آپ کی زندگی کے تمام معاملات کہاں سے شروع ہوتے ہیں؟ آپ کی ذات سے۔ اور کہاں ختم ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے آپ ہی کی ذات پر۔ آج آپ جو کچھ بھی ہیں اُس کے حوالے سے سب سے زیادہ اگر کوئی ذمہ دار ہے تو وہ آپ خود ہیں۔ ہم زندگی بھر یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ حالات ہمیں بدل رہے ہیں، بگاڑ رہے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ حالات بگڑتے ہیں تو ہمارے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں مگر ہم یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ہمارے ماحول میں دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے بھی حالات وہی ہوتے ہیں جو ہمارے لیے ہوتے ہیں مگر وہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہیں، ڈھنگ سے جینے کے بارے میں سوچتے ہیں، شعور کی سطح پر چند فیصلے کرتے ہیں اور اُن فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ دیگر لوگوں نے بھرپور کامیابی حاصل کی۔ ہوسکتا ہے کہ آپ نے بھی بعض معاملات میں ایسا ہی کیا ہو۔ ہر انسان اپنے معاملات کو بہتر بنانے کی تھوڑی بہت کوشش تو کرتا ہی ہے۔ آپ نے بھی اگر ایسا کیا ہے تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کہ ایسا تو آپ کو کرنا ہی تھا۔ ہاں‘ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اپنے معاملات درست کرنے کے لیے آپ کو زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ہے۔ حالات و واقعات کے ہاتھوں آپ کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جو آپ کی مرضی کا بھی نہیں ہوتا اور آپ نے اس کے لیے کوئی فعال کردار ادا بھی نہیں کیا ہوتا۔
حالات کا اصل کام کیا ہے؟ آپ پر اثر انداز ہونا! ایسا سبھی کے ساتھ ہوتا ہے۔ حالات کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے نہیں رہنا بلکہ ڈٹ کر اُن کا سامنا کرنا ہے تاکہ اُن کے ہاتھوں پیدا ہونے والی خرابیوں کا دائرہ زیادہ وسعت اختیار نہ کرے۔ اس پورے عمل میں آپ کو کسی بھی مرحلے پر یہ تصور اپنے ذہن میں پنپنے نہیں دینا کہ تقدیر نے آپ سے انصاف نہیں کیا یا آپ پر ظلم ڈھایا ہے اور آپ کے حصے میں زیادہ دکھ رکھ دیے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح کی پریشانیاں سبھی کے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں۔ ہم زندگی بھر بہت سی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔ بسا اوقات ہم الجھنوں سے پریشان اور بدحواس ہو اٹھتے ہیں اور ایسی حالات میں بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں۔ کوئی بھی پریشانی اول و آخر اس لیے نہیں ہوتی کہ اُس کے ہاتھوں بدحواس ہوکر ہتھیار ڈال دیے جائیں۔ اگر ہر انسان ایسا کرنے لگے تو چل چکا یہ دنیا کا نظام۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اپنے ماحول ہی میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو مسائل کو زیادہ خود پر حاوی نہیں کرتے۔ وہ ہر الجھن کا پامردی سے سامنا کرتے ہوئے ڈھنگ سے جینے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
آج آپ کی جو بھی معاشی اور معاشرتی حیثیت ہے اُس کے لیے بہت حد تک آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ جب ایک بار ذہن یہ نکتہ قبول کرلے کہ ہر معاملے میں اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے تبھی اصلاحِ احوال کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ یاد رکھیے کہ دوسروں کے پیدا کردہ حالات آپ کی زندگی میں بگاڑ پیدا کرسکتے ہیں مگر اصلاحِ احوال کے لیے آپ ہی کو کچھ کرنا ہے۔ دوسرے آپ کے لیے یہ کام نہیں کرسکتے۔ اپنی مشکلات کا آپ سے زیادہ کسے اندازہ ہوگا۔ اپنی کسی بھی الجھن کو جتنا آپ سمجھ سکتے ہیں اُتنا کوئی اور سمجھ ہی نہیں سکتا۔ ایسے میں منطقی بات یہی ہے کہ اصلاحِ احوال کے حوالے سے بھی سب سے زیادہ تگ و دَو آپ ہی کو کرنی ہے کیونکہ آپ کا بھلا آپ کے سوا کون چاہ سکتا ہے؟
شخصی ارتقا کے حوالے سے لکھنے اور بولنے والے چند بنیادی نکات کو نظر انداز کرکے محض چکنی چپڑی باتوں سے کام چلاتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں کہیں اُن کے ''گاہک‘‘ بدک نہ جائیں! معاملہ یہ ہے کہ لوگ اس بات سے بھاگتے ہیں کہ کوئی اُنہیں آئینہ دکھائے۔ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے لکھنے اور بولنے والے ایسی باتیں نہیں کرسکتے جن سے دل خواہ مخواہ خوش ہوتا رہے۔ اگر کوئی انسان ناکامی کے گڑھے میں گرا ہوا ہے اور اب یہ چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی میں توازن پیدا ہو، ناکامی کا زور ٹوٹے اور وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پائے تو لازم ہے کہ اُسے کسی نہ کسی طریقے سے آئینہ دکھاکر سب سے پہلے اپنی خامیوں اور خرابیوں کو تسلیم کرنے پر مائل کیا جائے۔ اس کے بعد کی منزل ہے عملی سطح پر کچھ کرنا۔ یہ مرحلہ تب آتا ہے جب انسان سوچ بچار کی منزل سے گزرتا ہے۔ معاملات کو سمجھے اور سوچے بغیر عملی سطح پر کچھ کرنے کے لیے جو لوگ نکل پڑتے ہیں وہ اپنی توانائی‘ وقت اور وسائل‘ تینوں کا ضیاع یقینی بناتے ہیں۔ آپ اگر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے موجودہ حالات کو سمجھنا، اُن کی خرابیوں اور خامیوں پر غور و خوض کرکے خود کو نئی زندگی کے لیے تیار کرنا لازم ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے کی صورت ہی میں آپ کچھ ایسا کر پاتے ہیں جس کے ذریعے کچھ بننے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
کسی بھی انسان کی زندگی میں حقیقی مثبت تبدیلیاں اُسی وقت واقع ہوسکتی ہیں جب وہ حقیقت پسندی سے گریز کی راہ پر گامزن ہونے سے بچتا ہو۔ اپنی خامیوں اور خرابیوں کو تسلیم کیے بغیر اُن سے نجات پانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں اپنی خامی اور کوتاہی تسلیم کرتے ہیں تب ذہن اصلاحِ احوال کی طرف جاتا ہے۔ شخصی ارتقا کے ماہرین اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے یہ سکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے باطن میں جھانک کر پہلے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو قبول کیا جائے۔ اس قبولیت کے بعد ہی عملی سطح پر کچھ کرنے کے حوالے سے ذہن سازی ممکن ہو پاتی ہے۔
آج آپ کی جو بھی حالت یا حیثیت ہے وہ اصلاً آپ کے اپنے خیالات کی پیدا کردہ ہے۔ اگر آپ کے معاملات آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہیں تو اِس کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار آپ خود ہی ہیں۔ ڈیل کارنیگی نے کہا ہے کہ کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں یا نہ ہوں‘ ذمہ دار تو آپ ہی ہیں۔ جب کوئی انسان یہ مان لیتا ہے کہ اپنے تمام معاملات کے لیے‘ حتمی تجزیے میں‘ ذمہ دار وہ خود ہی ہے تبھی کچھ سوچنے اور اُس پر عمل کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ کسی اور کو ذمہ دار ٹھہرانے نکلئے گا تو بھٹکتے ہی رہیے گا۔ کوئی بھی نہیں مانے گا کہ آپ کے معاملات اُس نے بگاڑے ہیں۔ بگاڑے ہوں تب بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ ایسے میں بہترین آپشن یہ ہے کہ دوسروں کے قصور تلاش کرنے کے بجائے اپنی ذمہ داری کو پہچانیں۔ جن حالات نے آپ کو مشکلات سے دوچار کیا ہے وہ کسی اور کے نہیں، آپ ہی کے پیدا کردہ تھے۔ آپ اگر اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے تو آپ کی مرضی مگر آپ کے نہ ماننے سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔
آپ اپنی ذات میں ایک دنیا ہیں۔ اِس دنیا کو آباد رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے، کسی اور کی نہیں۔ اگر آپ کی دنیا میں ویرانے ہیں تو آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اور اگر آپ کا وجود بہاروں میں بسا ہوا ہے تو یہ بھی خدا کے فضل کے بعد آپ ہی کا کمال ہے۔ اگر آپ اپنے وجود کی دنیا کو آباد نہ کرنا چاہیں تو پھر کوئی بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ آپ کی کہانی آپ سے شروع ہوکر آپ پر ختم ہوتی ہے۔ اس کہانی کے ہیرو بھی آپ ہیں اور ولن بھی آپ خود ہیں۔ اگر تھوڑی بہت کامیڈی پیدا کرنی ہے تو وہ بھی آپ ہی کو کرنی ہے۔ اگر اس کہانی میں ''آئٹم سانگ‘‘ کی گنجائش پیدا کرنی ہے تو وہ بھی آپ کو کرنی ہے۔ یہ کہانی ادبی نوعیت کی ہونی چاہیے یا فلمی انداز کی‘ یہ بھی آپ کو طے کرنا ہے۔ اس کہانی میں ''فائٹ‘‘ بھی آپ ہی کا کام ہے اور ڈرامائی موڑ پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی آپ ہی کے کاندھوں پر ہے۔ جب سبھی کچھ آپ ہیں تو پھر لیت و لعل کیسی؟ آگے بڑھیے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ جاندار اور پُرکشش بنائیے۔ یہ کام آپ ہی کو کرنا ہے۔ کوئی اور اس معاملے میں کچھ زیادہ نہیں کر پائے گا۔ سب کو اپنی اپنی کہانی کی فکر لاحق رہتی ہے۔