اب یہ سوچنا محض سادہ لوحی کا مظہر ہے کہ فلاں سال اچھا تھا یا فلاں سال بہت بُرا گزرا۔ حالات اُس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں سبھی کچھ ایک رنگ میں رنگا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر اب کسی کے لیے کسی معاملے میں تھوڑی بہت راحت ہے تو دوسرے بہت سے معاملات میں صرف خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اُس کے لیے محض خرابیاں ہیں اور دوسروں کے لیے صرف آسانیاں اور سہولتیں ہیں۔ اب تو آسانیوں میں بھی مشکلات ہیں اور سہولتیں بھی الجھنوں سے دوچار کرکے دم لیتی ہیں۔ کامیاب افراد سے پوچھ کر دیکھ لیجیے۔ وہ یہی کہیں گے کہ جتنی خرابیاں افلاس میں ہیں اُتنی ہی خرابیاں غیر معمولی دولت میں بھی چھپی ہوئی ہیں۔ سوال صرف سمجھنے کا ہے۔
کوئی اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ گزرے ہوئے زمانے بُرے تھے اور آنے والا زمانہ بہت اچھا ہے۔ اِسی طور کسی کو مایوس ہوکر یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ آنے والا زمانہ بُرا ہوگا اور خرابیوں کا گراف بلندی ہی کی طرف جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ مسائل محض برقرار نہیں بلکہ زیادہ پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے ہر وقت مثبت سوچ کا حامل رہنا، مایوسی سے ہمہ وقت بچنا اب ممکن نہیں رہا۔ کوئی نہ کوئی الجھن انسان کو پریشان رکھتی ہی ہے۔ حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں سب کی فکری ساخت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ بالکل فطری انداز کا حامل ہے۔ ہم وقت کو مختلف خانوں میں بانٹ کر دیکھتے ہیں۔ وقت کی اصل یہ ہے کہ کوئی ماضی ہے نہ مستقبل۔ نظامِ قدرت میں تو وقت ایک سیدھی لکیر ہے۔ اس لکیر کے ٹکڑے ہم نے کیے ہیں اور وہ بھی اپنی سہولت کے لیے۔ یہ سہولت ہمارے لیے کتنی آسانی پیدا کرتی ہے اس کا مدار بھی وقت پر نہیں‘ ہمارے رویے اور طرزِ فکر پر ہے۔ ایک اور سال ختم ہونے کو ہے۔ دو دن بعد ہم نئے سال میں ہوں گے۔ نیا سال ہمارے لیے کیا لائے گا اس کا مدار ہماری اپنی سوچ اور مساعی پر ہے۔ وقت اپنے آپ میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہ وہی کچھ ہوتا ہے جو ہم ہوتے ہیں۔ کسی کے پاس کم وقت ہو تب بھی بھرپور لگن اور ولولے کی مدد سے وہ بہت کچھ کر گزرتا ہے۔ اور بہت سوں کا یہ حال ہے کہ زندگی بھر کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں کر پاتے کیونکہ اس کے لیے ذہن بنایا ہی نہیں جاتا۔
پاکستان کے لیے 2022ء زیادہ اچھا سال نہیں رہا۔ مشکلات محض برقرار نہیں رہیں بلکہ مزید توانا ہوئیں۔ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے بعد معیشت کی بحالی ایک بڑا دردِ سر تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے کورونا کے ڈیڑھ‘ دو سال کس طور گزارے یہ کوئی بھی بتاسکتا ہے۔ یہ مدت بہت پریشان کن تھی۔ پاکستان کی معیشت کا حال بھی بُرا رہا۔ امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے بھی الجھنوں سے دوچار رہے۔ صرف معیشت نہیں بگڑی بلکہ معاشرت بھی شدید الجھنوں سے دوچار رہی۔ کورونا کی وبا کے دوران یورپ کے باشندوں کا اعتماد بُری طرح مجروح ہوا۔ اس وبا کے زمانۂ عروج میں یورپی باشندوں نے جتنی آسانی سے ہمت ہار کر اس وبا کو اپنی تقدیر سمجھ لیا‘ وہ انتہائی قابلِ رحم معاملہ تھا۔ اٹلی، سپین، فرانس اور برطانیہ میں معاملات زیادہ پریشان کن رہے۔ کورونا کی وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی کچھ نارمل نہیں ہوسکا۔ بیماریوں سے ڈرنے کی ذہنیت ایسی پیدا ہوئی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ پاکستان جیسے ممالک نے بھی کورونا کے ہاتھوں بہت سی تکلیفیں سہیں۔ ہماری معیشت کی بساط کیا ہے‘ یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ معاشی سطح پر ہم مضبوط تھے ہی کب کہ کمزور پڑے ہوں گے۔ ہاں‘ مزید کمزور پڑنے کی بات کیجیے۔ ملکی معیشت نے کورونا کے دوران گزارے لائق کارکردگی کا مظاہرہ کیا؛ تاہم معاشرتی سطح پر ہم اچھے رہے۔ بیشتر ممالک میں معاملہ یہ تھا کہ کسی کو کورونا کی وبا لاحق ہوتی تھی تو نہ صرف اُسے بلکہ ا س کے اہلِ خانہ کو بھی ایک کونے میں ڈال دیتے تھے اور ایسا سلوک روا رکھتے تھے گویا وہ اچھوت ہو۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں بیماری کا شکار ہونے والوں کو انسان کی حیثیت سے اولیت دینے کا رجحان برقرار ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران بھی بیمار پڑنے والوں کو لاوارثوں کی طرح پھینک نہیں دیا گیا۔ اٹلی، فرانس اور سپین میں اس حوالے سے صورتِ حال بہت پریشان کن اور شرم ناک رہی۔ اٹلی اور فرانس میں بزرگوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ بیماری اپنی جگہ تھی مگر اُس سے پیدا ہونے والا خوف کئی گنا نقصان دہ تھا۔ جن بزرگ شہریوں کو اولڈ ہومز اور ایسی دیگر عمارتوں میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا وہ بے چارے خوف کے مارے دم توڑ گئے۔ بہت سوں کا معاملہ یہ رہا کہ انتقال کے آٹھ‘ دس گھنٹے بعد رضا کار اور امدادی کارکن پہنچے اور تدفین کا انتظام کیا۔ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے بعد ہماری معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہوئی ہی تھی کہ سیاسی عدم استحکام نے آلیا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کی کارکردگی کورونا کے دوران قابلِ رحم نہیں تھی۔ نچلے طبقے کی ضرورتوں کا خیال رکھا گیا۔ اربوں روپے امداد کی شکل میں بانٹے گئے۔ دوست ممالک نے بھی اس وبا کے سنگین اثرات سے نمٹنے میں ہماری مدد کی۔ چین بھی پیچھے نہیں رہا۔ ترکی تو رہتا ہی پہلی صف میں ہے۔
آخری لمحات گزارتا ہوا سال کئی اعتبار سے اہم تھا۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا تھا۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے پروگرامز اور پیکیجز لے کرمعاشی بحالی ممکن بنانا تھی۔ سالِ رواں کے اوائل میں جو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی اُس نے معیشت کی بحالی کا امکان معدوم کر دیا۔ یہ انتہائی افسوس ناک سہی‘ غیر متوقع اور حیرت انگیز نہ تھا۔ کورونا کے دو سال ہم نے شدید مشکلات کے ساتھ گزارے۔ اس دوران بیرونی تجارت بُری طرح متاثر ہوئی۔ برآمدات کو شدید دھچکا لگا۔ درآمدات کو زیادہ دھچکا اس لیے نہیں لگا کہ ہماری معیشت کا تو مدار ہی درآمدات پر ہے۔ صنعت کاروں کو خام مال اور عام آدمی کے لیے دنیا بھر کی اشیائے صرف منگوانا پڑتی ہیں۔ کورونا کی وبا نے اِدھر قوتِ خرید گھٹائی اور اُدھر عالمی منڈی میں اشیا و خدمات کی قیمتیں ہوش رُبا حد تک اور جان لیوا رفتار سے بڑھ گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ برآمدات میں اضافہ تو کیا ممکن بنایا جائے‘ ترسیلاتِ زر کا بازار بھی سرد پڑا ہوا ہے۔ اپریل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے اب تک عام پاکستانی کا سیاست و معیشت پر اعتماد بحال نہیں ہوسکا۔ بیرونِ ملک مقیم بیشتر افراد اپنے پیاروں کو رقوم بھیجنے کے لیے حوالہ؍ ہنڈی کے طریقے پر انحصار کر رہے ہیں۔ وہ بینکنگ سسٹم میں داخل ہونے سے گریزاں ہیں۔ یہ انتہائی ناقابلِ فہم رویہ ہے۔ جو کچھ بیرونِ ملک سے بھیجا جاتا ہے وہ مقامی کرنسی میں تبدیل کرکے متعلقین کو ادا تو کر ہی دیا جاتا ہے۔ ہاں‘ سرمایہ کاروں کا بِدکنا سمجھ میں آتا ہے کہ سرمایہ کاری داؤ پر لگ سکتی ہے۔ ترسیلاتِ زر کا معاملہ تو رقوم کو منتقل کرنے کا ہے۔ اِس میں بظاہر کوئی ایسا خطرہ نہیں ہوتا جس کے بارے میں سوچ سوچ کر یوں ہلکان ہوا جائے۔
جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ سیلاب نے پوری کردی۔ سندھ تو مفلوج ہی ہوکر رہ گیا۔ سندھ حکومت کو نا اہلی کا طعنہ دینے والے بھی حقیقت پسندی سے کام لینے کی صورت میں اتنا تو تسلیم کریں گے کہ سیلاب نے دو‘ڈھائی کروڑ افراد کو کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ سوال صرف کھڑی فصلوں کی تباہی کا نہیں بلکہ مکانات کے تباہ ہو جانے کا بھی تھا۔ سیلاب متاثرین میں اکثریت اُن کی ہے جو اب تک اپنے گھروں میں تو کیا‘ علاقوں میں بھی آباد نہیں ہوسکے۔ یہ پورا سال سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی نذر ہوا ہے۔ کوئی سال اچھا یا بُرا نہیں ہوتا۔ ہم خود اُسے اچھا یا بُرا بناتے ہیں۔ ہم اچھے تو سال اچھا۔ نیا سال بہت سے تقاضے لے کر آیا ہے۔ سیاسی تعطل دور کرنا لازم ٹھہرا ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو پہلے ملک و قوم کا سوچنا ہوگا۔ اگر ملک کو نظر انداز کرکے ذاتی یا گروہی مفادات کو تحفظ دینے کی ذہنیت اپنائی جاتی رہی تو کچھ بہتر نہ ہوگا۔