"MIK" (space) message & send to 7575

اب کیا لکھا جائے؟

بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ لکھنا اب بہت آسان ہوگیا ہے۔ ہم سوچنے کے عمل کی بات نہیں کر رہے۔ لکھنا یوں آسان ہوگیا ہے کہ کچھ لکھنے کے لیے جو کچھ ضروری ہوا کرتا ہے وہ اب بہت آسانی سے دستیاب ہے۔ اور چھپوانا یا شائع کرنا‘ کروانا بھی بالکل مشکل نہیں رہا۔ ایک دور تھا جب لکھنا بھی مشکل تھا اور اسے شائع کرنا بھی دردِ سر سے کم نہ تھا۔ اس مقام پر طباعت اور اشاعت کا فرق واضح کردیا جائے تو اچھا ہے۔ کسی بھی چیز کو پھیلانا اشاعت کہلاتا ہے۔ لازم نہیں کہ کوئی چیز چھپوانے کے بعد ہی پھیلائی جائے۔ اگر آپ نے کوئی کہانی لکھی ہے تو اسے چند صفحات پر ڈھنگ سے لکھ کر اس کی کاپیاں بنوا کر تقسیم کرنا بھی اشاعت کہلائے گا۔ اشاعت یعنی بات کو لوگوں تک پہنچا دینا۔
فی زمانہ لکھنے کا معاملہ بہت عجیب ہوگیا ہے۔ لکھنا جتنا آسان ہے اچھا لکھنا اتنا ہی مشکل ہے۔ لوگ اچھا لکھنے کے بجائے محض لکھنے کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جب مشکلات تھیں‘ تب بہت محنت کی جاتی تھی۔ مواد کی صحت کا پورا خیال رکھا جاتا تھا۔ حوالے درج کرنے کے لیے خاصی مغز پاشی کرنا پڑتی تھی۔ اب کسی بھی چیز کا حوالہ تلاش کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا مگر اس کے باوجود معیار گرتا جارہا ہے۔ لکھنے پر جتنی محنت کی جانی چاہیے اُتنی محنت کرنے کو کم ہی لوگ تیار ہیں۔ عمومی تصور یہ ہے کہ جو کچھ ہم بولتے ہیں بس اُسی کو لکھ لیا جائے تو اسے تحریر کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ بولنے اور لکھنے میں بہت فرق ہے۔ بولنے میں انسان بہت سی غلطیاں کرتا ہے۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ بولنا ذہن کی اوپری سطح پر ہوتا ہے۔ بعض مقررین بہت اچھا بولتے ہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ غیرمعمولی تیاری کے بعد زبان کھولتے ہیں۔ تحریر کا سا معیار تقریر میں کم ہی آتا ہے۔ ایسا اس وقت ممکن ہے جب انسان کم بولے یعنی مخصوص مواقع پر زبان کھولے۔ دن رات بولتے رہنے کی صورت میں معیاری بات کہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
آج کل ٹی وی پر تجزیہ کاروں کو سنیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے بیشتر کی باتیں در حقیقت اُتھلے پانیوں جیسی ہیں۔ اخبارات پر ایک نظر ڈال کر یا ٹی وی کے ٹکرز دیکھ کر بولنے کی صورت میں انسان ذہانت کا مظاہرہ کر سکتا ہے نہ زبان و بیان پر قدرت کا۔ کرنٹ افیئرز کے پروگراموں کا یہی المیہ ہے۔ زبان و بیان پر قدرت یقینی بنانے کے لیے بہت پڑھنا‘ سوچنا اور ضبطِ تحریر میں لانا پڑتا ہے۔ جن صحافیوں نے ایک زمانے تک قلم سے رشتہ برقرار رکھا ہے یعنی لکھتے آئے ہیں‘ وہ جب بولتے ہیں تو تھوڑا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان کی باتوں میں زیادہ گہرائی اور گیرائی نہ ہو تب بھی اتنا کچھ تو ہوتا ہی ہے کہ لوگ متوجہ ہوں اور کچھ نہ کچھ سیکھیں۔ جو لکھتے رہتے ہیں‘ وہ اچھا بولتے ہیں۔ لکھنے کی مشق انہیں زبان و بیان کے اعتبار سے غیرمعمولی وقعت عطا کرتی ہے۔ اس فرق کو آج کے بہت سے تجزیہ کار سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جو صرف بولتے آئے ہیں‘ وہ لکھنے کی اہمیت سمجھتے ہی نہیں اور اسی لیے اچھا بول نہیں پاتے۔
بہر کیف‘ ایک بنیادی سوال اب یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا لکھا جائے۔ آج کے بیشتر اخباری لکھاری سطحی نوعیت کی چیزیں لکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کسی کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر لکھنا ہوتا ہے۔ کوئی چاہتا ہے کہ چند ایک چکنی چپڑی باتیں کرکے لوگوں کو شیشے میں اتار لے۔ ایک زمانہ تھا کہ کالم لکھتے وقت بہت سی باتوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔ زبان و بیان کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ معلومات کا درست ہونا بھی لازم سمجھا جاتا تھا۔ کوشش یہ کی جاتی تھی کہ لوگ پڑھیں تو انہیں کچھ حاصل ہو۔ یہ نہ ہو کہ پڑھا اور بھول گئے۔ آج کل یہی ہو رہا ہے۔ لوگ لکھ رہے ہیں مگر ایسا کہ لوگ پڑھتے ہی بھول جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ لکھنے والوں کی بہتات اور پڑھنے کے لیے بہت زیادہ مواد دستیاب ہونے کے باعث پڑھنے والوں کی پسند و ناپسند تبدیل ہوگئی ہے۔ آج بھی انہیں زیادہ پسند کیا جاتا ہے جو اچھا لکھتے ہیں۔ ہاں‘ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر پسند کیے جانے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے تاہم یہ کوئی کلیہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھا لکھنے والوں کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جس کی تحریر میں دم ہوتا ہے اسے داد بھی زیادہ ملتی ہے۔
فی زمانہ ایسے موضوعات پر لکھنے کی اشد ضرورت ہے جو پائیدار نوعیت کے ہوں اور لوگوں کو کچھ نہ کچھ دے سکتے ہوں۔ اب ایسے موضوعات ناگزیر ہیں جو عمومی سطح پر عوام کی اصلاح کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہوں۔ عوام کو بہت سے معاملات میں راہ نمائی بھی درکار ہے اور حوصلہ بھی۔ لازم ہوگیا ہے کہ لکھنے والے قلم برائے قلم کے بجائے قلم برائے زندگی کے نظریے کو اہمیت دیں۔ کسی کو کچھ لکھنا ہے تو محض اپنا دل بہلانے کے لیے نہ لکھے بلکہ عوام کا حقیقی اور وسیع تر مفاد ذہن نشین رکھے۔
آج کی دنیا گزرے ہوئے تمام ادوار کی دنیا سے یکسر مختلف ہے۔ جو کچھ ڈھائی تین ہزار سال کے دوران ممکن بنایا جاتا رہا ہے وہ سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ہمارے سامنے ہے۔ یہ سب کچھ ہماری زندگی کو آسان تر بنانے کے لیے ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آسانیوں نے زندگی کو دشوار تر بنا دیا ہے۔ عام آدمی الجھ کر رہ گیا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہو سکتا ہے وہ سب انسان کو انتہائی درجے کی ذہنی پیچیدگیوں سے دوچار کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آنے والے زمانوں کی ہولناکی کا سوچ سوچ کر آج کا انسان اس قدر پریشان رہتا ہے کہ لمحۂ موجود سے کماحقہ استفادہ کر پاتا ہے‘ نہ لطف اندوز ہی ہو پاتا ہے۔
آج کے انسان کو الجھانے اور بھٹکانے والے معاملات بہت زیادہ ہیں۔ عام آدمی بیشتر معاملات کو سمجھ ہی نہیں پاتا۔ اس مرحلے پر سوچنے اور لکھنے والوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ دنیا بھر میں لکھنے والوں کا بنیادی فرض پڑھنے والوں کو اصلاحِ احوال پر متوجہ اور عمل پر مائل کرنا ہے۔ اچھی تحریر وہ ہے جو انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے تبدیل ہونے کی تحریک دے۔ انسان بالعموم صرف تحریر سے تبدیلی کی حقیقی تحریک پاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کتابیں معاشروں کو راہ دکھاتی رہی ہیں۔ اہلِ ایمان کی پوری زندگی کا مدار قرآن پر ہے اور وہ بھی تو کتاب ہی ہے۔
جو کچھ پوری دیانت‘ جاں فِشانی اور خلوصِ نیت سے لکھا جاتا ہے‘ وہ اپنا مقام قائم کرکے ہی دم لیتا ہے۔ بہت سے معاشروں کو سوچنے اور لکھنے والوں نے تبدیل کیا ہے۔ یورپ کی مثال اس معاملے میں بہت نمایاں ہے۔ اہلِ یورپ نے جہالت اور توہمات کی تاریکی میں کئی عہد گزارے۔ پھر وہاں روشن خیالی کا سورج طلوع ہوا۔ یہ ردِعمل تھا۔ خالص دنیوی نقطۂ نظر سے سوچنے والوں نے عوام کو راہِ راست پر لانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کا سوچا اور لکھنا شروع کیا۔ تین صدیوں کے دوران اہلِ علم و فن کی کاوشوں سے یورپ کے معاشرے ایسے تبدیل ہوئے کہ اب تک (دنیوی معاملات میں) دنیا کی امامت کر رہے ہیں۔
آج کا پاکستانی معاشرہ بھی بہت سی دوسری چیزوں کی طرح اچھی تحریروں کا طالب و متقاضی ہے۔ سوچنے والوں کو بہت کچھ لکھنا ہے۔ لکھنے کے معاملے میں دیانت لازم ہے تاکہ لوگوں کے لیے زندگی کی حقیقتیں سمجھنا آسان ہو اور وہ اپنے لیے کوئی بھی جامع حکمتِ عملی آسانی سے تیار کر سکیں۔ آج کل ہمارے ہاں جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ مقدار کے لحاظ سے پورا ہو تو ہو‘ معیار کے اعتبار سے انتہائی ناکافی ہے۔ یہ کمی پوری کرنا ہوگی۔ ویب سائٹس پر بھی بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت جو مواد پیش کیا جارہا ہے وہ معاشرے کو کچھ خاص نہیں دے پاتا۔ لازم ہے کہ بے لوث جذبے کے تحت لکھا جائے۔ سوشل میڈیا کی پوسٹیں ذہنوں کو پراگندہ کر رہی ہیں۔ ذہنوں کو مرتب کرنے والی تحریریں درکار ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں