کائنات پر غور کیجیے تو صرف ایک بات ذہن میں آتی ہے: وسعت اور فراخی۔ یہ کائنات وسعت کا پیغام دیتی ہے۔ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ ہر اعتبار سے کشادگی اور فراخی سے عبارت ہے۔ ایسے میں اگر تنگی پیدا ہوتی دکھائی دے تو؟ ایسا صرف اُس وقت ہوسکتا ہے جب انسان کا ذہن فراخی کو قبول ہی نہ کر پائے یا پھر فراخی کے بارے میں سوچنے کا میلان کمزور پڑ جائے۔ یہ وسیع و عریض کائنات اپنی اصل میں چاہے جیسی بھی ہو اور جو کچھ بھی ہو، ہمارے لیے یہ وہی ہے جو ہم اِسے سمجھیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے پناہ وسعت کے ساتھ خلق کیا ہے۔ اللہ نے جیسی وسعت اپنی کائنات میں رکھی ہے ویسی ہی وسعت ہمارے وجود میں بھی رکھی ہے۔ ہمیں جو ذہن عطا کیا گیا ہے وہ وسعت کے بارے میں اِس طور سوچ سکتا ہے کہ کہیں کوئی حد دکھائی نہ دے۔ ذہن کو خلق ہی اِس طور کیا گیا ہے کہ یہ وسعت کے تصور کو اُس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ پروان چڑھاسکتا ہے۔ ذہن سے کام لینا ہمارا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذہن ضرور عطا کیا ہے مگر اُس سے کام لینے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ ذہن کو بروئے کار لانا ہر انسان کے لیے لازم ہے۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں انسان سمجھ پاتا ہے کہ فراخی کس کیفیت کا نام ہے اور اپنے وجود کو وسعت کس طور عطا کی جاسکتی ہے۔
ْقدرت نے انسان کو گوناگوں صلاحیتوں اور رجحانات کے ساتھ خلق کیا ہے۔ ہر انسان اپنے آپ میں ایک انوکھی کائنات ہے۔ انسان چاہے تو اپنے آپ کو ایک مکمل کائنات کے طور پر پیش کرے اور چاہے تو تنگ گلی جیسی حیثیت یقینی بناتے ہوئے اِس دنیا سے رخصت ہوجائے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی کو خلق تو کیا گیا ہو سمندر کی حیثیت سے اور وہ کنویں کی حیثیت سے دم توڑے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو اکثریت اُن کی ملے گی جو سمندر کی حیثیت سے خلق کیے گئے مگر انہوں نے اپنے آپ کو تالاب، جوہڑ یا کنواں بنانے کو ترجیح دی۔ کوئی بھی انسان اس لیے خلق نہیں کیا گیا کہ اپنے آپ کو محدود سے محدود تر کرتا چلا جائے۔ ایسا کرنا محض نعمت کو نعمت سمجھنے سے انکار ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے جبکہ ہمارا خالق چاہتا ہے کہ ہم اپنی ساخت اور کارکردگی پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے وجود پر غور کرنے اور اُسے سمجھنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ ہمارا وجود اس کی صناعی کا شاہکار ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو سمجھنے میں کسی حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں تب ہی خالق کی صناعی اور قدرتِ کاملہ کا کچھ کچھ اندازہ ہو پاتا ہے۔ ہر انسان بجائے خود اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا ایک شاہکار ہے۔ یہ احساس اگر موجود اور توانا ہو تو انسان دنیا میں اپنے قیام کے بنیادی مقصد یا مقاصد کے بارے میں سوچ پاتا ہے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔
عملی زندگی میں انسان کو بہت کچھ کر دکھانا ہوتا ہے۔ دوسروں کو متاثر کرنے والی کارکردگی کا مظاہرہ اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب انسان کو اپنے وجود پر پورا بھروسا ہو۔ اپنے وجود پر مکمل بھروسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان کو اپنے خالق پر بھی کامل بھروسا ہو۔ جب انسان یہ سوچتا ہے کہ اُس کے خالق نے اُسے کسی نہ کسی مقصد کے حصول کی خاطر وجود بخشا ہے تبھی کچھ ہو پاتا ہے۔ اپنے وجود کی اہمیت محسوس کیے بغیر کوئی بھی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ خالق کی بخشی ہوئی نعمت کو کمتر بنانے پر توجہ دے اور اپنے وجود کو نظر انداز کرکے معاملات کو خواہ مخواہ ناکامی کے گڑھے میں دھکیلے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ رب نے ہمیں اِس لیے تو خلق نہیں کیا کہ اپنے وجود کو بروئے کار لائے بغیر دنیا سے چلے جائیں۔ ہمارا خالق و رب ہم سے بہت کچھ چاہتا ہے۔ یہ زندگی اس لیے عطا کی گئی ہے کہ ہم اپنے رب کی مرضی کے مطابق جینے کی کوشش کریں۔اِس کے لیے ہمیں بہت کچھ اپنانا اور بہت کچھ چھوڑنا بھی پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر اپنے وجود کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا ممکن نہیں ہو پاتا۔
آپ نے اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو بہت کچھ کرسکتے تھے۔ اُن میں صلاحیت بھی تھی اور سکت بھی مگر وہ کچھ خاص نہ کر سکے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ قدرت نے اُنہیں سمندر میں سفر کے قابل بنایا تھا مگر اُنہوں نے خود کو کنویں کے مینڈک میں تبدیل کرلیا! غیر معمولی صلاحیت و سکت کے ساتھ دنیا میں آنے پر بھی اگر کوئی اپنے آپ کو اہم نہ سمجھے اور کسی نہ کسی طور صرف جینے کو ترجیح دے تو اسے کفرانِ نعمت ہی سمجھا جائے گا۔ یہ روش ہرگز پسندیدہ نہیں۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت خلق کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا ہر انسان پر لازم ہے۔ اِس دنیا کا معیار اُسی وقت بلند ہوتا ہے جب ہم اپنے رب کی عطا کردہ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر اپنے حصے کا کام کر گزرتے ہیں۔ مثبت سوچ اور نیک نیتی کے ساتھ مصروفِ عمل ہونے سے انسان اپنے وجود کا حق ادا کرتا ہے۔ اِس دنیا کا حُسن بڑھانے اور نکھارنے میں ہماری نیت اور عمل کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
نیت کی عظمت اس بات میں ہے کہ انسان ہر اُس صلاحیت کو صدقِ دل سے قبول کرے جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ اِس کے بعد سکت کو پہچاننے اور بروئے کار لانے کا مرحلہ آتا ہے۔ دنیا کو بہتر اور زیادہ ''قابلِ سکونت‘‘ بنانے میں سب سے اہم کردار اُن لوگوں کا ہے جو قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے معاملے میں سنجیدہ ہوتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اِس کے لیے ذہن سازی ناگزیر ہے۔ دنیا کے لیے کچھ کرنا دراصل اپنے لیے کچھ کرنا ہے۔ جو کچھ ہم اِس دنیا کے حسن میں اضافہ یقینی بنانے کے لیے کرتے ہیں اُس کے نتیجے میں ہمارے اپنے وجود کا درجہ بھی تو بلند ہوتا ہے۔ یہ دنیا اُسی وقت بہتر ہوسکتی ہے جب ہر انسان اپنی ذمہ داری محسوس کرے۔ ہر انسان کو اِس دنیا کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ کوئی بلند سطح پر جی رہا ہو یا نچلی سطح پر، اگر کچھ کرنا ہے تو اِس کے لیے سوچنا پڑے گا۔ محض زندہ رہنا کافی نہیں۔ گزارے کی سطح پر جینے کی صورت میں انسان اپنے خالق کی بتائی ہوئی راہ کے مطابق نہیں جی پاتا۔ علم و ہنر کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے زندگی گزارنے والے ہی اس دنیا کو کچھ دینے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
زندگی بہت بڑا معاملہ ہے۔ اِس معاملے کو کسی بھی اعتبار سے محض سرسری طور پر نہیں لیا جاسکتا۔ ہمیں روئے ارض پر محض اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ جیسے تیسے یہاں اپنے حصے کا وقت گزار کر چل دیں۔ لازم ہے کہ سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو اَپ گریڈ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اپنے وجود کا درجہ بلند کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ دنیا کا معیار بلند ہو۔ زندگی ہمیں بہت کچھ دیتی ہے تو بہت کچھ مانگتی بھی ہے۔ یہ کچھ دو اور کچھ لو کا معاملہ ہے۔ اِس میں کچھ غلط بھی نہیں۔ ہر انسان کو بہت کچھ بیٹھے بٹھائے مل جاتا ہے۔ ایسے میں اُس کے لیے بھی اِس دنیا کی خاطر بھی کچھ نہ کچھ کرنا ناگزیر ہے۔ کنویں کا مینڈک ہوکر رہ جانا کسی بھی اعتبار سے قابلِ ترجیح معاملہ ہے۔ زندگی کا حسن اس بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو نکھارے اور زیادہ سے زیادہ کام کرے تاکہ لوگ اُس کے وجود کی اہمیت محسوس کریں۔ یہ پورا معاملہ ہم سے غیر معمولی توجہ، انہماک اور سنجیدگی چاہتا ہے۔ اپنے وجود کو محدود رکھتے ہوئے جینا کسی بھی درجے میں پسندیدہ طرزِ فکر و عمل نہیں۔ ہماری عظمت اِس میں ہے کہ اپنی قدر سے واقف ہوں اور خود کو محدود کرنے سے گریز کریں۔