ہر انسان بجائے خود انتہائی منفرد ہے یعنی کسی کو بھی اُس جیسا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ کی قدرت کا ایک منہ بولتا ثبوت یہ بھی ہے کہ ہر انسان اپنے آپ میں ایک الگ دنیا ہی نہیں، بلکہ کائنات ہے۔ سوال صرف چہروں اور جسمانی ساخت کے الگ ہونے کا نہیں، فکر و نظر کے معاملے میں بھی سب ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ ایک ہی معاملے میں کسی کا ردِعمل کچھ ہوتا ہے اور کسی کا کچھ۔ کوئی سے دو انسان ایک جیسا نہیں سوچتے، سوچ ہی نہیں سکتے۔ رجحانات بھی مختلف ہوتے ہیں اور موڈ بھی۔ سوچنے کا انداز بھی یکساں نہیں ہوتا۔ کسی بھی معاملے کو دیکھنے کا طریقہ بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ ایک ہی بات کسی کو ہتھے سے اکھاڑ دیتی ہے اور کوئی اُسی بات کو یوں پی جاتا ہے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ پسند و ناپسند اور مزاج کے اِس فرق کو سمجھنے میں کامیابی ہی ہمیں ڈھنگ سے معاملت سکھاتی ہے۔ یہ اختلافِ فکر و نظر ہی شخصیت کے حُسن میں اضافہ کرتا ہے، اُسے نکھارتا ہے اور اِسی سے ساری رونق ہے۔ خاقانیٔ ہند شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ نے کہا ہے ؎
گُل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوقؔ! اِس جہاں کو زیب اختلاف سے
ہر انسان اپنے آپ میں ایک ایسی کائنات ہے کہ کوئی بھی کائنات اُس جیسی نہیں۔ یہ انفرادیت کیونکر پیدا ہوتی ہے؟ بہت سے عوامل مل کر کسی بھی انسان کو انتہائی منفرد، بلکہ یکتا بناتے ہیں۔ کوئی کامیاب ہو یا ناکام، ہر صورت میں ہوتا تو یکتا ہی ہے۔ ہاں، یکتائی دوسروں کو پسند نہ آئے تو اور بات ہے! سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یکتائی ہوتی کیا ہے۔ یکتا کا مطلب ہے کسی اور جیسا نہ ہونا، بالکل منفرد ہونا۔ مجرد مفہوم میں تو انتہائی ناکام انسان بھی یکتا ہی ہوتا ہے۔ ہاں، عمومی اور معروف مفہوم میں یکتا وہ کہلاتا ہے جو کوئی ڈھنگ کا کام کرے، دوسروں سے زیادہ اور شاندار کامیابی یقینی بنائے اور محض اپنے مفاد کا نہ سوچے بلکہ اپنے حُسنِ کارکردگی سے انسانیت کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچائے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہر انسان کو باقی تمام انسانوں سے مختلف اور منفرد بنانے والے عوامل میں حافظہ غیر معمولی حد تک نمایاں ہے؟ ہر انسان کا حافظہ اُسے دوسروں سے یکسر مختلف اس لیے بناتا ہے کہ وہ خود بھی منفرد ہوتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی دیکھتے، سُنتے، پڑھتے اور محسوس کرتے ہیں وہ ہمارے حافظے کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ ہم ان تمام افعال میں جتنا تنوع پیدا کریں گے ہمارا حافظہ بھی اُتنا ہی توانا اور متنوع ہوگا۔ حافظہ فعال رہتا ہے یعنی ہماری سوچ پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی سوچتے ہیں وہ اپنے حافظے اور محسوسات کی بنیاد پر سوچتے ہیں۔ حافظے میں جو کچھ بھی ہے وہ ہمارے خیالات کی تشکیل و ترتیب میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ فکری ساخت کے اعتبار سے ہر انسان دوسرے تمام انسانوں سے اس لیے مختلف ہوتا ہے کہ اُس کے محسوسات بھی مختلف ہوتے ہیں، جذبات بھی الگ ہوتے ہیں اور اندازے بھی منفرد ہوتے ہیں۔
ایسے میں ذہن کے پردے پر ایک اہم اشکال یہ ابھرتا ہے کہ کسی کی شخصیت کو کس طور جانچا اور پرکھا جائے۔ اور اِس سے بڑھ کر یہ بات کہ کیا شخصیت کی پیمائش کی جاسکتی ہے؟ ضرور مگر ایک خاص حد تک۔ کسی بھی انسان کی شخصیت کی مکمل پیمائش ممکن ہی نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر انسان کی شخصیت پنپتی رہتی ہے۔ کب، کس موڑ پر شخصیت کیا رخ یا شکل اختیار کرے پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ہر انسان کا مشاہدہ اور تجربہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔ اُس کی فکری ساخت پروان چڑھتی رہتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں اُس کے خیالات بھی محض تعداد میں زیادہ نہیں ہوتے جاتے بلکہ اُن میں تنوع بھی پیدا ہوتا جاتا ہے۔ ذہن کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اِسے جس قدر استعمال کیجیے یہ اُتنا ہی نکھرتا اور سنورتا ہے۔ ذہن کو بھرپور ذوق و شوق کے ساتھ بروئے کار لانے والوں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُن کے ذہن تیزی سے پنپتے جاتے ہیں، اُن میں نئے اور اچھوتے خیالات ابھرتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنے معاملات میں نمایاں طور پر دلچسپی لینے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہم زندگی بھر سوچتے بھی ہیں اور ردِعمل کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ حقیقی تفکر اور ردِعمل کے فرق کو سمجھنا لازم ہے۔ کسی بھی واقعے کے بارے میں ذہن میں ابھرنے والے ردِعمل کو الفاظ کی شکل دینے کو ہم خیالات قرار نہیں دے سکتے۔ ہم جو کچھ دیکھتے، سُنتے، پڑھتے یا محسوس کرتے ہیں اُس کی بنیاد پر ذہن کسی نہ کسی ردِعمل کی طرف جاتا ہے۔ یہ ردِعمل فطری ہوتا ہے تاہم ہمیں اِس منزل میں پھنس کر یا اٹک کر نہیں رہ جانا چاہیے۔ محض ردِعمل کی بنیاد پر شخصیت نہیں پنپتی۔ ہمیں کسی بھی معاملے میں ٹھوس سوچ اپنانا ہوتی ہے۔ خیالات ہمارے اپنے ہونے چاہئیں جو حالات و واقعات کے تجزیے پر مبنی ہوں اور حقیقت پسندی کا مظہر ہوں۔ محض ردِعمل کی بنیاد پر پنپنے والے ابتدائی نوعیت کے تاثرات کو خیالات کہنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
جب ہم محض ردِعمل کی غلامی سے بچتے ہوئے اصل خیالات کو پروان چڑھانے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے پر مائل ہوتے ہیں تب شخصیت پنپتی ہے۔ شخصیت یعنی ہمارے پورے وجود کا مجموعہ اور اُس سے جڑے ہوئے معاملات۔ عام آدمی اِس حوالے سے سوچتا ہے نہ فکر مند ہی ہوتا ہے۔ وہ محض ردِعمل دینے یا پریشان ہونے ہی کو سوچنا سمجھتا رہتا ہے۔ سوچنے کے لیے بہت کچھ دیکھنا، سُننا، پڑھنا اور پرکھنا پڑتا ہے۔ اپنے ماحول سے پوری طرح ہم آہنگ رہنے کی صورت ہی میں ہم اچھا سوچنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ اچھا سوچنا کیا ہے؟ ایسے توانا خیالات جو شخصیت کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی کچھ دینے کی صلاحیت و سکت رکھتے ہوں۔ ہر انسان صرف اپنے لیے سوچتا ہے مگر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جو کچھ اپنے لیے سوچا جارہا ہے اُس میں دوسروں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ہو۔ اِسی کا نام انسان دوستی ہے اور اِس وصف ہی سے انسان بڑا ہوتا ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے سب سے بڑھ کر اُس کی شخصیت ہوتی ہے۔ شخصیت بہت محنت سے پروان چڑھتی ہے۔ اُس کے پروان چڑھنے کا عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔ انسان پیٹ بھرنے کی جدوجہد میں ایسا مصروف رہنے لگا ہے کہ اپنے بارے میں سوچنا تو بھول ہی گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ مالی منفعت کا حصول یقینی بنانے کے چکر میں اُسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ کسی بھی دوسرے کام سے کہیں بڑھ کر اُسے شخصیت کو پروان چڑھاتے ہوئے اپنے وجود کا حق ادا کرنا ہوتا ہے۔ اللہ نے ہمیں زندگی جیسی نعمت محض اس لیے عطا نہیں کی کہ ہمارے ذہن کے پردے پر ہمہ وقت روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورتیں ہی جھلکتی، چمکتی رہیں۔ زندگی کو برتنے اور اُس کا حق ادا کرنے کے لیے شخصیت کو پروان چڑھانا ناگزیر ہے۔ شخصیت مطالعے سے بھی نکھرتی ہے اور حُسنِ عمل سے بھی۔ صحبت بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انسان جو طرزِ فکر و عمل اختیار کرتا ہے وہی اُس کی پہچان بنتی ہے اور یوں اُس کے وجود کی معنویت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ عام آدمی شخصیت کے تصور سے بھی نابلد ہے۔ اُسے اِس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں ہوتی کہ سوچنا کیا ہوتا ہے، شخصیت کو پروان چڑھانا کیا ہوتا ہے، محض پیٹ بھرنے کی سطح سے بلند ہونا کیا ہوتا ہے۔ اُس کی ساری تگ و دَو سطحی اور عمومی سرگرمیوں تک محدود رہتی ہے۔ وہ انتہائی عمومی معمولات کے دائرے میں گھومتا رہتا ہے اور اِسی کیفیت میں دُنیا سے چلا بھی جاتا ہے۔
شخصیت کیا ہوتی ہے، کیسے پنپتی ہے، زیادہ بارآور کیسے بنائی جاسکتی ہے، اپنے وجود سے دوسروں کو مستفید کرنا کیا ہوتا ہے‘ یہ تمام معاملات اُسی وقت ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں جب کوئی متوجہ ہوکر سمجھاتا ہے اور سمجھنے والا بھی سمجھنے پر رضامندی ظاہر کرتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو سب سے بڑھ کر ذہنی تربیت اور راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ اپنے وجود کو نظر انداز کرکے کوئی بھی بامقصد زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ شخصیت پنپتی ہے تو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے کچھ بہتری کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ زندگی بھر کی مشقّت ہے۔ سب سے بڑا جادو شخصیت کا ہوتا ہے۔