"MIK" (space) message & send to 7575

لوگ جینے ہی کہاں دیتے ہیں!

کوئی ایک شکوہ ہو تو انسان کرے بھی۔ یہاں تو گلوں اور شکووں کی ایک لمبی قطار ہے۔ کس کس بات کو روئیے‘ کس کس بات کا ماتم کیجیے۔ ہمارا عمومی اور مقبول ترین شکوہ یہ ہے کہ لوگ چین سے جینے نہیں دیتے۔
کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا واقعی لوگ کسی کو چین سے جینے نہیں دیتے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو کیوں ہے اور اگر فی الواقع ایسا نہیں ہے تو پھر اِس بات کا رونا رونے کی ضرورت کیا ہے؟ یہ شکوہ بالعموم کس کی زبان پر ہوتا ہے کہ لوگ چین سے جینے نہیں دیتے؟ آپ نے بہت سوں کی زبان سے یہ شکوہ سنا ہوگا۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اِس طرح کا شکوہ کب کیا جاتا ہے؟ تحقیق اور مشاہدے سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حالات کا شکوہ بالعموم وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے شعبے میں یا تو مکمل ناکام ہوچکے ہوں یا پھر جن میں محنت کرنے کی لگن باقی نہ رہی ہو۔
معاشروں میں رویوں کے حوالے سے غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں نمایاں اور چلن کا درجہ رکھنے والے رویے کچھ اور ہوتے ہیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کے رویوں کی نوعیت کچھ اور ہوتی ہے۔ ہر معاشرے میں عمومی رویے مجموعی ماحول کی مناسبت سے ترتیب و تشکیل پاتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں کے مسائل مختلف ہیں‘ اِس لیے رویے بھی مختلف ہیں۔ وہاں جب لوگ مل بیٹھتے ہیں تو اُن کے درمیان گفتگو کے موضوعات وہ نہیں ہوتے جو ترقی پذیر یا پس ماندہ معاشروں میں ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک بنیادی ضرورتوں کو تشفی کی حد تک پورا کرچکے ہیں۔ وہاں عام آدمی پانی‘ بجلی یا گیس کے لیے نہیں روتا۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا معاملہ بھی اِتنا اچھا ہے کہ کوئی اِس حوالے شکوہ کر ہی نہیں سکتا۔ تو پھر وہ کیا معاملات ہیں جن کا رونا رویا جاتا ہے؟ ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ بالعموم رونا نہیں روتے‘ حل تلاش کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی مشکل صورتحال کو محض مسئلے کی حیثیت سے نہیں بلکہ چیلنج کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے بھرپور محنت کی جائے‘ منصوبہ سازی کرکے اُس سے مطابقت رکھنے والی طرزِ عمل اپنائی جائے۔
پاکستان جیسے پس ماندہ معاشروں میں لوگ دن رات ایک دوسرے کے بارے میں گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ الاپا جانے والا راگ یہ ہے کہ ماحول مرضی کے مطابق جینے ہی نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ ماحول کو کیا پڑی ہے کہ آپ کی یا کسی اور کی راہ میں دیوار بنے۔ اور پھر یہ بھی تو سوچئے کہ ماحول الگ سے کوئی چیز نہیں۔ یہ ہمارے آپ کے ملنے ہی سے تو بنا ہے۔ اگر ماحول بُرا ہے تو بالواسطہ طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم برے ہیں۔ جب ہم برے نہیں رہتے تب ماحول بھی برا نہیں رہتا۔
ہر انسان اپنے بہت سے معاملات میں الجھا رہتا ہے۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ ہر وقت کسی اور کے معاملات میں جھانکتا پھرے؟ داغؔ دہلوی نے خوب کہا ہے ؎
اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات
اِس بنا پر فکرِعالم کیا کریں
ہر انسان کی اپنی زندگی میں بہت سے دکھ اور جھمیلے ہوتے ہیں۔ اِتنی فرصت ملتی ہی کسے ہے کہ ادھر اُدھر دیکھتا پھرے‘ دوسروں کے لیے اپنا آپ برباد کرے؟ یہ تصور ذہن سے کُھرچ پھینکنے کی ضرورت ہے کہ لوگ چین سے جینے نہیں دیتے۔ اگر کوئی واقعی آپ کے معاملات میں دخیل ہو بھی رہا ہو تو ایسا بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب آپ اُسے ایسا کرنے دیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی آپ کی مرضی یا رضامندی کے بغیر آپ کی زندگی میں یوں دخیل ہو کہ آپ کے معاملات بگڑیں۔کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی آپ کو خوا مخواہ پسند نہ کرے یعنی کسی جواز کے بغیر آپ سے خار کھائے‘ آپ کا مخالف ہو؟ ایسا بالعموم ہوتا نہیں۔ غالبؔ نے کہا ہے ؎
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے مگر عناں گیر بھی تھا
یہ پوری کائنات علت و معلول کے تعلق سے عبارت ہے۔ کچھ بھی بلا سبب نہیں ہوتا۔ ہر بات کا کوئی نہ کوئی سبب اور کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور ہوتا ہے۔ ہم نہ سمجھ پائیں تو اور بات ہے وگرنہ اللہ نے ہر معاملے کی کوئی نہ کوئی غایت رکھی ہے۔ اگر کوئی آپ سے ناراض رہتا ہے‘ حسد کرتا ہے‘ آپ کے معاملات کو الجھی ہوئی نظر سے دیکھتا ہے تو یقینا اِس کا کوئی نہ کوئی سبب ہوگا۔ تھوڑی سی کوشش کیجیے تو وہ سبب سامنے بھی آسکتا ہے۔ ہر وہ انسان آپ کو ناپسند کرے گا جس کے مفاد کو آپ کی کسی بات یا عمل سے نقصان پہنچا ہو۔ ہوسکتا ہے آپ نے کسی کو نقصان پہنچانے کا قصد یا عزم نہ کیا ہو مگر آپ کی کامیابی یا سعی سے کسی کو نقصان پہنچ جائے۔ ایسی صورت میں متعلقہ فرد آپ کو کھا جانے والی نظروں ہی سے تو دیکھے گا۔ اگر کوئی آپ کے معاملات میں دخیل ہو رہا ہے تو دو وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کچھ ڈھیل دکھائی ہو اور اُسے دخیل ہونے کا موقع دیا ہو۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس کے کسی مفاد پر آپ کی طرزِ فکر و عمل سے زد پڑی ہو اور وہ انتقام کے نقطۂ نظر سے آپ کی زندگی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہو۔
ایسے لوگوں کو بالعموم پسند نہیں کیا جاتا جو معاشرے کے عمومی چلن کے خلاف چل رہے ہوں۔ دھارے کے ساتھ بہنے والوں کو کوئی بھی بری نظر سے نہیں دیکھتا۔ جیسے ہی کوئی دھارے کے خلاف بہنے کا قصد کرتا ہے، پیشانیوں پر بَل پڑنے لگتے ہیں۔ بہت سوں کی زبان پر یہ شکوہ رہتا ہے کہ سادگی اور دیانت اپنائیے تو لوگ ڈھنگ اور چین سے جینے نہیں دیتے۔ یہ شکوہ مکمل طور پر غلط نہیں۔ ہاں‘ اس کی شدت کے حوالے سے کچھ بحث ہو سکتی ہے۔ معاشرے کے عمومی چلن کے خلاف جانے والے ہر انسان کو عجیب نظروں ہی سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی درجے میں حیرت کی بات نہیں۔ ہر دور میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
اگر کسی کو ڈھنگ سے اور چین سے جینا ہے تو اپنی ترجیحات کا واضح تعین کرنا پڑے گا اور اُن کے مطابق جینے کی عادت بھی اپنانا ہوگی۔ کسی بھی انسان کے لیے اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہے جتنا بھی مشکل ہو‘ ناممکن بہرحال نہیں ہوتا۔ ہر انسان بہت حد تک اپنی مرضی کے مطابق جی سکتا ہے۔ ہر قسم اور ہر سطح کے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنی مرضی کے مطابق جی رہے ہوتے ہیں۔ یہ کامیابی اُنہیں محنتِ شاقہ کے نتیجے میں ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ارادہ کیجیے اور اس منزل پر پہنچ جائیے۔
ترقی یافتہ معاشروں میں بھی اپنی مرضی کے مطابق جینا آسان نہیں ہوتا۔ قوانین کی شکل میں جو حدود و قیود پائی جاتی ہیں‘ ان سے بہت سے لوگ بیزار ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی کسی نہ کسی حد تک سمجھوتا کر ہی لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یعنی پاکستانی معاشرے میں قانون کی عمل داری چونکہ برائے نام ہے‘ اس لیے کوئی بھی اپنی مرضی کے مطابق آسانی سے نہیں جی سکتا کیونکہ اس کے معاملات میں مداخلت کرنے والے کم نہیں ہوتے۔ پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی اپنی مرضی کے مطابق جی ہی نہیں سکتا۔ ہمیں ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیتے ہیں جو کسی کا شکوہ کیے بغیر ڈھنگ سے جی رہے ہوتے ہیں۔ جس نے بھی طے کر لیا ہو کہ اپنی مرضی سے جینا ہے اور اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے محنتِ شاقہ کے مرحلے سے گزرنا ہے وہ کامیاب ہوکر رہتا ہے یعنی اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔
یہ نکتہ نئی نسل کو خاص طور پر ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ خالص اپنی مرضی کے تحت جینا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ دوسروں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ زندگی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد ہی پر کامیاب گزرتی ہے۔ صرف اپنے لیے اور صرف اپنی مرضی کے مطابق جینا بہت حد تک خود غرضی کی علامت ہے۔ چین سے جینے کے معاملے میں لوگوں سے جو شکایت رہتی ہے‘ وہ صرف اس صورت دور ہو سکتی ہے کہ ہم اُن کی مرضی کا بھی تھوڑا سا خیال رکھیں۔ آخر دوسرے بھی تو ہماری خاطر بعض معاملات میں تھوڑا بہت سمجھوتا کرتے ہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں