زندگی کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر وقت سچائی کی عظمت کا راگ الاپتے رہتے ہیں مگر جب سچ بولنے کا وقت آتا ہے تو مصلحتیں کہیں نہ کہیں سے نمودار ہوکر ہمارا منہ چڑانے لگتی ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم سچ بولنا چاہتے ہیں مگر ممکنہ عواقب و نتائج کا خیال آتے ہی سچ بولنے کے حوالے سے پایا جانے والا سارا کا سارا جوش سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ سچ بولنے کا عزم جب تک اندر ہوتا ہے تب تک وہ انقلاب لانے والی صورتِ حال جیسا لگ رہا ہوتا ہے مگر جیسے باہر آتا ہے، زمینی حقیقتوں سے ٹکراتا ہے تو اُسے پاش پاش ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ سطحی نوعیت کی سوچ اور کھوکھلے عزائم کا یہی مقدر ہوا کرتا ہے۔ کیا سچ بولنا بہت مشکل ہے؟ ہے تو سہی کیونکہ حالات ہر طرح کا دباؤ ڈال کر ہمیں سچ بولنے سے گریز کی راہ دکھارہے ہوتے ہیں اور ہم قدم قدم پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ سچ بولنے سے یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا مگر اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم سچ بول ہی نہ سکیں۔
سچ بولنے کے لیے بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو آپ میں سچ بولنے کی ہمت ہونی چاہیے۔ پھر آپ کو سچ بولنا آنا بھی چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ سچ بولنے کا موزوں ترین موقع یا لمحہ آیا ہے یا نہیں۔ لازم نہیں کہ ہر بات جوں کی توں بیان کردی جائے۔ سچ تھوڑا سا گھما پھراکر بھی بولا جاسکتا ہے۔ ہاں‘ اس بات کا خیال رہے کہ ایسا کرنے سے سچ کی تاثیر متاثر نہ ہو۔ کبھی کبھی برہنہ سچ ہنگامہ برپا کردیتا ہے۔ اُسی سچ کو ڈھنگ کے کپڑے پہناکر بیان کیا جائے تو حق بیانی کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے اور کوئی بڑا قضیہ بھی کھڑا نہیں ہوتا۔ سچ کو گھما پھراکر بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اُس پر جھوٹ کا ملمع چڑھادیا جائے۔ ایسا کرنے سے سچ اپنی تاثیر کھو بیٹھتا ہے اور ساری مشقت لاحاصل ٹھہرتی ہے۔
کسی بھی معاملے میں جھوٹ بولنا بہت آسان ہے۔ یہ آسانی ہی ہے جس کے باعث لوگ جھوٹ بولنے سے کتراتے نہیں۔ ہاں‘ اِس تلخ حقیقت پر غور کرنیوالے خال خال ہیں کہ جھوٹ بولنا جتنا آسان ہے اُس کے عواقب جھیلنا اُتنا ہی مشکل۔ آپ نے بھی سنا ہوگا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ یہ بے چارہ چل ہی نہیں پاتا۔ اِسے بیساکھیاں درکار ہوتی ہیں۔ چلنا تو بہت دور کی بات ہے، جھوٹ کو کھڑا ہونے کے لیے بھی سہارا درکار ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُسے چلانے کے لیے قدم قدم پر بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے (یعنی چلانے) کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیجیے تو جھوٹ پلک جھپکتے میں بے نقاب ہوکر رہ جائے۔
دو نکات کے درمیان سب سے کم فاصلہ کون سا ہے؟ صراطِ مستقیم! جی ہاں، سیدھی لکیر ہی کم ترین فاصلے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر آپ اپنے گھر سے نکل کر دوست کے گھر جانا چاہتے ہیں جو دو تین گلیاں چھوڑ کر ہے تو آپ اِدھر اُدھر سے جائیں گے کیونکہ راستے میں مکانات پڑیں گے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ پورے علاقے میں صرف دو مکانات ہیں‘ ایک آپ کا اور دوسرا آپ کے دوست کا۔ اور ان دونوں مکانات کے درمیان سادہ و ہموار زمین ہے تو آپ کس راستے سے جائیں گے؟ سیدھی سی بات ہے، آپ صراطِ مستقیم پر چلیں گے۔ اِدھر جانا ہے نہ اُدھر۔ گھر سے نکلے اور سیدھے پہنچ گئے۔ سچ بولنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ سچ بولیے اور سیدھے منزل پر پہنچ جائیے مگر ہم صراطِ مستقیم کو ترجیح نہیں دیتے۔ کیوں؟ اِس میں کچھ ایثار کرنا پڑتا ہے، مفاد پر پڑنیوالی ضرب بھی جھیلنا پڑتی ہے۔ سچ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی بھی معاملے میں سچ بولنے کے فوائد اِتنے زیادہ ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم سچ بولنے کے فوائد کو پہچانتے بھی نہیں اور اُن سے مستفید ہونے کی تربیت سے بھی محروم ہیں۔ سچ کو زندگی کی انتہائی بنیادی قدر کے طور پر اپنانا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب چھوٹی عمر سے سچ بولنا اور سچ کو قبول و ہضم کرنا سکھایا جائے۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں قدم قدم پر صرف جھوٹ ہے۔ کوئی قسم کھاکر جھوٹ بولتا ہے اور کوئی اِتنی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔ دن میں سو بار جھوٹ بولنا بھی عام ہے اور اب اِس عیب کو عیب سمجھنے کی ذہنیت بھی مفقود ہوچکی ہے۔ لوگ کام پر دیر سے پہنچتے ہیں تو کئی جھوٹ تیار کر رکھے ہوتے ہیں۔ جب دیر سے آنے کا سبب پوچھا جاتا ہے تو جھوٹ کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ؎
وہ باتیں تری‘ وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے! جو لوگ بہت زیادہ جھوٹ بولتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ لوگ اُنہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں اور اُن کی باتوں پر یقین نہیں کرتے مگر پھر بھی اُن میں ایسا غضب ناک اعتماد (یعنی ڈِھٹائی!) پایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے سے مجتنب نہیں رہتے۔ کیسے رہیں؟ جو چیز مزاج اور نفسی و فکری ساخت کا حصہ بن جائے اُسے مٹانا تو ایک زمانے کی ریاضت کا حاصل ہے۔ اگر محض کسی کے ٹوکنے یا رسوا کرنے سے کوئی سدھر سکتا تو یہ دنیا جنت کا نمونہ بن چکی ہوتی۔
شخصی ارتقا کے حوالے سے جو کچھ بھی سکھایا جاتا ہے اُس میں سچ بولنا بھی شامل ہے۔ کسی بھی انسان کو یہ بتانے کی ویسے کچھ خاص ضرورت ہے نہیں کہ سچ بولنا ہی بہترین طرزِ زندگی کی توانا ترین علامت ہے۔ عمومی ذہنیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ سچ ہر حال میں سچ رہتا ہے اور کوئی بھی جھوٹ اُس کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ تو پھر جھوٹ کو ترجیح دینے کا چلن کیوں ہے؟ اِس کی بہت سی وجوہ ہوتی ہیں ۔ لوگ آسانی چاہتے ہیں۔ جھوٹ میں آسانی ہے۔ یہ آسانی محض دل و نظر کا دھوکا سہی، مگر ہے تو آسانی ہی۔ تھوڑا سا جھوٹ بول کر لوگ ''ٹائم آؤٹ‘‘ لیتے ہیں تاکہ تازہ دم ہوکر نیا جھوٹ سوچ سکیں، کوئی نیا بہانہ تراش سکیں۔ ہمارے ہاں عمومی نفسی ساخت میں پائی جانے والی ایک بنیادی خرابی یا خامی یہ ہے کہ لوگ مزید جھوٹ بولنے کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں! کسی سے کوئی بات پوچھئے اور وہ آئیں بائیں شائیں کرے تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اِدھر اُدھر سے ہوتا ہوا سچ کی راہ پر گامزن ہوگا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جھوٹ بول کر بات گھماتا ہے تاکہ اِتنی دیر میں کوئی نیا جھوٹ تیار کر سکے، مکر و فریب کا نیا تانا بانا معرضِ وجود میں لاسکے۔
جھوٹ بولنے کی ذہنیت اب اس قدر راسخ ہوچکی ہے کہ اِس سے چھٹکارا پانا کم و بیش ناممکن ہے۔ جب جھوٹ کو جھوٹ سمجھنے کا احساس ہی دم توڑ چکا ہے تو کوئی کسی کو کیسے قائل کرے کہ جھوٹ کو تج کر سچ کی راہ پر گامزن ہو؟ ایک زمانہ تھا کہ لوگ لین دین کے معاملے میں جھوٹ بولا کرتے تھے۔ تجارت میں جھوٹ بولنا زیادہ عام تھا کیونکہ بات مالی منفعت کی ہوتی تھی۔ خراب مال کو جھوٹ بول کر معیاری بتانا اور سستے مال کو قسمیہ جھوٹ بول کر مہنگا بتانا بھی عام تھا۔ پھر یہ خرابی دفاتر، کارخانوں اور دکانوں میں عام ہوئی۔ رشتوں اور تعلقات کا بھی اِس قباحت سے منزہ رہنا دشوار ہوا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہر طرف جھوٹ کا سیلابی پانی کھڑا ہے اور ہم تقریباً ہر وقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کہاں سے نکل کر کہاں جائیں۔ جھوٹ کا پانی کھڑا رہے تو اُسے دلدل بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جھوٹ کے پانی میں محض گھرے ہوئے نہیں بلکہ اِس کی پیدا کردہ دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ جھوٹ بولنے کی عادت پختہ ہو جائے تو بہت کچھ یاد رکھنا پڑتا ہے یعنی یہ کہ کب کس سے کیا کہا تھا اور کیوں کہا تھا اور اُس جھوٹ کو سُن کر اُس نے کیا کہا تھا۔ سچ بولنے کی صورت میں حافظے پر زیادہ بوجھ نہیں پڑتا یعنی کچھ خاص یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ حافظے پر رحم کیجیے۔ اُسے سوچنے کے عمل کی طرف جانے دیجیے یعنی سچ کو زندگی کی بنیادی قدر کے طور پر اپنائیے۔