مصنوعی ذہانت کے شعبے میں یقینی بنائی جانے والی ہوش رُبا پیش رفت نے انسان کو عجیب خلجان میں مبتلا کردیا ہے۔ ویسے تو اور بھی کئی شعبے ہیں جن میں پیش رفت نے انسان کے لیے آسانیوں کے ساتھ ساتھ الجھنیں بھی پیدا کی ہیں؛ تاہم مصنوعی ذہانت کا معاملہ ابتدائی مرحلے ہی میں انتہائی شکل اختیار کرچلا ہے۔ یہ گویا خطرے کی گھنٹی ہے۔ جو اِس گھنٹی کی آواز نہ سُنے‘ سمجھ لیجیے اُسے خسارہ پسند ہے۔ مصنوعی ذہانت کے شعبے سے وابستہ ماہرین برملا کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ ٹیکنالوجی زیادہ پھیل گئی تو دنیا کچھ کی کچھ ہوجائے گی۔ کچھ کی کچھ؟ جی ہاں! اُن کا استدلال یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے جتنی آسانی پیدا کی جاسکتی ہے اُس سے کہیں زیادہ تو مشکل پیدا ہوگی۔ مختلف معاملات یوں الجھ جائیں گے کہ پھر اُنہیں سلجھانا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔
مصنوعی ذہانت کے موجد مانے جانے والے جیفرے ہنٹن (Geoffrey Hinton)نے حال ہی میں گوگل سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کرکے دنیا بھرکے ہائی ٹیک حلقوں میں کھلبلی مچادی ہے۔ جیفرے ہنٹن نے کئی انٹرویوز میں کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں پیش رفت روکنا ہوگی۔ اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق انسانیت کو بند گلی میں پہنچا سکتی ہے۔ اُن کے بیانات اور انٹرویوز تازہ ڈبل روٹی کی طرح فروخت ہو رہے ہیں۔ ہائی ٹیک انڈسٹری میں لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ایلون مسک جیسے کھرب پتی کو بھی کہنا پڑا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں پیش رفت کو روکنا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ اس شعبے کی پیش رفت سے استفادہ کرنے کی رفتار بھی گھٹانا ہوگی۔ ایلون مسک کا شمار اُن کاروباری افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے لیے بہت سے مواقع پیدا کیے ہیں اور معاملات کو اپنے حق میں کرنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔ اُن کی رائے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سوال محض بڑوں کے لیے نقصان کے خدشات کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے الجھ جانے کا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے حوالے سے جو خدشات بیان کیے جارہے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے بے بنیاد نہیں۔ اس ٹیکنالوجی نے معاملات کو ابھی سے الجھانا شروع کردیا ہے۔ کاروباری معاملات میں فریب کاری کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ کئی بڑے کاروباری ادارے ابھی سے رو رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے باعث اُنہیں بہت سے معاملات میں الجھنوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فریب کاری کا دائرہ تیزی سے وسعت اختیار کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے دو مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان گفتگو آسان ہو جائے گی۔ گفتگو کے دوران ریئل ٹائم ترجمہ بھی ممکن ہوسکے گا۔ یہ تو ہوئی آسانی۔ مسئلہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کسی بھی انسان کی آواز اور دیگر خصوصیات کی نقالی بہت آسان ہوجائے گی۔ اِس کے آثار ابھی سے نمایاں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک بھی الجھنیں محسوس کرنے لگے ہیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے لیے تو مصنوعی ذہانت ایسی مشکلات پیدا کرسکتی ہے جن کا تدارک کسی کو نہ سُوجھ سکے گا۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے نقالی ہی آسان نہیں ہوجائے گی، کسی بھی انسان کو دھوکا دینا بھی انتہائی سہل ہو جائے گا۔ ابھی سے بہت سی ایسی ایپس پائی جارہی ہیں جن کی مدد سے کسی کو بھی جھانسا دیا جاسکتا ہے۔ اگر متعلقہ فریق ذرا سی ڈھیل دکھائے اور کمزور پڑ جائے تو سمجھ لیجیے گا کہ ہو چکا کام! کسی بھی ٹیکنالوجی کے ہاتھوں ہمیں مشکلات کا سامنا کب کرنا پڑتا ہے؟ صرف اُس وقت جب ہم اُس کے حوالے سے اپنے فکر و عمل میں توازن پیدا نہیں کر پاتے۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی کس لیے ہوتی ہے؟ زندگی کو آسان بنانے کے لیے۔ انسان نے جب پہیہ ایجاد کیا تھا تب کیا ہوا تھا؟ کسی بھی چیز کو منتقل کرنا آسان ہوگیا تھا۔ پھر انسان نے پہیے لگاکر گاڑیاں بنائیں تاکہ سفر آسان ہو جائے۔ غار کے زمانے میں انسان کی گزر بسر شکار پر تھی۔ پیٹ بھرنے کی فکر ہی انسان کو کھا جاتی تھی۔ گھر میں مویشی پال کر دودھ اور گوشت حاصل کرنے کا سلسلہ تو بہت بعد میں شروع ہوا۔ پھر انسان نے سوچا کہ محض مویشی پالنے سے پیٹ بھرنے کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اور یوں اُس نے کھیتی باڑی شروع کی۔ سبزیاں‘ اناج اور پھل اُگائے جانے لگے تاکہ خوراک کی قلّت پر قابو پایا جاسکے اور سال بھر خوراک آسانی سے دستیاب ہو۔ تب کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والے آلات اور متعلقہ مہارت ہی جدید ترین ٹیکنالوجی تھی۔
ہر دور کا انسان زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے کی تگ و دَو میں مصروف رہا ہے۔ یہی زندگی کا حاصل اور نچوڑ ہے۔ جینا زیادہ سے زیادہ آسان بنانا ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ الجھن صرف یہ ہے کہ ہم بیشتر مواقع پر آسانیاں پیدا کرنے کے چکر میں اپنے لیے صرف مشکلات پیدا کرلیتے ہیں۔ ہر دور کے انسان کا یہی المیہ رہا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ہم اپنے لیے مشکلات کیوں پیدا کرتے ہیں؟ بالخصوص اُن چیزوں کے ذریعے جن سے ہم آسانی پیدا کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں! اس سوال کے جواب میں خاصی طویل اور صبر آزما بحث بھی کی جاسکتی ہے؛ تاہم معقولیت کی حد تک مختصر اور آسان سا جواب یہ ہے کہ انسان جلد باز ہے‘ بے صبرا ہے۔ وہ عجلت پسندی کے ہاتھوں فوری نتائج کے حصول کی تمنا میں منطقی نتائج کو بھی بگاڑ بیٹھتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے معاملے میں بھی انسان کا یہی معاملہ رہا ہے۔ جب بھی زندگی کو آسان بنانے والی کوئی چیز سامنے آتی ہے تب انسان اُس سے کچھ زیادہ ہی آسانیاں کشید کرنے کی تگ و دَو میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور خرابیاں بھی ایسی کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں۔ ایک صدی کے دوران ٹیکنالوجی کے شعبے میں جتنی بھی پیش رفت ہوئی ہے اُس نے انسان کے لیے بہت سی آسانیاں اور بہت سی مشکلات پیدا کی ہیں۔ سب کچھ ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے۔ مشکلات اِس لیے پیدا ہوئی ہیں کہ انسان نے ٹیکنالوجیز سے فائدہ اٹھانا تو سیکھ لیا مگر اپنے لیے حدود کا تعین نہیں کیا۔ اپنا فائدہ یقینی بنانے کے لیے کسی کا نقصان یقینی بنانا کسی بھی درجے میں معقول بات نہیں مگر معاشی معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ، کسی جواز کے بغیر، ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ جہاں ''گلا کاٹ مقابلہ‘‘ ناگزیر نہ ہو وہاں بھی اِس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ٹیکنالوجی ہمارے لیے ہوتی ہے یا ہم ٹیکنالوجی کے لیے؟ کوئی بھی ٹیکنالوجی صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ ہماری زندگی آسان بنائے۔ اُس سے کام لینا ہمارا کام ہے۔ انسان جب اِس حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھتا ہے تب ٹیکنالوجی اُس اونٹ کی شکل اختیار کرلیتی ہے جو بدو کے خیمے میں یوں گھسا تھا کہ بالآخر بدو کو باہر نکلنا پڑا تھا۔ ٹیکنالوجی کے معاملے میں ناگزیر احتیاط نہ برتنے پر ہمارا حال بھی بدو جیسا ہی ہوتا ہے۔ ہر ٹیکنالوجی کے استعمال کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لانا ہوتا ہے‘ اُن کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ جانا نہیں ہوتا۔ ٹیکنالوجیز ہمارے لیے ہوتی ہیں‘ ہم اُن کے لیے نہیں ہوتے۔ ہر ٹیکنالوجی ہماری زندگی آسان بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو بدل کر ٹیکنالوجیز کے لیے آسانیاں پیدا نہیں کرنا ہوتیں! آج کی ہائی ٹیک دنیا غیر معمولی پیش رفت کے ذریعے پوری دنیا کی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز کرنے کے درپے ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام پیچیدگیاں تو پیدا ہونی ہی تھیں جو اب پیدا ہو رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی شکل میں وارد ہونے والی ٹیکنالوجی اِس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ انسان جب زیادہ سے زیادہ جلبِ منفعت کے لیے پاگل ہو جائے تو کس طور اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے پر تُل جاتا ہے۔
لازم ہے کہ کسی بھی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے وقت ''ہیومن فیکٹر‘‘ کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ کسی بھی ٹیکنالوجی کا ایسا استعمال روکا جانا چاہیے جس سے پوری انسانیت کے لیے خطرات پیدا ہوتے ہوں۔ بڑی طاقتیں نئی ٹیکنالوجیز کو یوں بروئے کار لاتی ہیں کہ پس ماندہ اقوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لانے کے معاملے میں کسی کی قبر پر اپنا تاج محل تعمیر کرنے کی ذہنیت ترک کی جانی چاہیے۔ یہ ذہنیت صرف اور صرف تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ انسانیت کا مفاد ہر حال میں پیشِ نظر رہنا چاہیے۔