کون ہے جو اپنے وجود سے، اپنے حالاتِ زندگی سے مکمل طور پر خوش ہے؟ ایسے تو خال خال ہی ہوں گے! غالب اکثریت کا یہ حال ہے کہ کچھ بھی مل جائے‘ یہ شکوہ برقرار رہتا ہے کہ زندگی نے کچھ خاص دیا ہی نہیں۔ کوئی دو وقت کی روٹی کمانے کی سطح سے بلند نہیں ہو پاتا۔ تب وہ شکوہ کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر وہی شخص لاکھوں بلکہ کروڑوں میں کھیلے اور پھر بھی روتا ہی رہے، حالات کا شکوہ کرتا رہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اُس کی اِس روشِ فکر کو کیا نام دیا جائے۔
سوال صرف ہمارے معاشرے کا نہیں، آج ہر معاشرے میں غالب اکثریت اِسی بات کا رونا روتی رہتی ہے کہ زندگی نے شدید بے انصافی کی ہے، جس قدر لیاقت تھی اور جتنی محنت کی تھی اُس سے مطابقت رکھنے والی جزا نہیں دی، نوازا ہی نہیں۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ پوری دنیا کی دولت طشتریوں میں سجاکر سامنے دھر دی جائے تب بھی رونا پیٹنا ختم نہیں ہوگا۔ ایسا کیوں ہے کہ انسان کچھ بھی ملنے پر اپنے آپ کو تہی دست ہی محسوس کرتا رہتا ہے؟ ایسا کیوں نہیں کہ جسم و جاں کا رشتہ عزت کے ساتھ برقرار رکھنے میں کامیاب ہونے پر سکون کا سانس لیا جائے اور رب کا شکر ادا کیا جائے کہ اُس نے زندگی جیسی نعمت سے ہم کنار کر رکھا ہے؟
ایسے کسی بھی انسان کو کبھی سکھ نہیں ملتا جو قدرت کی طرف سے عطا کی جانے والی نعمتوں پر شکر گزار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کو شکر گزاری خوب پسند ہے اور جو شکر گزار ہیں اُن سے وہ راضی رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر حال میں آزمائش رکھی ہے۔ جنہیں بہت ملتا ہے وہ بھی زیادہ خوش نہ ہوں کیونکہ یہ آزمائش ہے۔ اُن سے اِس بخشش و عطا کا پورا پورا حساب لیا جائے گا۔ اگر کسی کو بہت ملا ہے تو وہ اُسے ڈھنگ سے تقسیم کرنے اور انصاف سے بروئے کار لانے پر متوجہ ہو۔ کسی بھی انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ سب کا سب اُس کا نہیں ہوتا۔ اُسے بہت سوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھانا ہوتی ہے۔ قدرت چاہے تو کسی کو براہِ راست بھی دے دے مگر یہ اُس کا نظام ہے کہ وہ کسی کو زیادہ نواز کر اُسے پابند کرتی ہے کہ اِس میں سے اُنہیں دے جنہیں زیادہ نہیں ملا۔ قرآنِ مجید میں صراحت کردی گئی ہے کہ کسی بھی انسان کو جو کچھ ملتا ہے اُس میں کس کس کا حصہ موجود ہے اور یہ کہ یہ حصہ اُسے نکالنا ہی ہے۔
کسی کو اگر قدرت کی طرف سے زیادہ نہیں ملا تو وہ اِسے آزمائش سمجھ کر قبول کرے۔ تنگ دستی بھی آزمانے ہی کے لیے وارد ہوتی ہے۔ قدرت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ بندہ مصیبت میں شکر گزار رہتا ہے یا نہیں۔ ہر کیفیت کے لیے الگ اجر رکھا گیا ہے۔ اگر کوئی بہت پا کر ناشکرے پن کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ غیظ و غضب کو آواز دیتا ہے۔ اُس وقت سے ڈرنا چاہیے جب ہمارا خالق و مالک اپنی نوازشوں کا حساب طلب کرنے لگے۔ یہ کام محض آخرت میں نہیں ہونا‘ اِس دنیا میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ بہت سوں کو آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے بنتے اور بگڑتے دیکھا ہوگا۔ اہلِ ایمان کو اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ اِس دنیا میں بھی حساب کتاب کی منزل آسکتی ہے اور آتی ہی ہے۔ اگر کوئی بہت ہی نافرمانی کرے اور ناشکرا پن دکھائے تو حساب کتاب کی ابتدا یہیں کردی جاتی ہے۔ اِس میں بھی انسان کی بھلائی ہی ہے کہ تھوڑا بہت حساب کتاب یہیں ہو جائے۔ ایسی حالت میں آخرت کا مرحلہ کچھ تو آسان ہو گا۔ جوبظاہر محروم رہتے ہیں وہ رنجیدہ و افسردہ بھی رہتے ہیں۔ یہ فطری ہے مگر ناشکرا پن الگ کیفیت ہے۔ عظمت اُن کے لیے لکھ دی گئی ہے جو اِس دنیا میں کچھ زیادہ نہ ملنے پر بھی اپنے رب سے راضی رہتے ہیں، اُس کی حمد و ثنا سے غافل نہیں رہتے اور جذبۂ تشکر سے متصف رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں شرف کے حامل ہیں۔ تنگ دستی کی صورت میں کی جانے والی آزمائش میں پورے اُترنے والے ہی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والوں میں شامل ہو پاتے ہیں۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ بات بات پر شکوہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ آج ہمارے ہاں غالب اکثریت اُن کی ہے جو ہر وقت حالات کا رونا روتے رہتے ہیں۔ لوگ بات بات پر پھٹ پڑتے ہیں۔ اُنہیں گلے شکوے کرنے کا صرف بہانہ درکار ہوتا ہے۔ محفل برپا ہونے کی دیر ہوتی ہے، ناشکرے پن کے اظہار کا سلسلہ بھی شروع ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔
اوپرا وِنفرے (Oprah Winfrey)کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کے تلخ تجربوں کا سامنا کرنے کے بعد بہت محنت سے اپنے لیے جگہ بنائی اور آج اُن کا شمار چوٹی کے سیلیبرٹی انٹرویوئرز میں ہوتا ہے۔ اوپرا وِنفرے کہتی ہیں کہ زندگی سے جو کچھ بھی ملا ہے اگر آپ اُسے دیکھتے رہیں گے اور خوش رہیں گے تو اور بہت کچھ ملے گا۔ جو کچھ ملا ہے اُس کی طرف دیکھتے رہنے سے ہمیں اِس بات کا سکھ ملتا ہے کہ ہمیں کچھ ملا ہی ہے۔ اور اگر ہم اُن چیزوں کے بارے میں سوچیں جو ہمیں نہیں ملیں تو؟ تب ہم شکر گزار نہیں ہوں گے اور گلے شکوے ہی کرتے رہیں گے۔ ایسی حالت میں ہم بہت کچھ پاکر بھی کچھ زیادہ نہ پاسکیں گے۔ جو کچھ رب کی طرف سے‘ زندگی کے مختلف مراحل میں عطا ہوتا رہا ہے اُسے دیکھ کر رب کا شکر ادا کرنے کی صورت میں ہم واقعی صاحبِ ثروت ثابت ہوتے ہیں۔
آپ نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو زندگی بھر مال کے چکر میں رہتے ہیں۔ مال آتا رہتا ہے اور اُن کی تجوریوں میں یا پھر بینک اکاؤنٹس میں بند رہتا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو اپنے مال سے سرمایہ کاری کرتے رہتے ہیں۔ وہ املاک خریدتے ہیں، اُنہیں کرائے پر دیتے ہیں۔ یوں دولت بڑھتی جاتی ہے مگر اُن کی زندگی میں ہمیں سکھ دکھائی نہیں دیتا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ ہر وقت زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ اُن کا ذہن مال کا دائرہ وسیع تر کرتے رہنے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ ایسے میں جو کچھ مل چکا ہے اُس سے مستفید ہونے کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔ ایسی حالت میں بہت بڑے پیمانے پر حاصل شدہ دولت بھی انسان کو کچھ زیادہ نہیں دے پاتی ۔ وہ ہر وقت کڑھتا ہی رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی ناگہانی کیفیت کے ہاتھوں اگر تھوڑی سی دولت ہاتھ سے جاتی رہے تو اُس کے غم میں جی کو روگ لگا بیٹھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جو کچھ اِس وقت پاس ہے وہ اُس سے کہیں زیادہ ہے جو چلا گیا ہے۔
کامیاب وہی ہیں جو قدرت کی عطا سے خوش رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہ مزید بہت کچھ پانے کے لیے تگ و دَو کے قابل رہتے ہیں اور اِس دوران مجموعی طور پر خوش رہتے ہیں۔ ہمارے خالق کی بھی یہی منشا ہے کہ ہم ہر حال میں اُس کے شکر گزار رہیں تاکہ وہ ہم سے راضی ہو اور ہمیں مزید نوازتا رہے۔ وہ ہمیں کب اور کتنا نوازے گا یہ اُس کی مرضی کا معاملہ ہے۔ اُس نے اپنے تمام معاملات طے کر رکھے ہیں۔ ہمیں اُس کی مرضی کے مطابق چلنا ہے۔ شکر گزاری کیساتھ ساتھ دعا کرتے رہنا ہے کہ جو کچھ طے کیا گیا ہے‘ وہ ہمارے حق میں ہو۔ اس معاملے میں التجا و التماس کی بڑی اہمیت ہے۔
کسی کو اِس دنیا میں کیا ملا ہے اور کیا نہیں مل سکا‘ آخرت میں اِس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہونا۔ یہاں جنہیں سلطنت عطا کی گئی ہے‘ اِس کا امکان موجود ہے کہ وہ قیامت کے دن خالی ہاتھ رہ جائیں ۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جنہیں اِس دنیا میں سر پر چھت میسر نہ ہو وہ آخرت میں بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہوکر جنت میں محل پائیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنے رب کی عطا کے جواب میں کیا روشِ فکر و عمل اختیار کی ہے۔ دُنیا کی منزل سے کامیاب وہی جاتے ہیں جو اپنے خالق کے احسان مند رہتے ہیں۔ ناشکرا پن اِس دنیا میں جینے کا مزہ بھی چھینتا ہے اور آخرت کی منزل کو بھی دشوار تر بنا دیتا ہے۔