انسان طرح طرح کی ''پسندیوں‘‘ کا مجموعہ ہے۔ خود پسندی، جاہ پسندی، منصب پسندی، آرام پسندی، انتہا پسندی اور دوسری بہت سی ''پسندیاں‘‘ مزاج کا حصہ بنی رہتی ہیں۔ اگر ڈھونڈنا پڑتی ہے تو صرف حقیقت پسندی۔ حقیقت پسندی وہ وصف ہے جو انسانوں میں خال خال پایا جاتا ہے۔ کیوں؟ ہر حقیقت تلخ ہوتی ہے کیونکہ وہ جو کچھ ہوتی ہے‘ بس وہی ہوتی ہے۔ ہر زمینی حقیقت انسان کے لیے قدرے ناگوار ہوتی ہے۔ جو لوگ انتہائی درجے میں حقیقت پسند ہوتے ہیں وہ بھی بسا اوقات اپنے اِس وصف سے بے مزہ سے ہو جاتے ہیں کیونکہ اِس وصف کے ہاتھوں اُنہیں بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ پھر بھی وہ دانش کا تقاضا سمجھتے ہوئے حقیقت پسندی ترک نہیں کرتے۔ اپنے آپ پر جبر کرتے ہوئے حقیقت پسند رہنا بہت بڑی بات ہے۔
کسی بھی حقیقت پسند انسان کو آپ بہت مختلف پائیں گے۔ حقیقت پسند انسانوں کی زندگی میں بالعموم زیادہ رنگینی نہیں پائی جاتی۔ حقیقت پسندی انسان کو معروضی انداز سے سوچنا سکھاتی ہے، منظم طریقے سے جینے کی تحریک دیتی ہے۔ کسی بھی حقیقت پسند انسان کے مزاج میں زبردستی کا تلون بھی نہیں پایا جاتا، وہ کسی بھی معاملے میں بے جا طور پر لڑھکتا ہوا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ مزاج کا نشیب و فراز اور چیز ہے اور کسی بھی معاملے میں بے جا جھکاؤ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو مشکلات سے دوچار کرنا اور چیز۔ ہر دور انسان کے سامنے بہت سے چیلنجز رکھتا آیا ہے۔ بعض چیلنجز زمانے کے مطابق ہوتے ہیں اور بعض ابدی نوعیت کے ہوتے ہیں یعنی ہر دور میں وہ پائے جاتے ہیں۔ معاشرتی معاملات میں پائے جانے والے رجحانات ہر دور میں قدرے یکساں رہتے ہیں۔ رشتوں اور تعلقات کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ معاشی معاملات یعنی عملی زندگی کے حوالے سے انسان کو ہر عہد میں بدلی ہوئی حقیقت پسندی کا سامنا رہتا ہے۔ ہر دور عملی زندگی سے متعلق نئے چیلنجز لے کر آتا ہے۔ ایسے ہر چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذرا سی بھی ڈھیل دکھائی تو سارا معاملہ بگڑ گیا۔
آج ہمیں دنیا بہت الجھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا ہر عہد میں الجھی ہوئی تھی۔ مسائل مختلف تھے اور اُن سے جُڑی ہوئی پیچیدگیاں بھی مختلف تھیں۔ گزرے ہوئے زمانوں کا ریکارڈ کھنگالنے پر ہمیں اپنے عہد کا ہر چیلنج بہت خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی فکر و نظر کا دھوکا ہے۔ ہر عہد کے انسان کو اُس کے حصے کے دُکھ اور سُکھ ملے۔ ہمیں بھی اپنے عہد کی مناسبت سے مشکلات اور راحتیں ملی ہیں۔ کوئی یہ گمان نہ پالے کہ کسی گزرے ہوئے زمانے میں آسانیاں تھیں اور آج بہت مشکلات ہیں۔ کبھی آپ نے جنگل میں شیر اور چیتے کی شکار والی وڈیوز دیکھی ہیں؟ ایک ہرن کو پکڑنے کے لیے چیتے کو کتنی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ پیٹ بھرنے کے لیے ہر درندے کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا ہے اور پھر شکار کی تقسیم پر آپس کا جھگڑا بونس کی صورت میں ملتا ہے! کسی زمانے میں انسان کو بھی اِسی طور خوراک کا بندوبست کرنا پڑتا تھا۔ جب جانور پالنے کا چلن عام نہیں ہوا تھا تب شکار کی صورت میں گوشت ایک دن سے زیادہ محفوظ نہیں رکھا جاسکتا تھا یعنی ہر دوسرے یا تیسرے دن شکار کرنا ہی پڑتا تھا۔ کیا ہمیں ایسی مشقت کا سامنا رہا ہے؟ آج معاشی معاملات بہت منظم ہیں۔ کیا اِس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر واجب نہیں؟
آج کی دنیا پیچیدگیوں کے حوالے سے بہت منفرد ہے۔ ایسی پیچیدگیاں کبھی کسی نے دیکھی ہیں نہ سنی ہیں۔ عملی زندگی کے حوالے سے پائی جانے والی الجھنیں انسان کو گھن چکر بنائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں لازم ہوچکا ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہو۔ ہم زندگی بھر بہت سی مکھیاں نگلتے رہتے ہیں۔ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے کا عمل کبھی رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ تساہل پسندی ہمیں بہت سے ایسے معاملات میں ڈھلمل رویہ اپنانے پر مجبور کرتی ہے جن میں یہ رویہ کسی طور نہیں چل سکتا۔ حقیقت پسندی آپشن نہیں‘ لازمہ ہے۔ آپشن ایسے متبادل کو کہتے ہیں جس کے نہ اپنانے سے بھی کام بہت حد تک چل جاتا ہو۔ حقیقت پسندی متبادل نہیں کیونکہ اِسے نہ اپنانے کی صورت میں کام چل ہی نہیں سکتا۔ جب بھی کوئی انسان حقیقت پسندی کی راہ سے ہٹ کر چلتا ہے تب اُس کا تنزل یقینی ہوتا چلا جاتا ہے۔ حقیقت پسندی کے مقابل خوش گمانی اور خوش فہمی ہی رہ جاتی ہے۔ بہت کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی اگر انسان اپنے آپ کو تباہی کی طرف جاتا ہوا دیکھے اور ہوش کے ناخن نہ لے تو سمجھ لینا چاہیے کہ حقیقت پسندی کو زندگی کے انتہائی بنیادی وصف کی حیثیت سے اپنانے کی ذہنیت کو وہ ترک کرچکا ہے۔
حقیقت پسندی کیا ہے؟ یہ کہ معاملات کو اُسی حیثیت میں قبول کیا جائے جس حیثیت میں وہ واقع ہوئے ہیں۔ اگر کسی کی مالی حیثیت شاندار طرزِ رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتی تو حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر ایسی طرزِ رہائش اختیار کی جائے جو بجٹ کی حدود میں ہو۔ بجٹ کی حدود میں رہنا حقیقت پسندی کی روشن ترین مثال ہے۔ ہر طبقے میں ایسے لوگ خاصی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو بجٹ کی حدود کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایسی طرزِ زندگی اختیار کرتے ہیں جو آخرِکار اُنہیں مشکلات سے دوچار کرکے دم لیتی ہے۔ یہ سب کچھ بے ذہنی یا کم عقلی کے ہاتھوں رونما ہوتا ہے۔ جب انسان حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے اور محض اپنے گمان یا خوش گمانی کے دائرے میں رہتے ہوئے سوچتا ہے تب کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کر گزرتا ہے جو اُسے شدید مشکلات سے دوچار کرنے کا باعث بنتا ہے۔ حقیقت پسند انسان اپنے تمام معاملات کو متوازن رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ کبھی کبھی اندازہ غلط بھی ہو جاتا ہے مگر پھر بھی دل کو اس بات کا اطمینان ضرور رہتا ہے کہ جہاں تک کوشش کی جانی چاہیے تھی وہاں تک تو کوشش کی ہی گئی۔ ہم بہت سی آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلتے رہتے ہیں مگر حقیقت پسندی کو آنکھوں دیکھی مکھی کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ مکھی ہمیں بخوشی نگلنی چاہیے اور وہ بھی پورے شعور کے ساتھ۔ ہم بہت کچھ میکانیکی انداز سے کرتے ہیں۔ جنہیں بھکاریوں کو کچھ دینے کی عادت پڑ جائے وہ سوچے سمجھے بغیر بھیک دیتے ہیں۔ پھر اگر سامنے کوئی ہٹّا کٹّا بھکاری بھی ہو تو ایسے لوگوں کا ہاتھ جیب میں جاتا ہے اور کچھ نہ کچھ دے بیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگ پیشہ ور بھکاریوں کو بھی میکانیکی انداز سے بھیک دیتے ہیں جبکہ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ کسی بھی انسان کی مدد اُس وقت کی جانی چاہیے جب وہ واقعی مستحق ہو اور حالات کے ہاتھوں مجبور ہو۔ حقیقت پسندی کا وصف ہمیں ڈھنگ سے، معروضی انداز سے سوچنا سکھاتا ہے۔ معقول و معروض طریقے سے سوچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ تمام متعلقہ حقائق کو ذہن نشین رکھتے ہوئے سوچنا ہی سوچنا ہے۔ محض خوش فہمی یا خوش گمانی کی بنیاد پر بودے مفروضے تو قائم کیے جاسکتے ہیں، سوچا نہیں جاسکتا۔
اگر کرکٹ میچ نازک موڑ پر ہو تو دونوں ٹیموں کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھیلنا پڑتا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی بیٹر دھواں دھار بیٹنگ کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ اِس میں معاملات کے بگڑنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف فیلڈنگ کرنے والی ٹیم بھی بولنگ اور فیلڈنگ میں احساسِ ذمہ داری سے محروم رویے کا مظاہرہ کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ کسی بھی مقابلے کو حقیقت پسندی کا وصف اپناکر ہی جیتا جاسکتا ہے۔ اگر دونوں فریق واقعی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہوں تو تماشائیوں کی عید ہو جاتی ہے۔ اُنہیں ایسا مقابلہ دیکھنے کو ملتا ہے جس میں فتح محض اتفاق کا نتیجہ ہوتی ہے۔ فریقین اگر برابری کے ہوں تو کسی کی فتح واقعی فتح ہوتی ہے نہ کسی کی شکست واقعی شکست۔ حقیقت پسندی میں تکلیف تو ہے‘ نقصان نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جنہیں حقیقت پسندی کو مزاج میں گوندھنے کی توفیق نصیب ہو وہ کسی بھی معاملے میں غیر متوازن رویہ اپنانے سے یکسر گریز کرتے ہیں۔ ہم جس دنیا کا حصہ ہیں اُس میں حقیقت پسندی ہی سب سے بڑی اور واقعی کرنسی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو کرنسی عمل کے بازار میں سب سے زیادہ قدر کی حامل ہے اُسی کو اپنانے سے لوگ گریزپا رہتے ہیں!