"MIK" (space) message & send to 7575

مایوسی کوئی حل نہیں

باضابطہ نظام کے بغیر جینے والے معاشروں کو آپ نے دیکھا ہے؟ ہمارے ہاں بہت سوں کا یہ خیال ہے کہ اب یہاں کوئی نظام باقی نہیں رہا۔ ایسا نہیں ہے! بہت کچھ ہے جو ابھی تک سلامت ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ میسر ہے اُسے بروئے کار لانے سے گریز کیا جارہا ہے۔ قوانین کا ڈھانچا بھی موجود ہے اور قوتِ نافذہ بھی موجود ہے۔ البتہ ''نیتِ نافذہ‘‘ کا فقدان ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ لوگ انفرادی فائدے یا ذاتی مفادات کو قومی مفادات اور اجتماعی فائدے پر ترجیح دینے کے مرض میں خطرناک حد تک مبتلا ہیں۔ جب تک یہ مرض دم نہیں توڑے گا تب تک ہم ڈھنگ سے جینے کے قابل نہ ہوسکیں گے۔ ناکام معاشرے وہ ہیں جن میں نظام دم توڑ چکا ہے۔ اِس کی نمایاں ترین مثالیں افریقہ اور لاطینی امریکہ میں دکھائی دیتی ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا میں بھی کئی ممالک ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں؛ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اب بھی اُن میں بہت کچھ باقی ہے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بیشتر معاشروں میں کرپشن، لاقانونیت اور دہشت گردی خطرناک بلکہ جان لیوا حد تک پھیل چکی ہے۔ بیشتر معاملات اپنی اصل سے محروم ہوچکے ہیں۔ انفرادی فوائد کے لیے اجتماعی فوائد کو قربان کرنے کی روش عام ہے۔ کرپشن اس قدر ہے کہ عدلیہ اور سکیورٹی ادارے بھی مکمل محفوظ نہیں۔ عدلیہ برائے نام رہ گئی ہے۔ تعلیمی نظام بھی تباہ ہوچکا ہے۔ معاشرتی معاملات بھی خطرناک حد تک رُلے ہوئے ہیں۔ بے راہ رَوی عام ہے۔ حرام کو حرام سمجھنے کا رجحان کب کا ترک کیا جاچکا۔ جرائم پیشہ افراد کے منظم گروہ پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔ منشیات کا دھندا عام ہے۔ اغوا برائے تاوان، سمگلنگ، انسانی سمگلنگ، اُجرت کے عوض ٹارگٹ کلنگ عمومی بات ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے اٹھ نہیں پارہے، اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونے کی پوزیشن میں نہیں آ پارہے۔ کیا ہمارے ہاں یہ سب کچھ ہے؟ بہت سی خرابیوں کے باوجود ابھی تک ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ ہمارے ہاں نظام دم توڑ چکا ہے یا اِس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ بات بن نہیں سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ نظام سے مکمل محرومی کی منزل سے ہم اب تک بہت دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب بھی بہت سے معاملات ترتیب سے ہیں۔ ہمارے بہت سے تجزیہ کار سیاسی اور معاشی معاملات کا تجزیہ کرتے وقت غیر معمولی قنوطیت کا اظہار کرنے کے عادی ہیں۔ خرابیاں تو ہیں اور ہر معاشرے میں ہوتی ہیں۔ خرابیوں کی محض نشاندہی کافی نہیں بلکہ اُن کے اسباب کی چھان بین بھی کی جانی چاہیے۔ جب عام آدمی کو خرابی کے اسباب کا علم ہوتا ہے تب ہی وہ اپنے لیے کوئی معقول لائحۂ عمل طے کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔
ہمارے ہاں ہر معاملے میں انتشار کی وہ کیفیت اب تک پیدا نہیں ہوئی جسے خالص نراجیت کہا جاتا ہے۔ نراجیت یعنی کسی باضابطہ نظام کا نہ ہونا، مکمل انتشار، ترتیب و ربط کا واضح فقدان۔ ایسی حالت میں سب کچھ اپنے طور پر چل رہا ہوتا ہے یعنی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ جس دِیے میں جان ہوتی ہے بس وہی روشن رہ پاتا ہے۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا رہا ہے۔ ہر عہد میں صرف طاقت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ تہذیب و اخلاق اور شائستگی جیسے اوصاف ایک خاص حد تک ہی قابلِ قبول سمجھے جاتے ہیں۔ حتمی تجزیے میں تو طاقتور ہی کامیاب اور بامراد قرار پاتے ہیں۔ اگر آج بھی طاقت ہی کو وجۂ برتری تسلیم کیا جارہا ہے تو حیرت کیسی؟
ہمارے جیسے معاشروں کا ایک بنیادی مسئلہ حکومتی یا ریاستی مشینری میں پائی جانے والی خرابیوں اور خامیوں کے باعث نظام کا ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل نہ ہو پانا بھی ہے۔ بہت کچھ ہے جو اپنی جگہ موجود ہے مگر غیر فعال ہے۔ نظام کے بیشتر پُرزے موجود ہیں مگر یا تو وہ بالکل کام نہیں کر رہے یا پھر ڈھنگ سے کام نہیں کر رہے۔ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب پورے معاشرے پر شدید بیزاری، بے دِلی اور بے حسی چھا جائے۔ حکومتی یا ریاستی مشینری کو چلانے والے بھی اِسی معاشرے سے آتے ہیں۔ جو کچھ پورے معاشرے میں پایا جاتا ہے وہی کچھ ریاستی مشینری کے پُرزوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہی کیفیت پائی جارہی ہے۔ نظام کا ڈھانچا نہ تو کہیں گیا ہے نہ ہی بالکل سڑا ہوا ہے۔ سوال صرف اِسے فعال کرنے کا ہے۔ کرپشن اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہمیں نظام کی موجودگی کا یقین ہی نہیں رہا۔ کرپشن کا معاملہ بھی عجیب ہی رہا ہے۔ اس میں سبھی نے حصہ ڈالا ہے۔ سوال صرف سیاست دانوں یا ریاستی مشینری کے کرپٹ ہونے کا نہیں‘ عوام بھی کرپشن کے ساگر میں ڈُبکیاں لگا رہے ہیں۔ عوام میں پائی جانے والی خرابیاں بھی کرپشن اور دیگر عوارض کے اثرات کو شدید سے شدید تر بنارہی ہیں۔ ایسے میں جب ہم معاملات کو درست کرنے نکلتے ہیں تب انتہائی ناپسندیدہ فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ مشکل فیصلے کسی کو پسند نہیں آتے۔ اپنے مفادات سے دو چار فیصد کی حد تک محروم ہونا بھی کوئی پسند نہیں کرتا۔ کبھی کبھی محض حالات کی مہربانی سے کسی کو اچھا خاصا فائدہ پہنچ جاتا ہے مگر جب دینے کی باری آتی ہے توہ اعراض برتنے لگتا ہے۔ اگر حالات کی مہربانی سے کچھ مل گیا ہو تو بعض مواقع پر تھوڑی بہت قربانی دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ بدقسمتی سے لوگ اِس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔ اگر مفادات پر جائز ضرب پڑ رہی ہو تو وہ مشتعل ہو جاتے ہیں، مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔
کسی بھی نظام کو درست یا فعال کرنے کے ابتدائی مراحل انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی اس وقت یہی مرحلہ درپیش ہے۔ نظام کو فعال کرنا ہے، بہتر بنانا ہے مگر وہ لوگ بھی اس کے لیے تیار نہیں جو ایسا کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ مشکل یہی تو ہے کہ کوئی بھی اپنے مفادات سے ایک فیصد کی حد تک بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ قومی مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے اچھا خاصا ایثار کرنا پڑتا ہے۔ قومی معاملات اِسی طور درست ہو پاتے ہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ سب کچھ درست ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں مگر قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔ملک کے خلاف پروپیگنڈا اس وقت معمول کی بات ہے۔ زیادہ زور و شور سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ ایک ناکام ریاست ہے۔ پاکستان سے کہیں زیادہ بگڑی ہوئی ریاستیں بھی ڈھنگ سے کام کر رہی ہیں مگر وطنِ عزیز کے حوالے سے شدید منفی تاثر اِس طور عام کیا جارہا ہے کہ ایک دنیا ہمارے بارے میں منفی انداز سے سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ شدید بے سر و سامانی اور غیر معمولی مخالفت و مخاصمت کے باوجود پاکستان نے اپنے آپ کو بہت سے شعبوں میں منوایا ہے۔ زبان و ادب، علم و فن، تفریحِ طبع، کھیل‘ کون سا شعبہ ہے جس میں پاکستانیوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوایا۔ بھارت، اسرائیل اور چند دوسرے ممالک کے بے لگام پروپیگنڈے کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں پاکستانی اپنی غیر معمولی صلاحیت و سکت کی بنیاد پر قابلِ رشک انداز سے کام کر رہے ہیں۔
جس طرح کے حالات کا ہم سامنا کر رہے ہیں اُن میں مایوس ہونا فطری امر ہے۔ سیاست اور معیشت میں کچھ بھی اچھا اور سیدھا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسے میں مایوس ہوکر بیٹھ رہنے سے تو کچھ بھی ہونے والا نہیں۔ اگر کچھ ہوگا تو صرف عمل سے ہوگا۔ ہمارا معاشرہ اچھی خاصی شکست و ریخت کے بعد بھی‘ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے‘ بہت حد تک برقرار ہے، اس قابل ہے کہ بحالی کی طرف لایا جاسکے، درستی کی سنجیدہ کوششوں کا جواب دے سکے۔ اس معاملے میں ہم دوسرے بہت سے پس ماندہ معاشروں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ نظام کو بہتر بنانے اور فعال کرنے سے متعلق سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ محض سرسری انداز سے نہیں بلکہ بھرپور سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسائل بڑھ ہی رہے ہیں مگر ہم تصویر کا ایک ہی رُخ دیکھتے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ بہت سے امکانات بھی موجود ہیں مگر ہم اُنہیں دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہم نظام سے محروم نہیں۔ اُسے صرف فعال کرنے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام جنگی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ مایوس ہوکر ہتھیار ڈال دینا ہمارے مسائل کا حل نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں