کسی بھی منقسم معاشرے میں مختلف المقاصد گروہ باہمی کشمکش کے نتیجے میں ملک و قوم کا جو حال کرسکتے ہیں وہی کچھ اب ہمارے ہاں دکھائی دے رہا ہے۔ قومی مفاد کے بارے میں سوچنے کی روایت کب کی دم توڑ چکی ہے۔ اب صرف خالص ذاتی مفادات رہ گئے ہیں جن کا تحفظ یقینی بنانے کی دُھن میں سبھی مگن ہیں اور یوں کہ ملک و قوم کی کسی کو پروا ہی نہیں۔ قومی سطح کی سوچ ناپید ہوتی جارہی ہے۔ محض ترانوں اور نعروں سے کوئی بھی قوم اپنے زندہ ہونے کا ثبوت نہیں دے سکتی۔ یہاں ایسی ہی کوشش کی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں اقوام زیادہ سے زیادہ معاشرتی، سیاسی اور معاشی استحکام یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اس کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کر رہیں اور اِدھر ہم ہیں کہ بڑی بڑی باتیں کرنے کے چلن ہی سے فارغ نہیں ہو پارہے۔ بڑھکیں مارنے اور قوم کے لیے حقیقی معنوں میں کچھ کر دکھانے میں بہت فرق ہے۔ یہ فرق سبھی جانتے ہیں۔ اچھے اور بُرے کا فرق سبھی جانتے ہیں مگر پھر بھی برائی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ اچھائی کے بارے میں سب کا ذہن بالکل واضح ہے مگر... اِس مگر کے بارے میں غالبؔ نے خوب کہا ہے ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
طبیعت اِس طرف آئے بھی تو کیسے؟ لوگوں نے فکر و نظر کے حوالے سے اپنے آپ کو بند گلی میں پہنچالیا ہے۔ بلند اور اچھا سوچنے والے خال خال ہیں اور جو ہیں اُن کی قدر نہیں کی جارہی۔ جو راہ دکھائے اُسے گمراہ تصور کیا جارہا ہے۔ جو بُرائی سے روکنے کی کوشش کرے اُسے بُرا قرار دینے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ اس معاشرے کی حقیقی اور بدیہی بدنصیبی یہ ہے کہ جو اِس کے دامن میں سمائے ہوئے ہیں وہی اِس کے حق میں کچھ سوچنے اور کرنے کو تیار نہیں۔ کسی بھی ریاست کے لیے اگر کچھ سوچنا ہے تو اُس کے باشندوں کو سوچنا ہے۔ ملک کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی فکر اگر لاحق ہونی چاہیے تو صرف پاکستانیوں کو لاحق ہونی چاہیے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ کسی جواز کے بغیر بھی ملک کے بارے میں سُوئے ظن رکھتے ہیں اور اِسے بُرا کہتے رہتے ہیں۔ جن کی جیب اور تجوری خالی ہو اور دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوں وہ اگر ملک کے بارے میں سُوئے ظن رکھیں، اِسے بُرا کہیں، پورے معاشرے اور نظام پر تنقید کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ پریشانی کی حالت میں انسان کو کچھ ہوش نہیں رہتا۔ وہ ایسی حالت میں کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جن کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور تجوری خالی نہیں وہ بھی معاشرے کو بُرا کہنے میں تساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں نہ بخل کا۔ دوسرے بہت سے اوصافِ حمیدہ کی طرح جذبۂ تشکر بھی کمیاب ہوتا جارہا ہے۔
اس وقت ہمارے معاشرے کی مجموعی کیفیت انتہائی قابلِ رحم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک طبقے نے ساری خرابیاں پیدا کی ہیں۔ کوئی بھی طبقہ اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ پورے معاشرے پر محیط ہو اور وہ سب کچھ کر گزرے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ معاشرے میں غالب اکثریت عوام کی ہوتی ہے جو خاصی نچلی سطح پر جیتے ہیں۔ وہ بھی پورے معاشرے کو اپنی مٹھی میں نہیں لے سکتے۔ ہمارے ہاں بھی کوئی ایک طبقہ اِتنا مضبوط کبھی نہیں رہا کہ پورے معاشرے پر محیط ہو، ہر کام میں اپنی مرضی چلا سکے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرسکے۔ یہ حقیقت بالآخر تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ اِس وقت جتنی بھی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں وہ ہم سب کے افکار و اعمال کا نتیجہ ہیں۔ سب نے مل کر معاملات کو بگاڑا ہے۔ جتنا بھی بگاڑ دکھائی دے رہا ہے اُس کے لیے کسی طبقے، جماعت یا نسلی گروہ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ کسی بھی معاشرے میں پائی جانے والی خرابیاں کئی طبقوں، گروہوں اور جماعتوں کی کوتاہیوں کا مجموعہ ہوتی ہیں اس لیے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کیا جانا چاہیے۔
ہمارے ہاں اب جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ دعوتِ فکر ہی نہیں ، دعوتِ عمل بھی دے رہا ہے۔ ہماری ایک بڑی مشکل یہ رہی ہے کہ سوچتے ہیں تو کرتے نہیں اور کرتے ہیں تو سوچتے نہیں۔ کسی بھی خرابی کو دور کرنے کے لیے فکر و عمل میں ہم آہنگی اور اتحاد لازم ہے۔ محض سوچنے والے کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکتے اور اِس کے برعکس سوچے بغیر کچھ بھی کر گزرنے والے حتمی تجزیے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا پاتے۔ ہمارے معاشرے میں سوچنے والوں کی بھی کمی ہے اور سوچے ہوئے پر عمل کرنے والوں کی بھی۔ مفادات کے تصادم نے بہت ہی خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ ہر شعبہ مافیا کے چنگل میں دکھائی دے رہا ہے۔ سرکاری مشینری محض تماشا بن کر رہ گئی ہے۔ ریاستی رٹ برائے نام رہ گئی ہے۔ جہاں کہیں ضرورت پڑے یعنی مشینری کے اپنے مفادات داؤ پر لگے ہوں وہاں تو ریاستی رٹ قائم کرنے میں غیر معمولی عجلت اور پھرتی دکھائی جاتی ہے۔ عام آدمی کو تھوڑی بہت راحت دینے کا معاملہ ہو تو ریاستی مشینری دور دور تک دکھائی نہیں دیتی اور اگر دکھائی دے بھی تو زیادہ فعال محسوس نہیں ہوتی۔ عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے میں انتظامیہ کی دلچسپی برائے نام رہ گئی ہے۔ انتظامی مشینری کے پُرزے اپنے اپنے حصے کا کام پوری دیانت سے کر رہے ہیں نہ نفاست سے۔ صرف تنخواہ لینے سے غرض ہے، کام کرنے سے نہیں۔ ہر بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن بڑھائی جاتی ہے مگر عام آدمی کے بارے میں کچھ نہیں سوچا جاتا۔ مہنگائی کیا صرف سرکاری ملازمین کے لیے ہوتی ہے؟ عام آدمی کہاں جائے، کس سے مدد چاہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ سرکاری مشینری کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا حتمی بوجھ بھی عوام ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اُنہیں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ ریاست کچھ بھی دے نہیں پارہی مگر لینے میں پیش پیش ہے۔ جب بنیادی سہولتیں ہی ڈھنگ سے میسر نہیں تو پھر تعلیم و صحتِ عامہ کے حوالے سے کیا اُمید رکھی جائے؟
سیاست دان اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر عوام کا جینا دوبھر کر رہے ہیں۔ بات بات پر ملک گیر تحریک چلانے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ کیا تماشا ہے؟ قوم ابھی اکھاڑ پچھاڑ سے سنبھلی بھی نہیں ہوتی کہ اُسے پھر سڑکوں پر لانے کی باتیں کی جانے لگتی ہیں۔ ہر سیاست دان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ قوم اُس کے ساتھ ہے۔ قوم حیران و پریشان ہے کہ یہ کیسے طے کرے کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔ سیاست دان جب بھی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی بات کرتے ہیں یہ بات بہت زور دے کر کہتے ہیں کہ قوم ہر قربانی کے لیے تیار ہے۔ کوئی قوم سے بھی تو پوچھے کہ وہ مزید قربانی دینے کو تیار ہے بھی یا نہیں۔ یہاں سیاست دان اور اشرافیہ کے مابین کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابی کا خمیازہ بھی قوم کو بھگتنا پڑتا ہے اور کاروباری برادری بھی عوام ہی کی جیب خالی کرانے پر تُلی رہتی ہے۔ عوام کا یہ حال ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کے جنجال سے نجات پانے ہی میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ ایسے میں بلند تر معیارِ زندگی تو محض خواب ہوکر رہ گیا ہے۔ بنیادی سہولتوں کے لیے ترسنے والی قوم سے بار بار قربانی مانگی جاتی ہے۔ قربانی مانگنے والوں کو ایسا کرتے جھجک بھی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ قوم کتنی قربانیاں دے گی، کتنا سہے گی، کیا کیا سہے گی؟ اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ مزید کیوں سہے؟ اقتدار کی کشمکش نے اس قوم کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ جو اقتدار و اختیار کے لیے باہم دست و گریباں ہیں اُنہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ خرابیوں کا سارا ملبہ بالآخر عوام پر جا گرتا ہے۔
ملک یا وطن محض قدرتی وسائل کا نام نہیں۔ کسی بھی سرزمین پر بسنے والے انسان ہی اصل وطن ہوتے ہیں۔ اُن کے مفادات کو نظر انداز کرکے ریاست اور معاشرے کی بقا ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ ریاست کے تمام ظاہری سٹیک ہولڈرز کو مل کر حقیقی سٹیک ہولڈرز یعنی عوام کی بہبود یقینی بنانے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ اب یہ معاملہ تساہل اور تذبذب کا متحمل نہیں ہوسکتا۔