"MIK" (space) message & send to 7575

پروفیشنل اپروچ

آپ نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود کچھ زیادہ نہ کر پائے۔ وہ کچھ بن بھی نہ سکے اور اپنی شخصیت کا واضح تاثر چھوڑنے میں بھی ناکام رہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ غیر معمولی صلاحیتوں کے باوجود لوگ ناکامی سے دوچار کیوں ہوتے ہیں؟ کسی بھی انسان کو متعدد عوامل ناکامی سے دوچار کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان باصلاحیت تو ہوتا ہے مگر اُس میں کام کرنے کی زیادہ لگن نہیں ہوتی۔ بہت سوں کا معاملہ یہ رہا ہے کہ قدرت نے صلاحیت بھی دی اور کام کرنے کی لگن بھی مگر وہ سکت پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ یا یہ ہوا کہ جب اُنہیں زیادہ کام کرنا تھا تب اُن میں سکت باقی نہ رہی۔ آپ نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جو صلاحیت و سکت کے ساتھ ساتھ لگن کے بھی حامل ہوتے ہیں مگر اپنے شعبے کے حالات سے کماحقہٗ باخبر نہ ہونے کے باعث ناکام رہتے ہیں۔ ایک کلیدی عامل ہے مزاج! انسان اگر مزاج کو درست رکھنے میں ناکام رہے تو عملی زندگی میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سوں کو آپ اِس حال میں دیکھیں گے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی کامیابی حاصل یا برقرار رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اِس میں اُن کے مزاج کا بھی کردار ہوسکتا ہے۔ مزاج انسان کے لیے راستے بناتا بھی ہے اور بند بھی کرتا ہے۔ اگر مزاج میں پائی جانے والی ٹیڑھ کو دور کرنے پر توجہ نہ دی جائے تو صلاحیت و سکت اور لگن کا حامل ہونے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ عملی زندگی میں یا پروفیشنل سطح پر اِس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ شوبز کی دنیا اِس حوالے سے بہت کچھ سکھاتی ہے۔ کسی بھی شعبے کی طرح شوبز میں بھی پروفیشل اپروچ کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ بہت سے فنکار محض اس لیے ناکام رہے کہ اُنہوں نے کام کا ماحول بہتر بنانے والے معاملات پر توجہ ہی نہیں دی۔ شہرت اور دولت جب دماغ خراب کرنے پر تُل جائے تو انسان کہیں کا نہیں رہتا۔
بالی وُڈ میں شتروگھن سنہا کی مثال بہت نمایاں ہے۔ وہ ایک اچھے اداکار تھے اور اُنہوں نے بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ امیتابھ بچن کے ساتھ بھی اُن کی کارکردگی بہت پسند کی گئی۔ شتروگھن سنہا نے بالی وُڈ میں اپنے لیے تھوڑا بہت مقام پیدا کیا مگر مزاج کی کجی نے اُن کے لیے امکانات پہلے محدود اور پھر مسدود کر دیے۔ شتروگھن سنہا شوٹنگ پر بہت دیر سے پہنچتے تھے۔ اِس کے نتیجے میں صرف اُن کی نہیں‘ دوسروں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی تھی۔ ساتھی فنکاروں کو یہی شکایت رہتی تھی کہ وہ اپنے کام پر دھیان نہیں دیتے اور پورے یونٹ کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ پھر وہ شوٹنگ کے دوران بد دماغی اور تنک مزاجی کا مظاہرہ بھی کرتے تھے۔ شتروگھن سنہا اپنے مزاج میں پائی جانے والی اس ٹیڑھ کو دور نہ کرسکے اور اِس کا نتیجہ بھی سب نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ وہ منظر سے ہٹ گئے۔
کشور کمار کا شمار بالی وُڈ کی اُن شخصیات میں ہوتا ہے جو عجیب و غریب مزاج کے حامل تھے۔ وہ بہت مُوڈی تھے۔ کبھی کبھی وہ بات بات پر برہم ہو اُٹھتے تھے۔ کبھی کسی سے اچانک خوش بھی ہو جاتے تھے۔ کشور کمار نے اداکاری بھی کی اور گلوکاری بھی۔ اداکار کی حیثیت سے وہ زیادہ کامیاب نہیں رہے گلوکاری میں البتہ اُنہوں نے بہت نام پیدا کیا۔ وہ حقیقی معنوں میں فلمی گلوکار تھے۔ وہ کسی بھی گیت کو فلم کی سچوایشن کے تقاضوں کے مطابق گانے کے ماہر تھے۔ اُن کے گائے ہوئے گیتوں نے راجیش کھنہ کو سپر سٹار بنایا۔ بعد میں امیتابھ بچن پر بھی اُن کی آواز فِٹ بیٹھی۔ کشور کمار نے اپنے مزاج کی ٹیڑھ کو پروفیشنل معاملات پر زیادہ اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ پروفیشنل اِزم کے تقاضے نبھانا اُنہیں خوب آتا تھا۔ اُنہوں نے مزاج پر ہمیشہ کام کو ترجیح دی۔ مزاج میں پائی جانے والی سَنک کو اُنہوں نے کام پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ وہ چونکہ حقیقی پروفیشنل اپروچ کے حامل تھے اِس لیے اپنے فن کی حدود اچھی طرح جانتے تھے۔ جو کام اُن کے بس کا نہیں ہوتا تھا اُس کے حوالے سے وہ ضد پر مبنی رویہ نہیں اپناتے تھے۔ محمد رفیع مرحوم کو وہ بہت بڑا گلوکار تسلیم کرتے تھے۔ محمد رفیع صاحب ہر طرح کے گانے گایا کرتے تھے۔ وہ کلاسیکل سیکھے ہوئے تھے اس لیے کلاسیکل گانے بھی آسانی سے گالیتے تھے۔ کشور کمار جب اداکار تھے تب بھی گاتے تھے مگر تبھی اُن پر محمد رفیع صاحب کے گائے ہوئے گانے فلمبند ہوئے۔ ''راگنی‘‘ میں کشور کمار پر فلم بند کیا جانے والا گیت ''من مورا باورا‘‘ محمد رفیع نے گایا تھا۔ ''شرارت‘‘ کے لیے ان کا گایا ہوا گانا ''عجب ہے داستاں تری اے زندگی‘‘ بھی کشور کمار پر فلمبند کیا گیا تھا۔ اس گانے سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے کشور کمار کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا؛ تاہم خود اُنہیں بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ گیت کا حق ادا نہیں کرسکے۔ جب ڈائریکٹر نے یہ گیت محمد رفیع صاحب سے گوانے کی بات کی تو کشور کمار نے ذرا سا بھی اعتراض نہ کیا۔ ''راگنی‘‘ کے معاملے میں بھی یہی ہوا تھا۔ کشور کمار اچھی طرح جانتے تھے کہ اُنہوں نے کلاسیکل کی تربیت نہیں لی اس لیے کلاسیکل آئٹم نہیں گا سکتے۔ اِس حقیقت کو اُنہوں نے اپنے لیے اَنا کا مسئلہ کبھی نہیں بنایا۔ وہ محمد رفیع صاحب کی عظمت سے واقف تھے اور اِس کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔
1970ء میں راجیش کھنہ کی فلم ''ہاتھی میرے ساتھی‘‘ بن رہی تھی۔ جنوبی ہند میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی اس فلم کا ہندی سکرپٹ سلیم خان اور جاوید اختر نے 'رپیئر‘ کیا تھا۔ اس فلم کے لیے کلائمیکس کا گانا ''مطلب کی دنیا کو چھوڑ کے‘‘ ریکارڈ کرانے کا مرحلہ آیا تو کشور کمار کو یاد کیا گیا۔ فلم کے باقی گیت اُنہوں نے ہی گائے تھے۔ گانا ریکارڈ کیا گیا مگر معاملہ وہی ''شرارت‘‘ والا رہا یعنی بات نہیں بنی۔ کلائمیکس کے تقاضوں کے مطابق جو تاثرات گانے میں درکار تھے وہ کشور کمار نہ دے سکے۔ یہ بات خود اُنہوں نے بھی محسوس کی اور پھر خود ہی مشورہ دیا کہ یہ گانا تو صرف محمد رفیع ہی گا سکتے ہیں! تب راجیش کھنہ پر صرف کشور کمار کی آواز جچتی تھی مگر راجیش کھنہ نے بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ کلائمیکس کا گانا رفیع صاحب گائیں۔ پروفیشنل اِزم اِسی کا نام ہے۔ جو کام جس سے ہوسکتا ہے اُسی سے کروایا جائے۔ بالی وُڈ کی کامیابی کا ایک اہم راز یہ بھی ہے کہ وہاں ''جس کا کام اُسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے‘‘ والی کہاوت پر عمل ہوتا ہے یعنی ہر انسان سے اُس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جاتا ہے اور اس حوالے سے اَنا کو کسی بھی مرحلے پر حائل نہیں ہونے دیا جاتا۔
کسی بھی شعبے میں حقیقی کامیابی پروفیشنل اپروچ سے یقینی بنتی ہے۔ پروفیشنل اپروچ کا مطلب ہے زمینی حقائق سے ہم آہنگ رہتے ہوئے کام کرنا۔ کارپوریٹ کلچر میں اِس بات کی غیر معمولی اہمیت ہے کہ کام کے لیے موزوں ترین شخص تلاش کیا جائے اور اس معاملے میں جھوٹی انا کو مداخلت کا موقع نہ دیا جائے۔ آج بھی دنیا بھر میں ایسے ادارے موجود ہیں جن میں مالکان یا انتظامیہ کو گالیاں دینے والے شخص کو محض اس لیے برداشت کیا جاتا ہے کہ وہ ادارے کے لیے کام کا ہوتا ہے! ہمارے ہاں بھی ایسے ادارے موجود ہیں جن میں کام کرنے والے بہت سے افراد مالکان اور انتظامیہ کو دن رات کوستے رہتے ہیں مگر یہ سب کچھ فراموش کر کے صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کام کے ہیں اور ادارے کو اُن سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پروفیشنل اپروچ کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے ذاتی معاملات اور پسند و ناپسند کو ایک طرف ہٹاکر سوچے۔ اگر کوئی شخص کام کا ہے تو اُس سے کام لیا جانا چاہیے۔ پھر یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ مزاج کا کیسا ہے۔ سوال مزاج کا نہیں‘ افادیت کا ہے۔ پروفیشنل اپروچ کو بنیاد بناکر کام کرنے والوں میں کام کرنے کی لگن پائی جاتی ہے۔ کام لینے والوں کو بس اِسی بات سے غرض ہونی چاہیے۔ حقیقی عملی زندگی میں صرف زمینی حقائق کی اہمیت ہوتی ہے۔ ایسے ماحول میں جذباتیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ نری جذباتیت سے مغلوب ہو جانے والوں کو کہیں بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ وہ اپنے کام تو خراب کرتے ہی ہیں‘ دوسروں کے کام بھی بگاڑ دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں