"MIK" (space) message & send to 7575

یہ کھیل نہیں آساں …

بہت کچھ ایسا ہے جو انتہائی توجہ کا طالب ہے مگر ہم اُسے عمومی اور عبوری سطح پر لیتے ہیں۔ معاشی معاملات ہی کو لیجیے۔ ہم نے زندگی کے معاشی پہلو کو اب تک کھیل سمجھ رکھا ہے۔ اگر واقعی ہم نے معاشی معاملات کو کھیل سمجھ لیا ہے تو اِتنا ضرور ذہن نشین رہنا چاہیے کہ (جگرؔ مراد آبادی سے معذرت کے ساتھ) ؎
یہ ''کھیل‘‘ نہیں آساں بس اِتنا سمجھ لیجے
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جی ہاں! اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ کم و بیش ہر انسان اِس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف ہے کہ زندگی کا معاشی پہلو ہر اعتبار سے اس قابل ہے کہ اُسے کسی بھی طور نظر انداز نہ کیا جائے۔ آج کا ہر فرد بہت اچھی طرح سمجھتا ہے کہ زندگی بسر کرنا کس نوعیت کا تجربہ ہے۔ زندگی اِتنی مشکل ہوچکی ہے کہ کسی بھی ایک معاملے میں بھی کہیں کوئی آسانی ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ تمام معاملات میں رویے کچھ کے کچھ ہوچکے ہیں۔ معاشی معاملات کا تو بہت ہی بُرا حال ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ مزید الجھتا جارہا ہے مگر اہلِ وطن نے اب تک معاشی معاملات کو کھیل سمجھ رکھا ہے۔ اِس حقیقت پر غور کرنے کے لیے کم ہی لوگ تیار ہیں کہ یہ کھیل کسی بھی طور‘ کسی بھی صورت آسان نہیں۔ یہ تو آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ لوگ آگ کے دریا سے ڈوب کے گزر رہے ہیں مگر پھر بھی اِسے آگ کا دریا ماننے کو تیار نہیں! کم و بیش تین عشروں کے دوران ہمارے ہاں سیاست و معیشت کے میدان میں جو خرابیاں پروان چڑھی ہیں وہ اس امر کی متقاضی ہیں کہ ہم سوچنے پر مائل ہوں اور اصلاحِ احوال کا ذہن بنائیں۔ یہ کام ہر سطح پر کیا جانا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ حکومت کا قبلہ درست ہوگا یا نہیں۔ خرابیاں تو اب پورے معاشرے میں پائی جارہی ہیں۔ ایسے میں صرف حکومت سے فکر و عمل کی درستی کی امید وابستہ رکھنا اچھی بات نہیں۔ معاملات کی درستی کا عمل پورے معاشرے پر محیط ہونا چاہیے۔ یہ تصور اپنے ذہن سے کھرچ کر پھینک دینا چاہیے کہ کہیں کوئی بہتری آئے گی تو عام آدمی کی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔ بہتری کا عمل اپنے گھر سے‘ اپنی ذات سے شروع ہونا چاہیے۔ کسی بھی معاملے میں فکر و نظر کی تبدیلی کا عمل انسان کو اپنی ذات سے شروع کرنا چاہیے۔ آج سب سے زیادہ ضروری ہے معاشی معاملات کے حوالے سے فکر و نظر کی تبدیلی۔ معاشی معاملات میں لگی بندھی سوچ اپنانے کے جو خطرناک نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں‘ وہ ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ دنیا بہت بدل گئی ہے مگر ہم بدلنے کا نام نہیں لے رہے۔ ہمارے ماحول میں ظاہری طور پر بہت کچھ بدل رہا ہے مگر باطنی سطح پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہو رہا۔ سوچ نہ بدلے تو کچھ بھی نہیں بدلتا۔ تین عشروں کے دوران معاشرت میں خطرناک حد تک تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں سیاست سے بھی آئی ہیں اور معیشت سے بھی۔ تین عشروں کے دوران قومی معیشت مختلف مواقع پر تباہ کن مراحل سے گزری ہے۔ بگاڑ بڑھتا ہی رہا۔ معیشت کی خرابی نے دیگر بہت سے معاملات کیساتھ ساتھ معاشرت کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ معاشی معاملات کی خرابی سے پیدا ہونے والی بدحواسی نے معاشرت کو اتنا بگاڑا ہے کہ اب اصلاحِ احوال کیلئے انقلابی سطح پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی معاشرے کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے لازم ہے کہ پہلے مرحلے میں معاشی معاملات کا قبلہ درست کیا جائے۔ کمانے اور خرچ کرنے کا عمل زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اس ایک عمل سے بہت کچھ جڑا ہے۔ معاشی معاملات کی درستی معاشرت کو بھی درست کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہمارے ہاں معیشت و معاشرت کے تفاعل کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ زندگی کے یہ دونوں پہلو ایک دوسرے کو بگاڑنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اور ہم؟ ہم صرف تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں تماشا نہیں دیکھنا بلکہ متحرک ہوکر کچھ کرنا ہے۔ پہلا مرحلہ معاشی معاملات میں دیانت اور حقیقت پسندی کی روش اپنانے کا ہے۔ یہی کامیاب معاشروں کی روش ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرے بغیر ہم دیگر معاملات میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ جب معاشرہ مجموعی طور پر زوال پذیر ہو اور مکمل تباہی سامنے کی بات دکھائی دے رہی ہو تب بچاؤ کی ایک ہی معقول صورت ہوتی ہے‘ وہ یہ کہ معیشت کو درست کیا جائے۔ کمانے کا درست عمل ہی انسان کو دوسرے بہت سے معاملات میں بھی خرابیاں دور کرنے کی تحریک دے سکتا ہے۔ آج ہماری مجموعی کیفیت یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دھوکا دینے اور چُونا لگانے میں مصروف ہیں۔ یہ روش کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں۔ سب کا ایک دوسرے کو دھوکا دینا بظاہر برابر کا معاملہ ہے مگر یہ منصفانہ روش نہیں اور اِس روش پر چل کر معاشرے کو کبھی پروان نہیں چڑھایا جاسکتا۔
کسی قوم کی حقیقی ذہنی حالت دیکھنی ہو تو اُس کے معاشی رویوں پر نظر ڈالیے۔ لوگ جس طرح کماتے اور خرچ کرتے ہیں اُسی طور زندگی بھی بسر کرتے ہیں۔ معاشی رویے زندگی کے بیشتر معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ معاشی رویوں کی درستی زندگی کے ڈھانچے کو درست کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ آج ہم اُس نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سے ہمیں حقیقی معقول معاشی رویوں کی طرف جانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حقیقی معقول معاشی رویے کیا ہوسکتے ہیں۔ کمانا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اس معاملے سے کوئی بھی الگ نہیں رہ سکتا۔ یہ ترک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کمانے ہی کی بدولت ہم اپنی مرضی کے مطابق اور ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب ہے کہ ہم زندگی کے معاملے کو ذرّہ بھر توجہ دینے کے بھی روادار نہیں۔ لازم ہے کہ معاشی معاملات کو درست کیا جائے۔ کمانے کا عمل چونکہ کلیدی اہمیت رکھتا ہے اس لیے لازم ہے کہ اِس میں دیانت بھی ہو اور استحکامِ فکر و نظر بھی۔ سوال زیادہ کمانے کا نہیں‘ ڈھنگ سے اور دیانت سے زیادہ کمانے کا ہے۔ کسی نہ کسی طور زیادہ کمانے کا مطلب ہے کسی نہ کسی کے حق پر ڈاکا ڈالنا۔ ضرورتیں سب کی بڑھ رہی ہیں اور اِن ضرورتوں کو پورا کرنا بھی ناگزیر ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ معقول اور متوازن معاشی رویے اپناکر زندگی بسر کی جائے۔ ایک دوسرے کو دھوکا دینا یا ایک دوسرے کے حق پر ڈاکا ڈالنا کسی بھی اعتبار سے مستحسن رویہ نہیں۔ اِس سے محض معاشرے کی خرابی میں اضافہ ہوتا ہے۔
آجر اور اجیر دونوں شدید دباؤ میں ہیں۔ دونوں کو اپنی طرزِ فکر و عمل بدلنی ہے۔ ہمارے ہاں عمومی تصور اور تاثر یہ ہے کہ آجر صرف حق مارنے پر یقین رکھتے ہیں اور وہ اجیروں کو اُن کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں دے رہے۔ ایسا نہیں ہے! جو کیفیت اجیروں کی ہے وہی آجروں کی بھی ہے۔ حالات اِتنی تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیں کہ سبھی کے لیے پورے یقین کے ساتھ کچھ کہنا اور کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف محنت کش طبقہ ہی حالات سے تنگ ہے۔ جو لوگ لاکھوں کی سرمایہ کاری سے کوئی کام شروع کرتے ہیں وہ بھی حالات کے بدلنے سے اچانک نقصان اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں اور اچھی خاصی سرمایہ کاری داؤ پر لگ جاتی ہے۔ سرمایہ کار اور صنعتکار بھی مشکلات سے دوچار ہیں۔ تاجر طبقہ الگ پریشان ہے۔ حالات جب خراب ہوتے ہیں تو سبھی کے لیے خراب ہوتے ہیں۔ بہت بڑے پیمانے پر کام کرنے والے ادارے حالات کا دباؤ برداشت کرنے میں کامیاب رہتے ہیں کیونکہ اُن میں ایسا کرنے کی سکت ہوتی ہے۔ نچلے طبقے سے وابستہ تاجر اور صنعتکار تو ہر وقت مشکلات کے دہانے ہی پر کھڑے رہتے ہیں۔ معاشی معاملات میں حقیقت پسندی ناگزیر ہے۔ عام آدمی کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ سب دیانت کا مظاہرہ کریں گے تو کچھ ہوگا۔ آجروں کو بھی سکون کا سانس لینے کا موقع ملنا چاہیے۔ معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے طرزِ فکر و عمل بدلے بغیر ہم بہتری کی طرف بڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں