انسان کو کتنا سونا چاہیے؟ کسی بھی انسان کو اُتنا ہی سونا چاہیے جتنا سونا چاہیے یعنی جسم کو جتنی نیند درکار ہوتی ہے۔ ہم بالعموم اُس سے زیادہ ہی سوتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ سونے کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا! انسان محنت سے جی چُراتا ہے۔ جس کام میں کچھ کرنا ہی نہ پڑے وہ اچھا کیوں نہ لگے؟
کبھی آپ نے اِس نکتے پر غور کیا ہے کہ نیند جسم کی تھکن دور تو کرتی ہے مگر کبھی کبھی یہ جسم کو تھکا بھی دیتی ہے؟ جی ہاں! ضرورت سے زیادہ سونے کا یہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ بہت زیادہ تھکن کی صورت میں نیند ہمارے حواس پر غالب آنے لگتی ہے۔ ایسے میں ہم کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتے۔ بالکل ایسی ہی کیفیت جاگنے پر بھی پیدا ہوتی ہے، اگر آپ نے ضرورت سے زیادہ نیند لی ہو۔ زیادہ سونے کی صورت میں جسم کا انتشار بڑھتا ہے۔ حواس بیداری کی حالت کو ڈھنگ سے قبول نہیں کر پاتے اور یوں ہم کام کا ذہن نہیں بنا پاتے۔ آج دنیا بھر میں ضرورت یا جسم کی طلب سے زیادہ سونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انسان کو اپنے معمولات بدلنا پڑتے ہیں، کچھ ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔
انسان کو کم ہی سونا چاہیے۔ ماہرین سے پوچھئے تو کہتے ہیں ہر انسان کو یومیہ کم از کم سات سے آٹھ گھنٹے سونا چاہیے۔ بالکل درست! دورانیے کا مشورہ بالعموم ایسی حالت میں دیا جاتا ہے جب معلوم نہ ہو کہ نیند کس جگہ لی جارہی ہے۔ اگر بھرپور شور شرابے والے ماحول میں سونے کی کوشش کی جائے تو ذہن کا انتشار ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اور پُرلطف نیند ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ ایسے میں انسان سو ہی نہیں سکتا یا اگر نیند آ بھی جائے تو بہت کچی ہوتی ہے۔ اِسے ہم نیم بیداری کی حالت بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیونکہ ایسے میں انسان ذرا سی آہٹ یا ہلچل سے بھی جاگ اٹھتا ہے۔ ایسے ماحول میں انسان سات‘ آٹھ گھنٹے میں متعدد مرتبہ جاگتا ہے اور ہر بار دوبارہ سونے میں خاصی مشکل پیش آتی ہے۔
ہمیں کم سونا چاہیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ زیادہ نہ سوکر ہم اپنی زندگی کا معیار بلند کر سکتے ہیں! نیند ہم سے کیا چیز لیتی ہے؟ وقت! تو زیادہ نیند کیا لے گی؟ زیادہ وقت! انسان جتنا زیادہ سوتا ہے، اپنے لیے یا اہم معمولات کے لیے اُتنا ہی کم وقت نکال پاتا ہے۔ زندگی کو زیادہ بارآور اور ''جزا نواز‘‘ بنانے کے لیے لازم ہے کہ ہم اُتنا ہی سوئیں جتنا ہمارا جسم ہم سے تقاضا کرے۔ معیاری نیند کا تعلق وقت یا دورانیے سے نہیں بلکہ ماحول سے ہے۔ جہاں نیند لینی ہو وہاں اگر قدرے تاریکی ہو، شور شرابہ بالکل نہ ہو یعنی مجموعی ماحول پُرسکون ہو، قدرے ٹھنڈک ہو، بستر آرام دہ ہو اور ہوا کا گزر بھی ممکن بنایا گیا ہو تو انسان محض چھ گھنٹے میں بھی اُتنی نیند لینے میں کامیاب رہتا ہے جتنی بالعموم آٹھ‘ ساڑھے آٹھ گھنٹے میں لی جاتی ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں سوتے ہیں تو پانچ گھنٹے میں ہی پُرسکون نیند لے کر تازہ دم بیدار ہوتے ہیں۔ کسی رخنے کے بغیر لی جانے والی نیند انسان کو خاصے کم وقت میں دوبارہ چست اور پھرتیلا بنا دیتی ہے۔
اپنے لیے زیادہ وقت نکالنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ انسان معمول سے ایک گھنٹہ کم سوئے۔ آپ جس قدر بھی سوتے ہیں اُس میں ایک گھنٹہ گھٹا دیجیے۔ مسلسل اکیس دن ایسا ہی کیجیے۔ تواتر پر مبنی اس عمل سے آپ کو ایک گھنٹہ کم سونے کی عادت پڑ جائے گی۔ ایک گھنٹہ کم سونے کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ آپ اپنے معمولات کو 30 گھنٹے اضافی طور پر دینے میں کامیاب رہیں گے۔ نیند کی طرح دیگر معمولات سے بھی کچھ وقت نکال کر زندگی کا معیار بلند کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ معمول کی صورت میں ممکن ہے یعنی آپ کو عادت ڈالنا پڑے گی۔
ہمیشہ یہ نکتہ ذہن نشین رکھیے کہ نیند کی مقدار نہیں معیار اہم ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم روزانہ کتنا سوتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کیسا سوتے ہیں۔ نیند معیاری یعنی متواتر اور پُرسکون ہو تو کم وقت میں بھی جسم کو مطلوب آرام فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ہم اپنے ماحول میں بھی ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو کم وقت میں اچھا سوتے ہیں اور اُن کے معمولات میں خاصا توازن پایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ نیند کی حالت میں دماغ معطل ہوکر ایک طرف نہیں بیٹھ جاتا بلکہ اپنا کام کر رہا ہوتا ہے۔ جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تب دماغ ہماری دن بھر کی کارکردگی کا تجزیہ کرتا ہے۔ وہ غیر اہم اور غیر متعلق معاملات کو ایک طرف ہٹاکر ہمارے لیے کچھ بہتر کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ نیند باقاعدگی سے اور معمول کے مطابق لی جائے تو انسان بہت سے اہم امور بہتر طریقے سے انجام دینے کے قابل ہو پاتا ہے۔
کامیاب گھرانہ وہ ہے جو ہر معاملے میں بجٹ کا پورا خیال رکھتا ہو۔ انسان کے مادّی اور مالیاتی وسائل محدود ہوتے ہیں۔ خوش حال زندگی وہ لوگ بسر کرتے ہیں جو اپنے مالی یا مالیاتی وسائل کو بطریقِ احسن بروئے کار لاتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے گھرانے فضول معاملات پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتے یا اگر ایسا کرنا بھی پڑے تو خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ خرچ زیادہ نہ ہو۔ بجٹ کا تصور ہم نے صرف پیسوں سے وابستہ کررکھا ہے۔ کسی سے بجٹنگ کے بارے میں پوچھئے تو وہ جھٹ اپنی آمدن اور اخراجات کا حساب دینے لگے گا۔ کیا بجٹنگ صرف پیسوں کے حوالے سے کی جانی چاہیے؟ ہم پیسوں کے معاملے میں تو محتاط رہتے ہیں کہ کسی فضول چیز یا معاملے کے لیے کچھ خرچ نہ کرنا پڑے۔ پھر وقت کے معاملے میں لاپروائی کیوں؟ وقت بھی تو ہم سے یہی چاہتا ہے کہ اُسے بہت سوچ سمجھ کر بروئے کار لایا جائے۔ بجٹنگ کا تعلق وقت کے استعمال سے بھی تو ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ وقت دولت ہے۔ وقت ہی دولت ہے! غور طلب بات یہ ہے کہ ہم اپنی جو بھی دولت خرچ بیٹھتے ہیں وہ دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ انسان کما بھی سکتا ہے، کسی کی طرف سے بہت کچھ مل بھی سکتا ہے۔ لاٹری بھی نکل سکتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسی کو ترکے میں اِتنی دولت مل جاتی ہے کہ زندگی بھر محنت کرنے کی صورت میں بھی اتنی دولت کمانا ممکن نہ ہو پاتا۔ کسی غریب کی لاٹری نکل آئے تو اُس کے دن پھر جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ سو برس میں نہ کما پاتا‘ وہ ایک ہی ساعت میں ہاتھ لگ جاتا ہے۔ بہر کیف، دولت کسی بھی وقت اور کسی بھی تناسب سے دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہے مگر کتنی ہی کوشش کر دیکھیے، جو وقت جاچکا ہے وہ کسی صورت واپس نہیں لایا جاسکتا۔ جو چیز ایک بار ہاتھ سے نکلنے کے بعد دوبارہ ہاتھ آ ہی نہیں سکتی اُس کے معاملے میں ہمارا حد سے زیادہ محتاط ہونا بنتا ہے۔ کامیاب افراد کی زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ وقت کے معاملے میں انتہائی سخت گیر ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی ایسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتے جس میں وقت کے ضیاع کا اندیشہ ہو۔
ڈھنگ سے جینے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ رشتے بھی نبھانا پڑتے ہیں اور تعلقات بھی۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ کسی کو ہم سے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اور نقصان تو بالکل نہیں پہنچنا چاہیے۔ کام کا معیار بلند ہونا چاہیے۔ مہارت ایسی ہو کہ لوگ تیزی سے متوجہ ہوں اور چاہیں کہ آپ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے۔ علوم و فنون سے رغبت انسان میں مہارت کا گراف بلند کرتی ہے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے مگر صرف اُس وقت جب ہم طے کرلیں کہ وقت کی بہتر تفہیم اور تنظیم یقینی بنائیں گے۔ وقت کے معاملے میں یکسر غیر جانب دار، غیر جذباتی اور کسی حد تک سفّاک ہوئے بغیر ترقی و خوش حالی ممکن نہیں۔ سارا کھیل وقت ہی کو سمجھنے کا ہے۔ جس نے وقت کے حوالے سے معقول ترین نظم اپنایا وہی کامیاب رہا۔ نیند کے حوالے سے درست رویہ اپناکر ہی ہم اپنے آپ کو وقت کے بہترین استعمال کے لیے تیار کرسکتے ہیں۔ طے کیجیے کہ روزانہ ایک گھنٹہ کم سوکر ہر ماہ بچائے جانے والے تیس گھنٹے کسی تعمیری سرگرمی کے لیے بروئے کار لائیں گے۔