کامیابی حقیقی اور خالص مفہوم میں کبھی انفرادی یا شخصی نہیں ہوتی۔ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُس کی کامیابی صرف اُس کی محنت اور صلاحیت کا نتیجہ ہے۔ جس طور ہم اپنی صلاحیتوں سے کسی کو مستفید کرتے ہیں بالکل اُسی طور کوئی اپنی صلاحیتوں سے ہمیں فائدہ پہنچا رہا ہوتا ہے۔ دنیا کا کاروبار اِسی طور چلتا آیا ہے اور اِسی طور چلتا رہے گا۔ ہر دور میں دنیا اشتراکِ عمل ہی سے چلتی آئی ہے۔ سب مل کر کام کرتے ہیں تو ہی مطلوب اور حوصلہ افزا نتائج حاصل ہو پاتے ہیں۔ کسی بھی شعبے پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ اشتراکِ عمل ہی کے دم سے سارا رونق میلہ ہے۔ اس معاملے میں بالی وُڈ کے بے تاج بادشاہ یوسف خان (دلیپ کمار) مرحوم کی ایک بات واقعی ایسی ہے کہ یاد رکھی جائے اور دوسروں کو بھی بتائی جائے۔ ایوارڈز کی ایک تقریب میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے یوسف صاحب نے (اداکاری میں) کامیابی کا نسخہ بتایا تو بہت سے معاملات گنوائے۔ اُن کا کہنا تھا ''محنت، لگن، انہماک، دیانت سب کچھ اپنی جگہ مگر دوسروں کا کردار بھی کم نہیں ہوتا۔ کوئی بھی فلم ٹیم ورک کا نام اور اسی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ محض ہیرو، ہیروئن، گلوکار، موسیقار، سنیماٹوگرافر، سکرپٹ رائٹر یا کوئی اور فرد فلم کی کامیابی کا پورا کریڈٹ نہیں لے سکتا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ''کوئی بھی اداکار اُسی وقت کچھ کرکے دکھا سکتا ہے جب اُسے بہت اچھا موضوع دیا گیا ہو، فلم کی کہانی اچھی ہو، مکالمے جاندار ہوں، کہانی کے موڑ بہت جاندار ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سکرپٹ کی زبان ہر اعتبار سے موضوع سے انصاف کرتی ہوئی ہو‘‘۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دلیپ صاحب نے شہرت اور مقبولیت سے مزین زندگی بسر کی۔ اُن کے چاہنے والے آج بھی کروڑوں میں ہیں۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ وہ زندگی بھر اصول پسندی کے دلدادہ رہے۔ زیادہ کام نہیں کیا۔ کسی بھی فلم میں کام کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کرنے سے پہلے وہ اچھی طرح جان لیتے تھے کہ فلم میں اُن کے لیے کیا ہے، کیا وہ اپنے موضوع سے انصاف کرسکیں گے، کیا فلم کچھ دے سکے گی اور کیا وہ فلم کو کچھ دے سکیں گے۔ اُن کا استدلال تھا کہ substance پر متوجہ رہنا چاہیے کیونکہ باقی سب کچھ تو محض پرچھائی ہے۔ 1944 میں دلیپ صاحب کی پہلی فلم ''جوار بھاٹا‘‘ ریلیز ہوئی تھی۔ آخری فلم ''قلعہ‘‘ 1997 میں آئی تھی۔ 53 برس کی اِس مدت میں انہوں نے صرف 55 فلموں میں کام کیا۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کام کے معاملے میں کتنے محتاط اور نفاست پسند تھے۔ اپنا کام جامع ترین انداز سے کرنے کے معاملے میں ان کو جنونی کہا جاسکتا ہے۔ کام اُنہوں نے کم کیا مگر جن کے ساتھ بھی کام کیا اُن کی قدر افزائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ کسی بھی فلم کی کامیابی کا پورا کریڈٹ اپنے کھاتے میں نہیں ڈالتے تھے بلکہ سب کی محنت کو سراہتے تھے۔ اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جس فلم میں دلیپ صاحب ہوتے تھے وہ پوری کی پوری فلم اُن کی ہوا کرتی تھی مگر پھر بھی وہ وسیع النظری اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو سراہنے میں کوتاہی کے روادار تھے نہ تاخیر کیا کرتے تھے۔
بالی وُڈ میں ایسے بہت سے ہیرو گزرے ہیں جنہوں نے بھرپور مقبولیت اور کامیابی کو صرف اپنی محنت کا نتیجہ جانا اور دوسروں کو بھول گئے۔ کسی بھی فلم کی تیاری میں بہت سے لوگ پسِ پردہ رہتے ہوئے بہت کچھ کرتے ہیں۔ اُن کی محنت کو تسلیم کرنا اور اُنہیں سراہنا بھی لازم ہے تاکہ وہ بہتر کام کرنے کی تحریک پائیں۔ جن ہیروز اور ہیروئنوں نے اپنی کامیابی کو صرف اپنی محنت کا نتیجہ گردانتے ہوئے دوسروں کو نظر انداز کیا اُنہیں بعد میں‘ مقبولیت کا سورج غروب ہونے پر‘ ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا گیا۔ امیتابھ بچن نے یہ سب کچھ بہت پہلے سیکھ لیا تھا۔ اُنہوں نے بے مثال مقبولیت کے زمانے میں بھی سرکشی اور خود سری کو اپنے سر میں گھسنے نہیں دیا۔ وہ فلم کے یونٹ سے وابستہ ہر فرد کو احترام کی نظر سے دیکھنے اور‘ جہاں لازم ہو وہاں‘ سراہنے کے عادی رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہیں گھر سے بھی اچھی تربیت ملی۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ انہوں نے اپنی ریاضت کے ذریعے پوری کرلی۔ کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی کے لیے اعتماد بنیادی شرط ہے۔ یہ اعتماد ہی ہے جو انسان کو ڈھنگ سے کام کرنے اور تمام مشکلات کا سامنا کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ اگر کسی میں فطری طور پر غیر معمولی اعتماد پایا جائے تو اِسے نعمت گردانا جائے۔ یہ نعمت انسان کو بلندی تک لے جاتی ہے۔ خود اعتمادی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بہترین سمجھے۔ جب تک کسی کو اپنے وجود پر یقین نہ ہو تب تک وہ کچھ بن نہیں سکتا، کوئی بڑا کام کر نہیں سکتا۔ خود اعتمادی نے بہت سوں کو شاندار کامیابی دلائی ہے۔ یہ ہر دور کا معاملہ ہے۔ والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ اولاد میں بھرپور اعتماد پیدا کریں تاکہ وہ زندگی کے ہر چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کرے اور اپنی صلاحیت و سکت کو شاندار انداز سے بروئے کار لائے۔
کیا خود اعتمادی خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ کسی بھی انسان میں جب خود اعتمادی بہت بڑھ جاتی ہے تب بعض معاملات میں شدید نوعیت کی کوتاہیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ کسی بھی انسان کے پنپنے کا مرحلہ وہاں ختم ہو جاتا ہے جہاں وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب وہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں اور اپنے طور پر وہ سب کچھ کرسکتا ہے جو کرنا چاہتا ہے۔ خود اعتمادی اگر بے قابو ہو جائے تو انسان کو گھمنڈ کے گڑھے میں گراکر دم لیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سوں کو بے لگام خود اعتمادی ہی لے ڈوبتی ہے۔ اس نوعیت کا اعتماد انسان کو دوسروں پر بھروسا کرنے اور اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھنے سے روکتا ہے۔ بس یہیں سے انسان کے لیے زوال کا معاملہ شروع ہوتا ہے۔ دانش مند وہ ہے جو اپنے وجود کو پروان چڑھانے میں دوسروں کا کردار تسلیم کرے اور جہاں تک ممکن ہو، دوسروں کے کام آنے کی کوشش کرے۔ ڈھنگ سے جینے کی یہ ایک معقول صورت ہے۔ کچھ لازم نہیں کہ انسان دوسروں کو نظر انداز کرتا ہوا چلے اور اپنی ہی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہے۔
صرف کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کم و بیش ہر معاملے میں کامیابی ٹیم ورک ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کہیں ٹیم باضابطہ شکل میں ہوتی ہے اور کبھی بے ضابطہ انداز سے کام کرتی ہے۔ کسی بھی انسان کی بھرپور کامیابی صرف اُس کی صلاحیت و سکت کے نتیجے تک محدود نہیں ہوتی۔ دوسروں سے بھی بہت کچھ ملتا ہے یا پھر لینا پڑتا ہے۔ اگر کوئی اپنی کامیابی میں دوسروں کے کردار کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہوئے سارا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالے تو اُسے لوگوں سے ملنے والے احترام اور محبت میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ لوگ اس سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
''میں بھی‘‘ والا رویہ زیادہ جاندار ہے اور اِسی سے بھرپور کامیابی ملتی ہے۔ جب کوئی بھی انسان اپنے آپ کو بہترین قرار دینے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی قبول اور تسلیم کرتا ہے تب کچھ کر پاتا ہے۔ جب ''صرف میں‘‘ والا رجحان پنپتا ہے تب انسان کے لیے آگے بڑھنا ممکن نہیں رہتا۔ اپنے آپ کو عقل مند سمجھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ قباحت تو اِس بات میں ہے کہ دوسروں کو بے وقوف گردانا جائے۔ تمام معاملات میں یہ حقیقت ذہن نشین رکھی جانی چاہیے کہ ہر انسان باصلاحیت ہوتا ہے اور اُس کی اچھی کارکردگی کوئی نہ کوئی اثر چھوڑتی ہے۔ کسی کے حصے میں زیادہ کامیابی اور مقبولیت آتی ہے اور کسی کو ذرا کم ملتا ہے۔ یہ تو ہوا نصیب کا معاملہ۔ محنت تو سبھی کرتے ہیں۔ جب خود اعتمادی منطقی حدود سے چند قدم آگے بڑھ کر گھمنڈ میں تبدیل ہوتی ہے تب انسان اپنے آپ کو بہترین اور دوسروں کو بے وقوف سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ اِس مرحلے تک پہنچنے سے بچنا چاہیے۔
ہم زندگی بھر اشتراکِ عمل کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں۔ یہ مرحلہ ہمارے لیے زیادہ بارآور اُسی وقت ثابت ہوتا ہے جب ہم دوسروں کو بھی اہمیت دیں اور اچھے تال میل کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کریں۔