الجھن کسی جواز کے بغیر ہو یا جواز کے ساتھ‘ الجھا ہوا ذہن کچھ نہیں کر پاتا۔ کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہو پاتی ہے جب ذہن میں کوئی بھی غیر ضروری یا بلا جواز الجھن پائی نہ جاتی ہو۔ کوئی الجھن ناگزیر بھی ہوسکتی ہے۔ ایسی کسی بھی الجھن سے لڑنا آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ بالکل فطری معاملہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی الجھن بلا جواز یا غیر ضروری ہو تو زیادہ پریشان کرتی ہے۔ ایسے میں انسان الجھن کے تدارک کے بارے میں سوچنے سے راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔ مشکلات فطری طور پر یعنی حالات کے ہاتھوں سامنے آتی رہیں تو انسان کسی نہ کسی طور اُن سے نپٹنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ کوئی پریشانی اگر اپنی کوتاہی یا لاپروائی کا نتیجہ ہو تو ذہن پر دباؤ بہت بڑھ جاتا ہے۔ پچھتاوے کا احساس ذہن کی الجھن میں اضافہ کرتا ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے کامیابی کا ایک بنیادی اصول ذہن کا واضح ہونا ہے۔ ابہام‘ خواہ کسی نوع کا ہو‘ کام کرنے کی صلاحیت و سکت پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے کا جائزہ لیجیے تو کامیاب ترین انسان بالکل واضح ذہن کیساتھ کام کرتے ہوئے ملیں گے۔ جب کسی بھی معاملے میں شرحِ صدر کی منزل آ جاتی ہے تبھی ڈھنگ سے کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ابتدائی مرحلے میں ابہام کا پایا جانا فطری امر ہے۔ انسان جب بھی کسی شعبے میں قدم رکھتا ہے تو ابتدائی مرحلہ بالعموم خاصا دشوار گزار ہوتا ہے۔ تھوڑی بہت جھجھک بھی ہوتی ہے۔ کچھ تذبذب بھی راہ روک رہا ہوتا ہے۔ خوف بھی دامن گیر رہتا ہے مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ کیفیت رفتہ رفتہ کمزور پڑتی جاتی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں خوف کا دامن گیر ہونا اور تذبذب کا سامنے آ کھڑا ہونا بالکل فطری امر ہے۔ اِس معاملے میں کم ہی لوگوں کو استثنیٰ مل پاتا ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان سے پوچھئے کہ ابتدا میں اس نے کیا محسوس کیا تھا تو وہ یہی کہے گا کہ جھجھک تھی‘ الجھن تھی‘ خوف تھا۔ اس مرحلے سے سبھی کو گزرنا پڑتا ہے۔ انسان کسی بھی نئے معاملے میں ایسا ہی محسوس کرتا ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ سیلاب تھمتا جاتا ہے‘ پانی کی سطح گرتی چلی جاتی ہے۔
شخصیت کے ارتقا سے متعلق موضوعات پر لکھنے والوں کی اکثریت اس نکتے پر بہت زور دیتی ہے کہ کامیابی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے ذہن سے ہر غیر ضروری بوجھ ختم کرے‘ تمام متعلقہ امور میں ذہن کو بالکل واضح رکھے۔ ذہن میں کسی گِرہ کا پایا جانا اس لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے کہ ایسی حالت میں انسان اپنے کام پر بھرپور توجہ مرکوز رکھنے میں ناکام رہتا ہے۔ کامیابی کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی انسان وسائل کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ کبھی مطلوب صلاحیت و سکت نہیں پائی جاتی۔ کبھی حالات بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ کبھی مزاج راستے میں دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ بہر کیف‘ مشکلات اور بھی بہت ہیں مگر سب سے بڑی مشکل ہے ذہن کا واضح نہ ہونا ہے۔ جب ذہن اٹکا ہوا ہو تو انسان ڈھنگ سے کچھ بھی نہیں کر پاتا۔
بہت سوں کو آپ اس حال میں پائیں گے کہ ایک کام شروع کرتے ہیں‘ کچھ دن محنت کرتے ہیں اور پھر ارادہ بدل لیتے ہیں۔ پھر کوئی نیا کام شروع کیا جاتا ہے۔ کچھ دن بعد اس کام سے بھی جی اُکتا جاتا ہے اور پھر تیسرے کام کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ فیصلہ واضح ذہن کیساتھ نہیں کیا جاتا۔ جب ذہن اٹکا ہوا ہو‘ تذبذب کا شکار ہو تو کام ادھورے چھوڑنا پڑتے ہیں۔ کام وہی اچھا ہے جو ذہن میں کسی بھی طرح کا اٹکاؤ پیدا نہ کرے۔ اگر کسی بھی حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہوں اور تذبذب ختم ہونے کا نام نہ لے رہا ہو تو انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ہم زندگی بھر ایسی ہی کیفیت دیکھتے ہیں اور اُس سے دوچار بھی رہتے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کے معاشروں میں ذہنوں کا الجھا ہوا ہونا عام بات ہے اور اس کا نتیجہ بھی ہم دیکھتے اور بُھگتتے آئے ہیں۔
شخصیت کے ارتقا کے موضوع پر کام کرنے والے ماہرین ایک زمانے تک کی جانے والی تحقیق کی روشنی میں اس نکتے پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ کوئی بھی شعبہ اپنانے سے پہلے یا کوئی بھی منصوبہ شروع کرتے وقت ذہن بالکل واضح ہونا چاہیے۔ ذہن میں کسی بھی اٹکاؤ کا نہ ہونا یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے پوری تیاری کرے۔ وسائل بھی پورے ہونے چاہئیں اور صلاحیت و سکت کے معاملے میں بھی کوئی کمی دکھائی نہیں دینی چاہیے۔
ترقی یافتہ معاشروں میں کریئر کے حوالے سے تیاری کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ نئی نسل کو بہت کچھ سکھایا جاتا ہے۔ زمانے میں سکے کی طرح چلنے والی صلاحیت اور سکت کو پروان چڑھانے سے بہت پہلے نئی نسل کا ذہن تیار کیا جاتا ہے۔ کریئر کاؤنسلنگ کے ذریعے نوجوانوں کے ذہن ٹٹولے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ رجحان اور میلان کا درست اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ نوجوانوں کے ذہن میں عملی زندگی کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہے اور وہ جب عملی زندگی شروع کریں تو کسی بھی حوالے سے تذبذب کا شکار نہ ہوں۔ کریئر کاؤنسلنگ کے ذریعے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی پسندیدہ شعبے کے حوالے سے لگن کس حد تک ہے۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی شعبہ آج تو پُرکشش لگ رہا ہے مگر کل کو اس سے جی اُکتا جائے۔ آج کی دنیا میں غلط فیصلوں کی گنجائش برائے نام ہے۔ فی زمانہ کریئر بلڈنگ غیر معمولی توجہ اور انتہائی جاں فشانی چاہتی ہے۔ اندازے کی دُرستی ناگزیر ہے۔ کریئر کی ڈگر تبدیل کرنا بیس پچیس سال پہلے آسانی سے ممکن ہو جایا کرتا تھا۔ اب ہر شعبے میں تحقیق و ترقی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ اندازے کی غلطی انسان کو بہت پیچھے کردیتی ہے۔
آج کسی بھی شعبے میں نام کمانے کے لیے لازم ہے کہ انسان وسیع مطالعے کا حامل ہو۔ اب اپنے شعبے کے علاوہ بھی بہت کچھ پڑھنا پڑتا ہے۔ پڑھے بغیر انسان زیادہ سیکھ نہیں سکتا۔ معیاری کتابوں کے علاوہ تحقیقی مضامین اور انٹرویوز وغیرہ کے ذریعے بھی انسان سیکھتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ناگزیر ہے کہ انسان اپنے طور پر کچھ زیادہ نہیں کرسکتا۔ اُسے دوسروں سے بہت کچھ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ بھی اعلیٰ تر زندگی اور شاندار کامیابی یقینی بنانے میں ہماری خاصی مدد کرتا ہے۔ زیادہ پڑھنے سے ذہن واضح ہوتا ہے۔ دوسروں کا تجربہ ہمیں تذبذب سے دور لے جاتا ہے۔
بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت تیزی سے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ جب ذہن واضح نہ ہو تو کوئی بھی بڑا کام نہیں ہو پاتا۔ لازم ہے کہ انسان اپنے وسائل اور صلاحیت و سکت کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے۔ سیانے کہتے ہیں تذبذب اور شکوک و شبہات کے ساتھ دوڑنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انسان پورے یقین اور خود اعتمادی کے ساتھ صرف چلتا رہے۔ اگر کوئی زبردستی کی تیزی اور عجلت پسندی دکھائے تو گِر بھی سکتا ہے۔ گرنے کی صورت میں دوبارہ کھڑے ہونے میں وقت ضائع ہوتا ہے۔ ایسے میں درست یا معقول حکمتِ عملی یہ ہوسکتی ہے کہ انسان کسی نہ کسی طور صرف چلتا رہے۔ ایک خاص رفتار کے ساتھ منزل کی طرف صرف چلتے جانا بھی کافی ہوتا ہے۔ اگر گرنے کا احتمال ہو تو دوڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جو قدم قدم پر صرف واضح ذہن کی طالب رہتی ہے۔ الجھے اور اٹکے ہوئے ذہن کے ساتھ جینے میں صرف ناکامی کا امکان باقی رہتا ہے۔ کوئی بھی اگر انسان اپنی صلاحیت و سکت کو ضائع ہونے سے بچانا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترے۔ جامع تیاری کے ساتھ میدان میں آنے والے ہی ڈھنگ سے مسابقت کر پاتے ہیں۔ ہر شعبے کے کامیاب ترین افراد کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ ڈھنگ سے جینے اور کچھ پانے کے لیے ذہن گرہوں سے پاک ہونا چاہیے۔ بھرپور کامیابی کے لیے سب سے پہلے ذہن سازی کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ ذہن سازی یعنی ہر گرہ کھول دینا۔