کو سمجھنے کی خواہ مخواہ کوشش کرتے رہتے ہیں اور اِسے شعور کا تقاضا قرار دے کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔
زندگی کا بنیادی مقصد کیا ہے یا کیا ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں گھنٹوں بلکہ ہفتوں بحث کی جاسکتی ہے۔ اجمالی طور پر کہیے تو زندگی کا ایک کلیدی یا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور وقت و توانائی کا ایسا ضیاع ممکن نہیں بنایا جانا چاہیے جس کے ازالے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو۔ ہر پس ماندہ معاشرے میں وقت اور توانائی کا ضیاع روکنا ایک بنیادی کام ہوا کرتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہ بنیادی کام ہی نہیں کیا جاتا۔ ایسے معاشروں میں بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ اپنا وقت، توانائی اور لیاقت‘ تینوں ہی اہم ترین عوامل غیر ضروری اور غیر متعلق معاملات میں کھپاتے رہتے ہیں اور جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو یوں کفِ افسوس مَلتے ہیں کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔ تواتر ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا یعنی غلطی سے کوئی سبق نہیں سیکھا جاتا اور بے ڈھنگے پن سے زندگی بسر کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
غیر متعلق امور سے دور رہنا اور اپنے حقیقی معاملات پر توجہ مرکوز رکھنا ہر دور کے انسان کا ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ جب وقت تھا یعنی وقت ضائع کرنے والی ترقی ممکن نہیں بنائی جاسکی تھی‘ تب بھی وقت کا ضیاع خسارے ہی کا سودا تھا۔ تب اہلِ دانش بہت کچھ کر گزرتے تھے۔ جو کچھ وہ کرنا چاہتے تھے اُس کی راہ میں روڑے اٹکانے اور وقت کا ضیاع یقینی بنانے والے عوامل چونکہ برائے نام تھے اِس لیے کوئی بھی بڑا کام زیادہ دِقت کا حامل نہ تھا۔ لوگ لکھتے تھے تو لکھتے چلے جاتے تھے۔ کسی عظیم عمارت کے قیام کے لیے مزدور برسوں کام کرتے رہتے تھے۔ توجہ کام پر رہتی تھی۔ مشینیں تو تھیں نہیں‘ سب کچھ ہاتھوں سے کرنا پڑتا تھا۔ اِس کے لیے وقت کا بہترین انداز سے استعمال لازم تھا۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب انسان غیر متعلق معاملات پر متوجہ نہ ہو یعنی اپنے کام سے کام رکھے، جو کچھ بھی کرنے کو کہا جائے بس وہی کرتا رہے۔ اگر گزرے ہوئے ادوار میں لوگ غیر متعلق امور میں الجھے رہنے کی بیماری میں مبتلا رہتے تو آج ہمیں وہ شاندار عمارتیں دکھائی نہ دیتیں جو اُن زمانوں کی عظمت کے فسانے سناتی ہیں۔
بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جس کے بارے میں پورے اعتماد سے یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ وہ کسی بھی حوالے سے صلاحیت و سکت کا حامل نہیں۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی کام کے قابل بنایا ہے۔ ہاں‘ وہ کام کرنا یا نہ کرنا انسان کی اپنی مرضی کا معاملہ ہے۔ وقت کی دولت سب کو یکساں تناسب سے ملی ہے۔ کوئی امیر ہو یا غریب، معمر ہو یا جوان، سب کو ایک دن چوبیس گھنٹوں ہی کا ملتا ہے۔ اِن چوبیس گھنٹوں کو کس طور بروئے کار لانا ہے یہ انسان کا اپنا معاملہ ہے۔ اِس معاملے میں قدرت غیر جانب دار ہے۔ کسی بھی انسان پر قدرت کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں۔ وہ چاہے تو اپنے وقت کو بہترین انداز سے بروئے کار لاکر زیادہ سے زیادہ کارآمد اور بارآور بناسکتا ہے اور اگر چاہے تو یکسر ضائع بھی کرسکتا ہے۔ ہم اپنے ماحول میں ایسی بہت سی مثالیں پاتے ہیں کہ کسی نے دن رات ایک کرکے اپنے بُرے یا کٹھن حالات کو پچھاڑا جبکہ دوسری طرف ایسے لوگ بھی کم نہیں جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کو زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں اور آخرِ عمر میں اُن کے پاس صرف گلوں شکووں اور آہ و زاری کا آپشن رہ جاتا ہے۔
ہم ایک عہد کا حصہ ہیں جس میں وقت کے ضیاع کو ممکن اور یقینی بنانے والے عوامل کی بھرمار ہے۔ بعض معاملات میں تو وقت یوں گزرتا ہے کہ جب ہوش آتا ہے تو صرف تاسّف کا آپشن رہ جاتا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی نے ہمیں ایسا بہت کچھ دیا ہے جو ذہن کے انہماک و ارتکاز کی راہ میں دیواریں کھڑی کر رہا ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہم اپنا وقت ضائع بھی کر رہے ہوتے ہیں اور اِس کا کماحقہٗ احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ اُن کے لیے سوہانِ روح ہے جو وقت کو حقیقی دولت سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کے لیے وقت کا ضیاع روکنا ایک جاں گسل مرحلہ ہے۔
آج ہم اپنے ماحول میں بیشتر کو اس حال میں دیکھ رہے ہیں کہ اپنے حصے کا کام کرنے کے بجائے غیر متعلق امور میں الجھ کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ یہ روش اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ لوگوں نے اِس سے ہٹنے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ وقت محدود ہے۔ وقت کسی بھی دور میں اِتنا زیادہ نہیں تھا کہ دونوں ہاتھوں سے لٹایا اور پانی کی طرح بہایا جاتا۔ سو‘ ڈیڑھ سو سال پہلے کے لوگوں کے مزاج میں سکون اور ٹھہراؤ تھا تو اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وقت ضائع کرنے والے معاملات سے اُن کا واسطہ نہیں پڑا تھا۔ ایسے میں آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہزار‘ بارہ سو سال پہلے کے لوگوں کی مجموعی ذہنی کیفیت کیا رہی ہوگی۔ تب معاشرے پُرسکون تھے، غیر معمولی ٹھہراؤ کے حامل تھے اس لیے وقت بہت لگتا تھا اور اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہوئے کچھ کر گزرنے کی ذہنیت پروان چڑھائی جاتی تھی۔ آج ایسا بہت کچھ ہے جو وقت کو خاصے المناک انداز سے ضائع کرنے پر تلا ہوا ہے اور لوگ اپنے وقت کا ضیاع اپنے ہاتھوں یقینی بنارہے ہیں۔
ہر دور کے چند بنیادی تقاضے ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنے کی صورت میں خرابیوں کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔ ہم جس عہد کا حصہ ہیں اُس کا سب سے بڑا یا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ وقت کسی بھی طور ضائع نہ کیا جائے۔ ہر عہد میں وقت ہی حقیقی دولت تھا اور آج بھی یہ بات غلط نہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ غیر متعلق معاملات سے دور رہا جائے۔ غیر متعلق معاملات سے دور رہنے کے معاملے کو وسیع تر پس منظر اور پیش نظر میں دیکھنا چاہیے۔ آج ہم میڈیا و سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے ایسے معاملات پر متوجہ ہیں جن کا ہماری زندگی، ہماری سوچ اور ہمارے معاشی و معاشرتی معاملات سے کوئی بنیادی تعلق نہیں۔ زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش کی تکمیل یقینی بنانے کے لیے ہم ایسا بہت کچھ دیکھ اور بھگت رہے ہیں جس کا ہماری زندگی سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اس کی بہت سی نمایاں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ایک واضح مثال یہ ہے کہ جن کی آمدنی بمشکل تیس پینتیس ہزار روپے ماہانہ ہے اور اِس میں اضافے کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دیتی وہ انٹرنیٹ کی مدد سے چالیس پچاس لاکھ سے کروڑ ڈیڑھ کروڑ تک کی گاڑیوں کے ماڈل دیکھتے رہتے ہیں اور اُن کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے پر اظہارِ تاسّف بھی کرتے رہتے ہیں! ہر انسان کو اپنی آمدنی کی حدود میں رہتے ہوئے سوچنا ہے۔ زیادہ کمانا الگ بات ہے اور محض خیالی گھوڑے دوڑاتے رہنا بالکل الگ بات۔ لوگ مجموعی طور پر ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جو اُن کی نہیں۔ جن معاملات سے دور کا بھی تعلق نہیں اُن میں الجھے رہنے کو زندگی کا حاصل سمجھا جاتا ہے۔ تابناک مستقبل کے بارے میں سوچنے، عملی سطح پر کچھ کرنے کی تیاری کرنے اور محض خوش فہمیوں میں مبتلا رہنے میں بہت فرق ہے۔
ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے وسائل کی حدود میں رہے، اپنے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے اور دوسروں کے معاملات میں سر کھپانے کے بجائے اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے پر متوجہ ہو۔ جن معاملات کا ہم سے کوئی معاشی، معاشرتی اور نفسی ربط نہ ہو اُن کے بارے میں سوچنا جی کے جنجال کے سوا کچھ نہیں۔ نفسی امور کے ماہرین سے ملاقات و مشاورت کے ذریعے بھی اصلاحِ احوال کی معقول صورت نکالی جاسکتی ہے۔ غیر متعلق معاملات میں الجھنے سے بچنا اب ایک باضابطہ ہنر کا درجہ رکھتا ہے اور ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے کے لیے یہ ہنر سیکھے بغیر چارہ نہیں۔