"MIK" (space) message & send to 7575

ترقی و خوش حالی‘ آپ کی مرضی

جان سی میکس ویل کا شمار شخصی ارتقا کے بڑے اور خاصے مقبول مصنفین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے انسان کو بدلنے سے متعلق حقائق پر غیر معمولی تحقیق کی اور اُس تحقیق کے نتائج کو کتابی شکل میں پیش کرتے رہے۔ مقصود صرف یہ تھا کہ لوگوں کو تبدیل ہونے، کچھ نیا اور بہتر کرنے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی معیارِ زندگی بلند کرنے کی تحریک ملے۔ اس کوشش میں وہ کہاں تک کامیاب رہے اس کے بارے میں پورے یقین اور تعین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر ہاں‘ اُن کے پڑھنے اور چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کی بیشتر کتابوں کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ جان سی میکس ویل نے قیادت کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ اُن کے نزدیک کم و بیش ہر انسان میں کسی نہ کسی حد تک قائدانہ صلاحیت پائی جاتی ہے اور کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی شکل میں قیادت کا موقع ملتا ہی ہے۔ کلاس روم میں مانیٹر یا پریفیکٹ بھی قائد ہی ہوتا ہے۔ گھر میں بھی کسی نہ کسی کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔
جان میکس ویل کے نزدیک شخصی سطح پر حقیقی ترقی و خوش حالی ممکن بنانا خالصتاً آپشنل معاملہ ہے یعنی انسان چاہے تو ترقی و خوش حالی کی طرف جائے اور چاہے تو نہ جائے۔ یہاں تک تو معاملہ واضح ہے کہ کچھ کرنا یا نہ کرنا انسان کی مرضی کے تابع ہے۔ اگر کسی کو ترقی نہیں کرنی تو نہ کرے۔ اگر کوئی خوش حالی کا طالب نہیں ہے تو نہ ہو۔ کوئی بھی کسی کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ ہم زندگی بھر ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں، اُن سے ملتے ہیں اور اُنہیں جھیلتے ہیں جو بالکل عمومی سطح جینے سے زیادہ کچھ سوچتے ہی نہیں۔ اُن کے ہاتھوں اُن کے اپنے وجود کے ساتھ ساتھ متعلقین کو بھی بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ترقی و خوش حالی کے آپشن کو سمجھنے اور اپنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ جان میکس ویل کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں تبدیلی ناگزیر ہے جبکہ ترقی و خوش حالی خالص آپشنل معاملہ ہے۔ تبدیلی سے کوئی نہیں بچ سکتا کیونکہ اُس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ جس تبدیلی کو رونما ہونا ہے اُسے رونما ہونا ہی ہے۔ یہ بالکل ایسا معاملہ ہے جیسے کسی علاقے میں سیلاب آجائے۔ سیلاب کو روکا جاسکتا ہے؟ یقینا مگر ایک خاص حد تک! سیلابی کیفیت کسی کے بس میں نہیں ہوتی۔ دریا بھر جائے تو پانی کہاں جائے؟ دریا کے کناروں کو توڑ کر نکل آنے والا پانی متعلقہ علاقوں میں پھیل جاتا ہے۔ پانی کا کام ہے اپنی سطح برابر کرلینا۔ سیلاب وارد ہو رہا ہو تو انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ اگر کوئی ضد پر اڑا ہو کہ سیلاب ویلاب کچھ نہیں ہوتا تو؟ ایسے انسان کو احمق کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے! سیلاب آیا چاہتا ہو، آثار مکمل ہوں تو انسان کو اُس کے وجود سے انکار کرنے کے بجائے بچاؤ کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ جن مقامات پر سیلاب کو آنا ہوتا ہے اُن مقامات کو تو ہٹایا نہیں جاسکتا مگر ہاں‘ اپنے آپ کو وہاں سے ہٹانا مکمل طور پر اپنے اختیار کی بات ہے۔ اگر کوئی سیلابی ریلے دیکھ کر بھی اُن کے وجود سے انکار کرے تو؟ اُس کا ڈوبنا لکھ دیا گیا ہے۔ تبدیلیوں کا بھی تو یہی معاملہ ہے۔ ہر تبدیلی اپنے وقت پر رونما ہوکر رہتی ہے۔ ہم کسی تبدیلی کو پسند کریں یا نہ کریں، اُسے تو آنا ہی ہے۔ کامیاب وہ ہیں جو تبدیلیوں کے وجود سے انکار کے بجائے اپنے وجود کو تبدیلیوں کے لیے تیار کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ دل و دماغ کے استحکام سے ہمکنار افراد اپنے آپ کو بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق تیار رکھ کر دراصل اپنے ساتھ ساتھ متعلقین کے لیے بھی سکون و راحت کا سامان کر رہے ہوتے ہیں۔
خوش حال زندگی بسر کرنا ہر انسان کی خواہش ہے مگر محض خواہش سے کیا ہوتا ہے؟ زندگی کا معیار اُس وقت بلند ہوتا ہے جب انسان کچھ کرنے کا سوچتا ہے۔ ہم زندگی بھر صرف خواہشات کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ سوال عمل کا ہے۔ عمل وقت پر اور معیاری ہو تو خواہش کو حقیقت کا روپ دھارتے زیادہ وقت نہیں لگتی۔ عام آدمی کا ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اپنی تبدیلی سے تعبیر کرتا رہتا ہے۔ ماحول کے تبدیل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ اور ہمارا اپنے آپ کو بدلنا اپنی جگہ۔ سوال تبدیلیوں کے رونما ہونے کا نہیں۔ وہ سب تو ہوتا رہے گا۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بھرپور ترقی و خوش حالی کے لیے کس طور تیار کرتے ہیں اور تیار کرتے بھی ہیں یا نہیں۔
اگر کسی کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو سب سے پہلے طے کرنا ہوگا کہ اُس کے نزدیک ترقی کیا ہے اور خوش حالی کسے کہتے ہیں۔ عام آدمی کے نزدیک صرف دولت کا حصول ہی ترقی ہے۔ لوگ بڑا گھر چاہتے ہیں۔ ساتھ میں بڑی گاڑی بھی ہو اور بینک میں اچھی خاصی رقم بھی۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ترقی اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک مقبولیت حاصل نہ ہو، شہرت نہ ملے۔ کسی کے خیال میں ترقی تب مکمل ہوتی ہے جب لوگ احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کسی کی نظر میں ترقی اس کا نام ہے کہ لوگ دیکھتے ہی واہ واہ کرنے لگیں۔ اِسی طور خوش حالی کے حوالے سے بھی بہت سے تصورات پائے جاتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اچھی رہائش، اچھا کھانے پینے اور سفر کی بہترین سہولتیں میسر ہونے کو خوش حالی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اچھی رہائشی سہولت، معیاری کھانے پینے اور ڈھنگ سے گھومنے پھرنے کا خوش حال زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہر انسان اچھی طرح رہنا چاہتا ہے۔ اُسے کھانے پینے کو بھی معیاری اشیا درکار ہوتی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ گھر سے نکلے تو سفر کی بہترین سہولتیں میسر ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا خوش حالی کے لیے اتنا ہی کافی ہے؟ قلبی و روحانی سکون کا کیا؟ حقیقی خوش حالی اس بات کی بھی تو محتاج ہے کہ انسان کی جدوجہد جائز ذرائع سے ہوئی ہو؟ غیر قانونی کاموں کے ذریعے سمیٹی جانے والی کامیابی کس کام کی؟ تہذیبی و اخلاقی اقدار کو نظر انداز یا پامال کرکے یقینی بنائی جانے والی کامیابی کو آپ کیا کہیں گے اور کیا کریں گے؟
لوگ عمومی سطح پر اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی یقینی بنائی جانے والی کامیابی اور خوش حالی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں اکثریت اُن کی ہے جو کسی کی ظاہری شان و شوکت دیکھتے ہیں اور متاثر ہو جاتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بہت سوں کی کامیابی دراصل ناجائز ذرائع سے ممکن بنائے جانے کے باعث کامیابی ہوتی ہی نہیں۔ جو لوگ رشوت لے کر یا لوگوں کو دھوکا دے کر دولت کماتے ہیں وہ بھی عام آدمی کی نظر میں قابلِ رشک ٹھہرتے ہیں، رول ماڈل قرار پاتے ہیں۔ خوش حالی کا تعلق صرف دولت سے نہیں۔ دولت کا حامل ہونا خوش حالی کا محض ایک حصہ ہے۔ انسان کے لیے صحت بھی اہم ہے اور گھر کے لوگ بھی۔ اگر انسان کو اپنے گھر میں سکون میسر نہ ہو تو نرم بستر پر بھی کانٹے چبھتے ہیں۔ اگر لوگ عزت نہ کرتے ہوں تو دولت کس کام کی؟ کوئی خوش دِلی سے نہ ملتا ہو تو انسان بینک بیلنس کا کیا کرے؟
ترقی چاہنے اور خوش حال ہونے کی تمنا کرنے سے بہت پہلے انسان کو طے کرنا چاہیے کہ وہ ترقی کس چیز کو سمجھتا ہے اور خوش حالی اُس کے نزدیک کس کیفیت کا نام ہے۔ بلند کردار کے حامل افراد کی صحبت میسر ہو تو انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ہنر مند اور محنتی افراد کے ساتھ گزارا ہوا وقت انسان کو زندگی میں زیادہ رنگینی پیدا کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ کسی بھی تبدیلی کو قبول نہ کرنا کسی بھی اعتبار سے کوئی آپشن نہیں۔ تبدیلی تو آکر رہتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوتا ہے۔ اگر ہم خود کو بروقت بدلیں تو زندگی کا معیار بلند ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں جو کچھ ہاتھ میں ہو وہ بھی جاتا رہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں