آتے آتے دنیا اُس موڑ تک آچکی ہے جہاں سے ہر طرف صرف مادّہ پرستی دکھائی دے رہی ہے۔ آج کا انسان عجیب مخمصے کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ خالص مادّہ پرست زندگی بسر کرنا چاہتا ہے‘ دنیوی لذتیں حواس پر حاوی ہیں‘ ہوا و ہوس کی غلامی نے دل و دماغ کو مفلوج کر رکھا ہے۔ دوسری طرف بچی کھچی اخلاقی اقدار ہیں جن کا رونا روتے رہنے سے بھی فرصت نہیں۔ انسان اٹکا ہوا ہے۔ وہ دُنیا کو پانا بھی چاہتا ہے اور روحانی معاملات کے حوالے سے بھی کامیابی یقینی بنانے کا خواہش مند ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی دنیا سے اندھی عقیدت رکھے اور روحانی و اخلاقی دائرۂ فکر و عمل میں بھی کوئی بلند مقام پائے؟ دنیا کو اپنائیے یا پھر دل کو اپنا محور بنائیے۔
اب یہ یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ کبھی یہ دنیا انتہائی حسین تھی۔ زندگی جب سادہ و آسان تھی اُس زمانے کو گزرے ہوئے زیادہ زمانہ نہیں گزرا۔ انسان ماضی پرست واقع ہوا ہے اور ماضی کی یادوں اور ناسٹلجیا کے نام پر وہ گزرے ہوئے زمانوں کا ماتم کرتا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک طرح کا ذہنی مرض ہے کہ انسان ماضی کو روتا رہے اور حال کو درست کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہ لے۔ اگر یہ روش پوری زندگی پر محیط ہو تو انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ دنیا تو ہاتھ سے جاتی ہی ہے‘ آخرت کے معاملات درست رکھنے پر بھی کچھ زیادہ اختیار نہیں رہتا۔ بات ہو رہی ہے اُس زمانے کی جب یہ دنیا واقعی رہنے کے قابل تھی۔ رہنے کے قابل تو خیر اب بھی ہے مگر تب ایسی پیچیدگیاں نہ تھیں۔ تب انسان کے ہاتھ میں بہت کچھ تھا۔ حالات اثر انداز تو ہوتے تھے مگر اِتنے نہیں کہ انسان کا اپنے وجود پر کوئی اختیار ہی نہ رہے۔ کم و بیش ایک صدی کے دوران دنیا بالکل بدل گئی ہے۔ پانچ‘ چھ ہزار سال کے دوران انسان نے جو کچھ سوچا تھا وہ جمع ہوکر بیسویں صدی میں سامنے آیا اور عمل کی دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ یہ تبدیلی معمولی نہ تھی کیونکہ سبھی کچھ بدل کر رہ گیا۔ انسان نے اپنی ہزاروں سال کی تاریخ کے دوران بہت سے مراحل میں تبدیلیوں کا مشاہدہ بھی کیا تھا اور اُن کے اثرات بھی قبول کیے۔ اگر تبدیلیاں واقع نہ ہوئی ہوتیں تو ہم آج بھی غاروں ہی میں رہ رہے ہوتے۔ خیر‘ جو کچھ انسان نے ان ہزاروں سالوں کے دوران اپنایا تھا وہ بیسویں صدی میں مکمل طور پر بدل گیا اور بہت کچھ ہاتھ سے جاتا بھی رہا۔ گزشتہ پچاس برس میں ترقی کی رفتار اِتنی تیز رہی کہ کسی بھی چیز کو غیر متعلق اور از کارِ رفتہ ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہی اِس دور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ غیر متعلق ہوکر رہ گیا ہے۔
آج ہم مادّہ پرستی کے جال میں اِس بُری طرح پھنس گئے ہیں کہ بہت کچھ سمجھ میں تو آ جاتا ہے مگر ہم اُس پر عمل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ انسان بعض معاملات میں غیر ضروری طور پر بلکہ شرمناک حد تک حریص ہوکر رہ گیا ہے۔ دنیا کی کشش خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں یہ جان لیوا حد تک پہنچ چکی ہے۔ انسان نے اِس دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ ایسا تو خیر ہر دور میں ہوتا آیا ہے مگر اب یہ ہوا ہے کہ دنیا سے ہٹ کر کچھ سوچنے کا رجحان کمزور تر ہوتا جارہا ہے۔ جو کچھ سامنے ہے بس اُسی کی پرستش ہو رہی ہے۔ جو کچھ حتمی طور پر ہوگا اُس پر یقین محض رسمی کارروائی یا خانہ پُری کے طور پر ہے۔ لوگ اِس معاملے میں سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لیتے۔ دنیا کی کشش ہر معاملے کو لپیٹ میں لے رہی ہے۔ انسان نے سوچ لیا ہے کہ جتنے بھی مزے سوچے جاسکتے ہیں وہ اِسی دنیا میں حاصل کیے جائیں۔ آخرت پر اول تو یقین کم ہی لوگوں کو ہے اور جو آخرت پر یقینِ کامل رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی بیشتر معاملات میں دنیا کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کی طرزِ فکر و عمل سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ دنیا سے ہٹ کر کچھ نہیں سوچنا چاہتے اور آخرت کے حوالے سے اُن کا تصور سطحی یا واجبی نوعیت کا ہے۔
انتہائی عجیب مخمصہ یہ ہے کہ آج لوگ بہت کچھ مانتے ہیں مگر اُس پر عمل نہیں کرتے۔ اِس کے مقابل بہت سے معاملات کو وہ مسترد کرتے ہیں مگر اُن سے دامن نہیں چھڑاتے۔ زندگی میں دُوئی بہت زیادہ آگئی ہے۔ ہر معاملہ ہوتا کچھ ہے اور دکھائی کچھ دیتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں زندگی کا حقیقی حُسن دھندلا گیا ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ زندگی کا حقیقی حسن کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں بہت سے دلائل دیے جاسکتے ہیں۔ ہر انسان کی نظر میں زندگی کو حسین بنانے والی باتیں مختلف ہیں۔ یہ اختلافِ فکر و نظر بھی زندگی کا حسن ہے۔ ہمارے خالق اور کائنات کے رب کی نظر میں زندگی کا حقیقی حسن یہ ہے کہ اُس کی مرضی کا پابند رہا جائے، دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے اور جزا کا معاملہ آخرت پر چھوڑ دیا جائے۔ ہمارا کام ہے اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق‘ اس کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق جینا۔ ایسے جینے میں ہمارے لیے کیا ہے‘ یہ بھی ہمارے خالق ہی کو طے کرنا ہے۔
اب مشکل یہ آ پڑی ہے کہ ہر طرف مادّیت کا چرچا ہے۔ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ کر جینے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ جو لوگ احساس، اخلاص، انسان دوستی، شائستگی، مروّت وغیرہ کی بات کرتے ہیں اُنہیں حیرت سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض معاملات میں حیرت کے ساتھ بیزاری بھی دکھائی دیتی ہے۔ اخلاقی اقدار کی باتیں کرنے والے اپنے ہی ماحول میں اجنبی ہوکر رہ گئے ہیں۔ بچوں میں بگاڑ اس لیے زیادہ ہے کہ والدین خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔ والدین کی اکثریت کا معاملہ یہ ہے کہ اُن کی اپنی تربیت نہیں ہو پائی۔ ایسے میں وہ اپنی نئی نسل کی کیا تربیت کریں گے! آج کی نئی نسل کو اخلاقی اقدار سے رُوشناس کرانا انتہائی مشکل کام ہے۔ اُن کے ذہن میں صرف مادّیت بسی ہوئی ہے۔ جو لوگ آج 80 سال کے ہیں اُن کا بچپن اور عہدِ شباب دونوں زمانے خاصی پسماندگی میں گزرے کیونکہ تب تک بہت کچھ ایجاد یا دریافت ہونا باقی تھا۔ یہ کمی اُن کی زندگی میں بہت کچھ زندہ رکھے ہوئے تھی۔ اخلاقی اقدار کو وقت کی دیمک نے چاٹا نہیں تھا۔ لوگ دنیا کے حریص بھی تھے مگر نہایت معمولی حد تک۔ وہ دنیا کو پانا چاہتے تھے مگر آخرت کی قیمت پر نہیں۔ یہ تصور خاصا راسخ تھا کہ یہاں سے جانا ہے اور پھر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اور یہ کہ اُس روزِ حساب سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
آج ہر شریف النفس انسان کے لیے قدم قدم پر لمحاتِ آزمائش ہیں۔ دنیا اُس کے لیے امتحان گاہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ معاشروں کا عمومی مزاج خود غرضی ہے۔ ایسے میں جو بے غرض ہوکر جینے کی بات کرتا ہے وہ اجنبی ہوکر رہ جاتا ہے۔ لوگوں میں بہت تیزی سے مشتعل ہو جانے کی عادت پختہ ہوچکی ہے۔ جو تحمل کو زندگی کی بنیادی قدر کے طور پر اپنانے کی بات کرتا ہے اُسے لوگ عقل سے محروم سا تصور کرتے ہیں۔ بعض حالات میں تو ایسے لوگ کسی اور سیارے سے آئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں! اُن کی سادہ سی بات بھی لوگوں کو بہت عجیب محسوس ہوتی ہے۔ معاشرہ شدید افتراق و انتشار کا شکار ہے۔ بہت کچھ الٹ پلٹ چکا ہے۔ سادہ اور آسان سی زندگی کو چیستان بنانے میں کوئی کسر چھوڑی نہیں گئی ہے۔ اِس کے نتیجے میں تہذیب اور شائستگی کا داؤ پر لگنا فطری امر ہے۔ آج ہمارے ماحول میں شائستگی انتہائی کمیاب صفت ہے۔ یہاں بھی اب کسی کا درد محسوس کرنے کی روش کو لوگ عجائب میں شمار کرتے ہیں۔ ع
کیا خبر تھی دردِ دل بھی دردِ سر ہو جائے گا
وقت آگیا ہے ہم اپنے اپنے وجود کا جائزہ لیں، اپنی خامیوں کو دور کرنے پر متوجہ ہوں۔ ہر معاملے میں خالص مادّہ پرستانہ ذہنیت نے زندگی کا تیا پانچا کردیا ہے۔ صفاتِ حسنہ ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ لوگ دنیا داری میں ایسے کھوگئے ہیں کہ روحانی و اخلاقی اقدار کا سرا نہیں ملتا۔ ایسے میں لازم ہوچکا ہے کہ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کی سعی کی جائے۔