"MIK" (space) message & send to 7575

کتنی عجیب بات ہے

اب اِس دنیا میں کچھ بھی عجیب نہیں رہا۔ یا یوں کہیے کہ کوئی بھی بات عجیب نہیں لگتی۔ کل تک جن باتوں پر انسان حیرت کے سمندر میں غرق ہو جایا کرتا تھا اُن کے بارے میں اب چند سیکنڈ سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اب کوئی بھی بات حیران نہیں کرتی۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان نے اب کسی بھی بات پر حیران نہ ہونے کی ٹھان لی ہے۔ غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جب تک حیرت تھی‘ تب تک زندگی تھی۔ کچھ سیکھنے کا شوق بھی تھا۔ یہ حیرت ہی تو تھی جو ہم میں تجسّس پیدا کرتی اور پروان چڑھاتی تھی۔ تجسّس تھا تو ہم بہت کچھ جاننا چاہتے تھے۔ جب تجسّس ہی نہ رہا تو کچھ سیکھنے کا شوق بھی نہ رہا اور ذوق بھی جاتا رہا۔ اب حالت یہ ہے کہ زیادہ پڑھنے کا شوق ہے نہ زیادہ جاننے کا۔
اُس دور کو گزرے ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب کسی بڑی شخصیت کی باتوں میں ہمارے لیے چاشنی ہوا کرتی تھی۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے بڑی شخصیات کے انٹرویوز خاصے ذوق و شوق سے سُنے اور دیکھے جاتے تھے۔ اخبارات و جرائد بھی ایسے انٹرویوز بہت اہتمام سے شائع کرتے تھے۔ اِن انٹرویوز میں بہت کچھ ہوا کرتا تھا۔ لوگ بڑے افراد کی باتوں کے ذریعے بڑا بننے کے بارے میں سوچتے تھے۔ کسی کی ذاتی یا انفرادی جدوجہد کی کہانی دوسروں میں بھی کچھ کرنے کا جذبہ پھونک دیا کرتی تھی۔ علم و فن سمیت سبھی شعبوں کی نامور شخصیات اپنی باتوں کے ذریعے لوگوں میں کچھ بننے کی لگن اس طور پیدا کرتی تھیں کہ لوگ اُن کے سحر میں مبتلا ہو جایا کرتے تھے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ معلومات تک رسائی ایسی آسان ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی چاہیں وہ پلک جھپکتے میں جان سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، سُن سکتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کی کسی بھی شخصیت تک رسائی اب اِتنی آسان ہے کہ ذہن یہ سوچ کر ہی الجھنے لگتا ہے کہ کس کس ہستی پر اور کس کس بات پر متوجہ ہوا جائے۔ آپشنز بہت زیادہ ہیں۔ آپشنز کی اس زیادتی نے آج کے انسان کا ذہن ایسا الجھا دیا ہے کہ وہ بہت کچھ چاہنے پر بھی کچھ زیادہ نہیں جان پاتا۔ توجہ بار بار منتشر ہو جاتی ہے۔ انہماک اب انتہائی کمیاب وصف ہے۔ لوگ کسی معاملے پر چند گھنٹے بھی متوجہ نہیں رہ پاتے۔ ایسے میں کسی سے یہ توقع وابستہ نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی شخصیت پر چند ہفتوں یا چند ماہ تک کام کرے، متوجہ رہ کر اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرے۔ بہت کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے کی عادت خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔ فلموں کے ذریعے جو کہانی ڈھائی تین گھنٹوں میں پیش کی جاتی رہی ہے اب لوگ اُس کہانی کو پندرہ بیس منٹ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں کہانی کا کیا بنے گا اِس کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ عجلت پسندی مزاج کا حصہ ہوکر رہ گئی ہے۔ کم وقت میں بہت کچھ جاننے کی خواہش نے انسان کو ایسا الجھا دیا ہے کہ وہ کسی ایک معاملے پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتا۔ اب لوگ انہماک کے تصور کو بھولتے جارہے ہیں۔ جس طرح بھنورے کلی کلی منڈلاتے پھرتے ہیں بالکل اُسی طرح آج کے انسان ابلاغِ عامہ کے ذرائع سے مستفید ہونے کے نام پر صرف محظوظ ہو رہے ہیں۔ ابلاغِ عامہ کے تمام ذرائع در حقیقت محض تفریحِ طبع کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اُن کے ذریعے تھوڑے بہت پُرلطف لمحات کا سامان کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی پختگی یقینی بنانے کے بارے میں بھی سوچنا ہوتا ہے۔ ہم نے طے کر لیا ہے کہ اب معلومات کا حصول یقینی بنانے والے تمام ذرائع سے صرف حَظ اٹھائیں گے، لطف کشید کریں گے۔ ہم اِس منزل سے آگے بڑھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہم صدیوں تک ایک ایسے زمانے کا خواب دیکھتے رہے جس میں زندگی انتہائی آسان ہو چکی ہو اور ہمارے لیے کسی بھی شعبے میں طبع آزمائی کسی بھی سطح پر دشواری کی حامل نہ ہو۔ صدیوں تک انسان علم کے حصول کے لیے اعصاب شکن جدوجہد کرتا رہا۔ اُس دور کو گزرے بھی بہت زیادہ وقت نہیں گزرا جب کسی کتاب کا مطالعہ کرنے کے لیے خاصی مشقت کرنا پڑتی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ کتاب کے حصول کا ہوا کرتا تھا۔ یہی کیفیت دوسرے بہت سے معاملات میں بھی ہوا کرتی تھی۔ کچھ لکھنا اور اُسے شائع کرانے کے لیے جرائد کے دفاتر بھیجنا ایک مشقت طلب مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ یہ سب کچھ 1980ء کے عشرے میں خاکسار نے بھی دیکھا اور بھگتا۔ اب لکھنا کوئی مسئلہ نہیں رہا اور شائع کرانا بھی کسی درجے میں مشکل نہیں۔ اس کے باوجود لوگ معیاری انداز سے لکھنے کے عادی نہیں رہے۔ اب کسی تحریر کو اشاعت کے لیے بھیجنا بھی پلک جھپکتے کا معاملہ ہوگیا ہے۔ کسی بھی موضوع پر تحقیق بھی کوئی مسئلہ نہیں رہی۔ انٹرنیٹ کی مدد سے مطلوب مواد تھوڑی سی دیر میں حاصل ہو جاتا ہے۔ اِس کے باوجود اچھا لکھنے کی لگن ختم ہو چکی ہے۔ لوگ اگر لکھ رہے ہیں تو بے دِلی کے ساتھ۔ تحریر کو جاندار بنانے کے لیے تازہ ترین اعداد و شمار ٹانکنے کا مزاج بھی ناپید ہوتا جارہا ہے۔ زبان کی چاشنی بڑھانے پر بھی توجہ دینے والے خال خال ہیں۔ بیشتر لکھاریوں کا یہ حال ہے کہ عمومی سطح پر جس طرح کی گفتگو کی جاتی ہے بس اُسی کو ضبطِ تحریر میں لے آتے ہیں۔ ایسی کسی بھی کاوش کو تحریر کہنا درست نہیں مگر کیا کیجیے کہ اب چلن یہی ہے اور اُس کی مقبولیت کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے۔ اب کسی بھی بات پر حیران رہ جانے کی گنجائش برائے نام رہ گئی ہے مگر پھر بھی اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ بہت سی آسانیوں کے باوجود کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنے کی طرف نہیں آرہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جب کچھ لکھنا انتہائی دشوار ہوا کرتا تھا تب لوگ در در بھٹک کر معلومات جمع کرتے تھے اور اُنہیں ٹانک ٹانک کر اپنی تحریر کو زیادہ سے زیادہ جاندار، پُرکشش اور سیاق و سباق سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرتے تھے اور اب جبکہ لکھنے کے لیے تحقیق سمیت ہر طرح کی تیاری بہت آسان ہو چکی ہے‘ تب لوگ معیاری لکھنے کی طرف نہیں آرہے۔ رسمی نوعیت کی زبان اور سرسری نوعیت کے اُسلوب سے کام چلایا جارہا ہے۔ ہم عجیب و غریب مزاج کے حامل ہو چکے ہیں۔
تبدیلیوں کو قبول کرنے کے لیے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ کسی بھی بڑی تبدیلی کو زندہ دلی کے ساتھ قبول کرنے کی صورت میں زندگی کا معیار بلند کیا جا سکتا ہے۔ کئی معاشرے ہمارے سامنے تبدیل ہوئے اور اُنہوں نے اپنے ہاں رونما ہونے والی ہر بڑی تبدیلی کو ہنس کر، پوری زندہ دلی، توانائی اور لگن کے ساتھ گلے لگایا۔ یہ ذہن کو راضی کرنے کا معاملہ ہے۔ مغربی معاشروں نے اپنے آپ کو صدیوں کی آزمائش کے نتیجے میں بہتر زندگی کے لیے تیار کیا۔ ہم اپنا موازنہ مغربی معاشروں سے نہ بھی کریں تو ایشیا اور افریقہ کے چند معاشروں سے ضرور کر سکتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ اس معاملے میں بھی ہم بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ ایشیا کے متعدد معاشروں نے بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بدل کر اپنے لیے قابلِ رشک مقام یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ ہم اب تک اپنے آپ کو تیار ہی نہیں کر پائے۔ وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ دنیا بہت آگے جا چکی ہے۔ اب ہمارے لیے دوسرے نہیں بلکہ تیسرے، چوتھے یا اُس سے بھی نچلے درجے کی زندگی رہ گئی ہے۔ یہ ایسی زندگی ہے جسے عرفِ عام میں ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ انسان کی سرشت عجیب ہی ہے۔ جب ہر طرف مشکلات ہوتی ہیں تب وہ کچھ کرنے کا سوچتا ہے، کچھ کر گزرنے کی ٹھانتا ہے مگر جب آسانیاں بڑھ جائیں تو تن آسانی کسی بھی کام کا معیار بلند نہیں ہونے دیتی۔ اِسی بات کو جگرؔ مراد آبادی کے اُستاد اصغرؔ گونڈوی نے یوں بیان کیا ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے
ہم نے شاید لاشعور کی سطح پر طے کر لیا ہے کہ آسانیاں جتنی بڑھتی جائیں گی‘ زندگی کو ہم اُتنا ہی مشکل بناتے جائیں گے۔ پھر سوچیے! کتنی عجیب بات ہے کہ آسانیوں کے باوجود کچھ بننے اور کر دکھانے کی لگن ہی نہیں رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں