ٹیم پاکستان ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں انگلینڈ سے ہار گئی۔ قوم کچھ بجھ سی گئی۔ جس انداز سے ٹیم گرنے کے بعد اٹھی تھی اور فائنل تک پہنچی تھی اُسے دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی تھی کہ انگلینڈ کو ہراکر ہم ورلڈ کپ اٹھالیں گے۔ یہ توقع کچھ ایسی بے جا بھی نہ تھی۔ پورے ٹورنامنٹ کے دوران جو کچھ ہوا‘ یا کیا گیا اُس کے بارے میں سوچیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا فائنل تک پہنچنا بھی محض خواب کا معاملہ تھا۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سود تھا
ہمارا یہ معاملہ نہ تھا۔ ہم نے اس بار ٹی ٹونٹی کا ورلڈ کپ جیتنے کا خواب دیکھا ہی نہیں تھا۔ قومی کرکٹ ٹیم‘ اپنی تمام خامیوں اور خرابیوں کے باوجود‘ ایسی گئی گزری نہیں کہ اُس سے بلند توقعات وابستہ نہ کی جاسکیں۔ بہت سے مواقع پر ہمارے سٹار بیٹرز نے مخالف ٹیموں کے باؤلرز کی خوب دُھنائی کی ہے اور ہمارے سٹار باؤلرز جب چل جاتے ہیں تو اِس طرح کہ حریف ٹیموں کے بیٹرز کے دماغ کام کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کی ابتدا ہی سے یہ بات واضح ہوچکی تھی (یا واضح کر دی گئی تھی) کہ بھارت کو ہر صورت آگے جانا ہے۔ ایک زمانے سے ہم یہ تماشا دیکھتے آئے ہیں کہ آئی سی سی کے سارے اصول بھارت کی بڑی مارکیٹ کے سامنے زمیں بوس ہو جاتے ہیں۔ بھارت مارکیٹنگ کے اعتبار سے بڑی ٹیم ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے اور معاملات کو اپنی مٹھی میں رکھنے کی خاطر کسی بھی حد تک جاتی ہے۔ اس بار بھی ٹورنامنٹ کے دوران بعض امپائرز پر بھارتی ٹیم کا دباؤ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ چند ایک متنازع فیصلوں نے سیمی فائنل تک پہنچنے میں بھارت کی غیر معمولی حد تک مدد کی۔ البتہ سیمی فائنل میں انگلینڈ نے خالص پروفیشنل انداز سے کھیلتے ہوئے بھارت کو دس وکٹوں سے ہراکر ثابت کردیا کہ ٹیم انڈیا نے ٹورنامنٹ میں جو کچھ کر دکھایا تھا‘ وہ متنازع امپائرنگ کی بدولت تھا۔ جب زورِ بازو سے خالص کرکٹ اور پروفیشنلزم کا مظاہرہ کرنے کا وقت آتا ہے‘ تب ٹیم انڈیا کو اکثر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے معاملات پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے میں اس لیے کامیابی حاصل کی کہ وہ مارکیٹنگ کو ایک اہم ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب بھارتی ٹیم کسی عالمی ٹورنامنٹ کے حتمی مرحلے تک پہنچنے میں ناکام رہتی ہے تو بھارت میں سینکڑوں ارب روپے کا ملا جلا دھندا داؤ پر لگ جاتا ہے۔ خیر‘ یہ کہانی پھر سہی۔
انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی شکست اگرچہ آسانی سے ہضم ہونے والا معاملہ نہیں مگر پھر بھی ہمیں بہت سے معاملات پر غور کرنا چاہیے تاکہ آج کل کی کرکٹ ڈائنامکس کو سمجھنا آسان رہے۔ فی زمانہ کرکٹ انتہائی تیز رفتار کھیل ہے۔ چار یا پانچ عشروں پہلے کی کرکٹ دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی ہی اور کھیل تھا۔ پانچ‘ چھ دن کے بیزار کردینے والے ٹیسٹ میچ بھی شائقین شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ محض پاک و ہند میں نہیں بلکہ انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بھی ٹیسٹ کرکٹ سے محظوظ ہونے والوں کی کمی نہ تھی۔ فی زمانہ کرکٹ میں وہی ٹیم فاتح قرار پاتی ہے جو اُس دن زیادہ دلجمعی کا مظاہرہ کرے، کھیل پر توجہ دے اور کسی بھی دباؤ کو غیر ضروری حد تک نہ جانے دے۔ اب کرکٹ محض میدان کا کھیل نہیں بلکہ اعصابی جنگ کا کھیل بھی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ اب بہت کچھ جڑ گیا ہے۔ اعداد و شمار کا کھیل تو یہ پہلے بھی تھا مگر اب ماہرین اعداد و شمار کی پوری سائنس کے ساتھ میدان میں موجود رہتے ہیں۔ ہر چیز جانچی اور تولی جاتی ہے۔ کھلاڑیوں پر غیر معمولی دباؤ رہتا ہے۔ ایک طرف تو انہیں شکست سے بچنا ہوتا ہے اور دوسری طرف انفرادی کارکردگی کا گراف بھی بلند رکھنا ہوتا ہے۔ محض ٹیم کا جیتنا کافی نہیں‘ کھلاڑیوں کا اپنے اپنے مقام پر بھی فاتح ٹھہرنا لازم ہوچلا ہے۔ اِسی کی بنیاد پر ٹیم میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔
ہماری قومی ٹیم میں بہت سی خامیاں ہیں اور کمزوریاں بھی۔ بعض اہم مواقع پر قومی ٹیم نے واضح سوچ اپنائے بغیر میچ ہاتھوں سے بھی دیے ہیں۔ ٹیم کا مورال کبھی کبھی گر جاتا ہے۔ ایسا تو خیر ہر ٹیم کے ساتھ ہوتا ہے مگر پھر بھی چند ایک معاملات تو قابو میں رکھنا ہی پڑتے ہیں۔ تین چار سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ قومی کرکٹ ٹیم نے بعض آسان میچز اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے مخالف ٹیم کو دیے اور بعض انتہائی مشکل سمجھے جانے والے مخالفین کے جبڑوں سے کھینچ لیے۔ مزاج میں پایا جانے والا یہ تلون کسی بھی کھلاڑی یا ٹیم کے لیے زیادہ دیر تک قابلِ برداشت نہیں ہو سکتا۔ قومی کرکٹ ٹیم کا متلون مزاج ہونا ہی سب سے حیرت انگیز فیکٹر ہے۔ بہت سی ٹیمیں محض یہ سوچ کر سہمی رہتی ہیں کہ یہ لوگ کسی بھی وقت کچھ بھی کر گزریں گے۔ اور ایسا ہوتا بھی رہا ہے۔ ایشیا کپ کے ٹی ٹونٹی میچ میں افغانستان کے خلاف نسیم شاہ نے آخری اوور میں دو گیندوں پر دو چھکے مار کر ایک دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ کس نے سوچا تھا کہ جب ٹیم کی ٹاپ بیٹنگ لائن ہتھیار ڈال دے گی تب ایک اٹھارہ‘ انیس سال کا بچہ افغانستان اور فتح کے درمیان دیوار بن کر کھڑا ہوجائے گا؟ اِس سے قبل افغانستان ہی کے خلاف ایک میچ عماد وسیم نے آخری اوور میں چوکا لگاکر جتوایا تھا۔ کسی بھی وقت اپنی غیر متوقع کارکردگی سے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے کا یہ وصف ہی تو ہے جس نے اب تک پاکستان کو نمایاں اور منفرد شناخت دے رکھی ہے۔ اسی وجہ سے کوئی بھی کرکٹ ٹیم پاکستان کو ہلکا نہیں لیتی ۔ وہ اِس کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی۔
انگلینڈ کے خلاف فائنل میں ہماری ٹیم بُرا نہیں کھیلی۔ بارش کے آثار تھے۔ فضا میں نمی بہت زیادہ تھی جو وکٹ پر بھی اثر انداز ہوئی۔ پہلے پاکستان کو کھیلنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور پھر انگلینڈ کی ٹاپ بیٹنگ لائن بھی زیادہ کھل کر نہ کھیل سکی۔ ہماری بیٹنگ لائن مجموعی طور پر ناکام رہی اور سکور اِتنا کم رہا کہ باؤلرز پر غیر معمولی دباؤ مرتب ہوا۔ آج کی انتہائی تیز رفتار ٹی ٹونٹی کرکٹ میں 138 رنز کا ہدف کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس پر بھی قومی کرکٹ ٹیم نے اپنی سی کوشش ضرور کی۔ بھارت کی طرح ابتدا ہی سے ہتھیار ڈالنے کے بجائے پاکستان نے بہت کم سکور کے باوجود قدم قدم پر مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور مقابلہ کیا بھی۔ کسی بھی مقابلے میں ایک ہی فریق کو جیتنا ہوتا ہے۔ ہم سب یہ چاہتے تھے کہ ہماری ٹیم جیتے اور بڑے ٹورنامنٹ میں تو یہ خواہش مزید مستحکم ہو جاتی ہے مگر ہم یہ کیوں طے کرلیتے ہیں کہ ہماری ہی ٹیم کو جیتنا چاہیے؟ کیا ہر بار ہماری ٹیم کا جیتنا لازم ہے؟ کسی بھی اعتبار سے نہیں! دوسرے بھی تو محنت کرتے ہیں اور پورا زور لگاکر اعزاز اپنے نام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر پوری دیانت سے جائزہ لیا جائے تو انگلینڈ کی فتح well-deserved تھی۔ انگلینڈ نے ابتدا ہی سے محنت کی اور اپنے آپ کو منوایا۔ سب نے دیکھا کہ بھارت نے کسی نہ کسی طور خود کو ٹورنامنٹ میں زندہ رکھنے کے لیے محض تگ و دَو ہی نہیں بلکہ مبینہ طور پر سازش بھی کی۔ یہ منظر بھی سب نے دیکھا کہ نادیدہ ہاتھ اُسے آگے پہنچانے میں مصروف رہے۔ اس کے باوجود بھارتی ٹیم متاثر کن کھیل پیش نہ کرسکی۔ دوسروں کی راہ میں اٹکائے جانے والے روڑے بالآخر اُس کی اپنی راہ کی دیواروں میں تبدیل ہوگئے۔ ہم نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا فائنل میچ ہارا ہے، ابتدائی مرحلے میں ٹورنامنٹ سے آؤٹ نہیں ہوئے۔ اس میگا ایونٹ میں رنر- اَپ رہنا بھی کچھ خاص خسارے کا سودا نہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بھارت کی شکست پر ہمارے ہاں خوشی منائی جاتی ہے‘ اور ہمارے ہارنے پر بھارت میں ڈھول پیٹے جاتے ہیں۔ اب اِس سطح سے بلند ہونے کا وقت آچکا ہے۔ کرکٹ کو کرکٹ ہی رہنے دیا جائے۔ قومی ٹیم سنجیدہ ہوکر خود کو بلند کرنے کی کوشش کرے۔ خامیوں اور خرابیوں کو دور کرنا لازم ہے۔ بھارت کی ناکامیوں پر شادیانے بجانے سے ہماری ٹیم کی خامیاں دور نہیں ہوں گی۔ پروفیشنل اِزم درکار ہے تاکہ کھیل کا معیار بلند ہو۔ اس حوالے سے ٹھوس اور جامع منصوبہ سازی ناگزیر ہے۔