ایک زمانے سے یہ بندۂ ناچیز زمانے کی ناہمواریوں کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں شخصیت کے ارتقا، کامیابی، خود اعتمادی، نفسی پختگی اور حسّی بالیدگی کے حوالے سے جو کچھ بھی شائع ہوتا رہا ہے اُس کے بارے میں بتانے کی کوشش بھی خاکسار کے مزاج کا حصہ ہے۔ مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ زندگی پوری دیانت اور جاں فشانی سے بسر کی جانی چاہیے۔ سوال یہ نہیں کہ زندگی نے کیا دیا اور کیا نہیں دیا بلکہ اصل بات کچھ یوں ہے کہ جب ہم پورے اخلاص، دیانت اور جاں فشانی سے کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تب زندگی کا حقیقی لطف محسوس ہوتا ہے۔ یہ لطف کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا۔ ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو زندگی کے بارے میں شکوہ سنج رہنے کو زندگی کا سب سے بڑا شعار بنالیتے ہیں اور پھر اِس راہ سے ہٹنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرتے۔
ہمارا معاشرہ ابتدا ہی سے غیر منظم اور غیر متوقع رہا ہے۔ اِس کے عمومی مزاج کے بارے میں پورے یقین سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ عوام کا مزاج بہت تیزی سے بدلتا ہے۔ بگاڑ کی طرف لوگ زیادہ تیزی سے جاتے رہے ہیں۔ خاکسار نے جب سے ہوش سنبھالا ہے (یہ بھی خوش فہمی ہی ہے کیونکہ ہوش سنبھالنے والے تو اور ہی طرح کے لوگ ہوتے ہیں) تب سے یہی دیکھا ہے کہ لوگ کسی بھی معاملے میں منصوبہ سازی کو اہمیت نہیں دیتے۔ کسی کیمپ میں پڑے ہوئے لوگ غیر منظم سوچ کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ وہاں اُنہیں مستقل قیام نہیں کرنا ہوتا۔ کیمپ میں رہنے والوں کی ذہنیت کا الل ٹپ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگوں نے پوری زندگی کیمپ والی ذہنیت کے ساتھ بسر کرنے کی ٹھان رکھی ہے! زندگی جیسی نعمت کو یوں ٹھکانے لگتے دیکھ کر الجھن سی ہوتی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ سنجیدگی اپنانے کو کہیے تو خاصی سنجیدگی سے آپ کو گھورنے لگتے ہیں، گویا آپ کی ذہنی حالت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوں!
اِس بندۂ ناچیز نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے ماحول میں والدین اور بھائی بہنوں کے علاوہ جن لوگوں کو دیکھا اُن میں امینہ بی بی، اُن کے شوہر، بچے، جیٹھ اور اُن کے بچے نمایاں تھے۔ وہ ہمارے پڑوسی تھے۔ امینہ بی بی سے ہمارا تعلق یہ تھا کہ وہ بھارت کے شہر احمد آباد میں شادی کے بعد ہمارے دادا کے پڑوس میں آئی تھیں۔ اُن کی اولاد میں تاجو بھائی نمایاں ہیں۔ چاند بھی اُن کے بیٹے ہیں۔ پیرو اُن کی بہن کے بیٹے ہیں۔ امینہ بی بی کے شوہر اور بہنوئی سگے بھائی تھے۔ یعنی دو سگی بہنیں دو سگے بھائیوں کے ہاں بیاہی گئی تھیں۔ امینہ بی بی کے دل میں ہم بھائیوں بہنوں کے لیے خاص محبت تھی۔ ہم جب سکول سے آتے تووہ اکثر اپنے ہاں بلاکر کھانا کھلاتی تھیں اور کہتی تھیں تیری ماں تو جب پکائے گی تب پکائے گی، پیٹ بھرکے جا، اُسے تنگ کرنے کی ضرورت نہیں۔ سوال ہمارے گھر کی سستی کا نہیں‘ تنگ دستی کا تھا۔ امینہ بی بی چاہتی تھیں کہ بوجھ تھوڑا گھٹ جائے۔ اب ایسے پڑوسی ملتے ہیں کہیں؟ اور ہاں‘ مالک مکان بھی اللہ تعالیٰ کے تحفے سے کم نہ تھے۔ والد مرحوم نے بتایا تھا کہ جب 1971ء میں جنگ چھڑی تو حالات بہت خراب ہوگئے، معیشت ڈانواں ڈول ہوگئی۔ والد نے جب کرایہ دینا چاہا تو مالک مکان نے (جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گھر کے پچھلے حصے میں رہتے تھے) کہا: ارے بھائی! پورا ملک اونچ نیچ کا شکار ہے، فی الحال تین‘ چار ماہ تک کرایہ مت دینا، جب سیزن آئے اور کمائی ہو تب ایک ساتھ دے دینا! آج پورے ملک میں شاید ایسا ایک بھی مالک مکان نہ مل پائے۔
خاکسار نے بچپن سے پیرو بھائی، تاجو بھائی اور چاند بھائی کو دیکھا۔ 1973ء یا 74ء میں جب پیرو بھائی اور تاجو بھائی کی شادی ہوئی تھی تب راقم کی عمر آٹھ سال تھی۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عمر کا فرق کتنا رہا ہوگا۔ آج یہ تینوں اصحاب بڑھاپے کی حدود میں ہیں۔ (خدا سچ ہی بلوائے‘ اب خاکسار بھی بڑھاپے کو ٹچ کرچکا ہے) بہت سے لوگ بہت کچھ سیکھتے اور سکھاتے ہیں مگر کمال ہوشیاری اور خاموشی کے ساتھ۔ بہت سے والدین بچوں کو سچ بولنا سکھاتے ہیں تو اِس کے لیے خاموش طریقہ اختیار کرتے ہیں یعنی خود سچ بولتے ہیں‘ بچوں سے بار بار نہیں کہتے کہ سچ بولا کرو۔ بچے جب والدین کو حق گوئی کی راہ پر دیکھتے ہیں تو حق گوئی خود ہی سیکھ ہی لیتے ہیں۔ محض کہنے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ کرکے دکھائیے تو لوگ تیزی سے متوجہ ہوتے ہیں اور بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگاتے۔
پیرو بھائی 1971ء کی جنگ میں شہری دفاع کے محکمے کے رضاکار تھے۔ وہ جب وردی میں سیٹیاں بجاتے گھومتے تھے تو ہم اُنہیں فوجی سمجھ کر سلام کیا کرتے تھے۔ وہ اور تاجو بھائی بہت چھوٹی عمر سے عملی زندگی میں قدم رکھ چکے تھے۔ زندگی بھر محنت کی اور محنت کا اجر بھی پایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے سکھ سے نوازا ہے۔ مال و زر بھی عطا ہوا اور اولاد جیسی نعمت بھی۔ اب تو اولاد کی بھی اولاد ہے جو آنکھوں کے لیے خصوصی ٹھنڈک کا درجہ رکھتی ہے۔ قارئین محترم کو یہ بتانا مقصود ہے کہ پیرو بھائی، تاجو بھائی اور چاند بھائی نے زندگی کو اُس کے تمام محاسن اور قباحتوں کے ساتھ قبول کیا۔ تینوں سادہ مزاج کے حامل ہیں۔ بشری کمزوریاں اور خامیاں تو سبھی میں ہوتی ہیں‘ اِن میں بھی ہوں گی مگر محاسن زیادہ ہیں۔ دو محاسن (دوسروں کے بارے میں غیر ضروری طور پر زیادہ نہ سوچنا اور اپنے کام سے کام رکھنا) اِن میں ایسے دیکھے گئے جو اب خال خال ہی ملتے ہیں۔ ویسے تو تینوں ہی بھائیوں نے بہت محنت کی ہے مگر میرا تعلق پیرو بھائی اور تاجو بھائی سے زیادہ رہا ہے۔ اِن سے اِس بندۂ ناچیز نے بہت کچھ خاموشی سے سیکھا اور یہ سب اِنہیں اِس لیے نہیں بتایا کہ کہیں فیس نہ مانگ بیٹھیں!
ہوش سنبھالتے ہی یہ دیکھا کہ پیرو بھائی اور تاجو بھائی کام میں لگے رہتے ہیں۔ اِنہیں علاقے میں کہیں کسی تھڑے پر فضول گفتگو کرتے یا گپ شپ لگاتے نہیں دیکھا۔ صبح سے کام کے لیے نکلتے تو رات کو گھر میں قدم رکھتے تھے۔ اِنہیں کبھی حالات کا شکوہ کرتے نہیں سُنا۔ حالات کا رونا تو کیا رونا تھا‘ یہ لوگ تو کبھی کسی کے بارے میں زیادہ بات ہی نہیں کرتے تھے۔ اِنہیں صرف ایک کام آتا تھا: اپنے کام سے کام رکھنا۔ کسی کی بُرائی کرنا اِن کی ترجیحات میں نہ تھا اور جواباً لوگ بھی اِن کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات نہیں کرتے تھے۔ چھوٹے موٹے محنت طلب کام کرنے کے بعد پیرو بھائی اور تاجو بھائی نے گتے کے کارخانوں میں کام شروع کیا اور اس شعبے کو ایسا اپنایا کہ خود بھی چھوٹے موٹے ''پیکیجنگ ٹائیکون‘‘ بن چکے ہیں! مگر خیر، یہ سب کچھ راتوں رات ہوا ہے نہ آسانی سے ع
یہ تو اِک عمر کی ریاضت ہے
کامیاب زندگی یقینی بنانے کے لیے ''پیرو، تاجو فیکٹر‘‘ سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ کامیابی اُن کے قدم کبھی نہیں چومتی جو اِدھر اُدھر دیکھتے رہنے کی عادت کے ہاتھوں راہ بھول جاتے ہیں اور جو کچھ کرنا ہے اُس سے گریز کرتے رہتے ہیں۔ زندگی ہم سے بہت کچھ طلب کرتی ہے۔ حالات کا رونا رونے کے بجائے زندگی کی پکار پر توجہ دینی چاہیے۔ زندگی جو کچھ مانگتی ہے وہ اُسے دینا چاہیے۔ اور زندگی کیا مانگتی ہے؟ بھرپور توجہ اور بھرپور محنت۔ اور کیا؟ ہاں، فضول معاملات سے کنارہ کش رہنا بھی زندگی کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔ پیرو بھائی اور تاجو بھائی اِس اعتبار سے بہت خوش نصیب رہے ہیں کہ وہ آپس میں خالہ زاد بھی ہیں اور تایا و چچا زاد بھی۔ ساری زندگی ساتھ گزری ہے۔ یعنی ملنے کے لیے جانا آنا نہیں پڑتا! ایک دوسرے سے ہٹ کر اُن کا کوئی رشتہ دار نہیں۔ فی زمانہ یہ بھی ایک نعمت ہی ہے کہ بہت سے رشتہ داروں کا رونا دھونا زندگی کا حصہ نہ ہو! ایسے میں انسان اپنے کام پر پوری توجہ دینے کے قابل ہو پاتا ہے۔ ''پیرو، تاجو فیکٹر‘‘ ہمیں سکھاتا ہے کہ کامیابی کے لیے زبردستی کا فلسفی بننے سے کہیں زیادہ لازم ہے بدن توڑ محنت کا عادی بننا۔