کیا ہم زندگی کا حق ادا کرنے کے بارے میں سوچنے کے عادی ہیں؟ بیشتر کا حال یہ ہے کہ اور تو بہت کچھ سوچتے ہیں مگر زندگی کا حق ادا کرنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ انسان زندگی کو نعمت سمجھنے کی ذہنیت سے ہم کنار ہی نہیں۔ ہمیں یہ زندگی مفت عطا کردی گئی ہے تو ہم اِسے کسی بھی درجے میں اہم گرداننے کے لیے تیار نہیں۔ ہم درست جسمانی حالت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہاتھ پیر بھی کام کر رہے ہوتے ہیں، دکھائی اور سنائی دیتا ہے، ذائقے بھی محسوس ہوتے ہیں، سونگھنے کی صلاحیت بھی بہ درجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ جب تک یہ سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے تب ہم کچھ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہمیں خیال تک نہیں آتا کہ اگر یہ تمام صلاحیتیں ہم میں نہ ہوں تو کیا ہو۔ مثلاً ہم چلنے پھرنے سے معذور ہوجائیں تو؟ دیکھنے، سننے، بولنے، چکھنے اور سُونگھنے کی صلاحیت نہ رہے یا کمزور پڑ جائے تو؟ ہمیں عمومی حالت میں خیال تک نہیں آتا کہ ہم کتنی بڑی نعمتوں سے ہم کنار ہیں اور کس طور بہت آسانی سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب کبھی کسی حادثے کے نتیجے میں حرکت کرنا ممکن نہ رہے یا ہم دیکھنے، سننے جیسی صفت سے محروم ہوجائیں تو؟ تب زندگی مستقل دردِ سر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جب تک ہم حادثے کے اثرات جھیل رہے ہوتے ہیں تب تک تو خیال آتا رہتا ہے کہ عمومی یعنی نارمل حالت میں پُرسکون انداز سے زندگی بسر کرنے کے قابل رہنا خدا کا کتنا بڑا احسان ہے۔ افسوس کہ جب ہنگامی حالت ختم ہوتی ہے یعنی ہم علاج کے بعد دوبارہ نارمل زندگی بسر کرنے کی طرف آتے ہیں تب بھول جاتے ہیں کہ خدا نے ہمیں ایک نارمل جسم کی صورت میں کتنی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق نصیب ہو تو انسان زندگی کے بارے میں سوچتا ہے، سنجیدگی اختیار کرتا ہے۔ جب زندگی کو سنجیدگی سے لینے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے تب ہم اپنے وجود کی مقصدیت پر بھی غور کرتے ہیں اور اِس دنیا میں بھیجے جانے پر اپنے خالق و مالک کا شکر بھی ادا کرتے ہیں۔
بہت سے سوال ذہن کے پردے پر ابھرتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں یا پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ زندگی کیا ہے، اس دنیا میں ہمارے قیام کا بنیادی مقصد کیا ہوسکتا ہے، ہمیں کس طور جینا چاہیے، حقیقت پسندی کتنی ہونی چاہیے، اپنی خواہشات کی غلامی کس حد تک قبول کی جانی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ سوچنے والوں نے زندگی کے بارے میں بہت سوچا ہے، بہت لکھا ہے۔ ہر عہد کے اہلِ علم و فن زندگی کی مقصدیت اجاگر کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں تاکہ عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کی تحریک ملے۔ آندرے اَکیمن (André Aciman) نے اپنی کتاب ''Call Me by Your Name‘‘ میں لکھا ہے ''ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ اس تصور کے ساتھ جیے جاتے ہیں گویا زندگیاں دو ہوں... ایک وہ جو محض دکھاوے یا تجربے کے طور پر گزاری جارہی ہے اور دوسری وہ جو مکمل شکل میں ہے جیسے تکمیل سے ہم کنار مصنوعات (finished goods) ہوتی ہیں۔ ذہنوں میں بسے ہوئے زندگی کے اِن دو ورژنوں کے درمیان ہم پتا نہیں کتنی ہی زندگیاں گزارتے رہتے ہیں‘‘۔
اس حقیقت سے انکار کرنے کی ہمت کس میں ہوسکتی ہے کہ ہم میں سے بیشتر کسی ایک ڈگر پر چلتے ہوئے زندگی بسر نہیں کرتے۔ ہمارے ذہنوں میں کچھ ہوتا ہے اور زمینی حقیقت کچھ اور کہہ رہی ہوتی ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو زمینی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے جینے کی کوشش کرتے ہیں؟ خال خال! زندگی قدم قدم پر ہم سے غور و فکر کا تقاضا بھی کرتی ہے اور موزونیتِ عمل کا بھی۔ اگر ہم کسی ایک معاملے میں بھی کمزوری دکھائیں تو بہت کچھ بگڑ جاتا ہے۔ زندگی اس بات کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی کہ کسی بھی پہلو کو مکمل نظر انداز کردیا جائے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتا ہے۔
زندگی ہم سے دانش اور شعور کا تقاضا کرتی رہتی ہے۔ یہ تقاضا اِس امر کے لیے ہوتا ہے کہ ہم دوئی کا شکار نہ ہوں۔ دوئی یعنی ایک ہی حقیقت کو دو مختلف زاویوں سے دیکھنا اور مختلف سمجھ بیٹھنا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں‘ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی چیز چاہے کسی بھی زاویے سے دیکھی جائے، اپنی اصل میں تو ایک ہی رہتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا جارہا ہے اُس کی اصلیت کیا ہے۔ ہم محض اندازِ نظر کی بنیاد پر کسی بھی چیز کی حقیقت بدلنے کی نہ صرف یہ کہ صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ اِس حوالے سے خوش گمانی میں بھی مبتلا نہیں رہ سکتے۔ کسی بھی زمینی حقیقت کا پامردی سے سامنے کرنے کی صورت ہی میں بہتری کی راہ نکل پاتی ہے۔ ایک زندگی تو وہ ہے جو ہم بسر کر رہے ہیں۔ یہ زندگی ہماری خواہشات اور ترجیحات کے مطابق ہے۔ اور ایک زندگی وہ ہے جو ہمیں بسر کرنی چاہیے۔ یہ زندگی زمینی حقیقتوں سے مطابقت رکھنے والی ہے۔ یہ زندگی ہمارے ذہن میں نہیں ہوتی بلکہ ہمیں تراشنا ہوتی ہے۔ ہم اگر زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق زندگی بسر کرتے رہیں تو جو کچھ بھی ملے گا اُس سے ہماری مکمل تشفی نہ ہوسکے گی کیونکہ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ہمارے لیے الجھنیں بڑھتی ہیں اور ہم کامیاب ہونے پر بھی زیادہ راحت یا سکون محسوس نہیں کرتے۔
کسی بھی معاملے میں دُوئی کے ساتھ زندگی بسر کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ تضاد چاہے کسی بھی شکل میں ہو اور کسی بھی سطح پر ہو، تضاد ہی ہوتا ہے۔ یہ اپنی اصل کو خود ختم نہیں کرسکتا۔ تضاد کو ہمیں شعوری سطح پر جاکر ختم کرنا ہوتا ہے۔ دُوئی میں جینے والے کسی بھی دور میں کم نہیں رہے۔ ہر دور میں اکثریت کا یہی حال رہا ہے۔ ہر انسان کو اپنے مخصوص حالات کے مطابق جینا ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی سے جڑی ہوئی حقیقتوں یا معاملات کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا مگر تاریخ کے ہر دور میں اکثریت اُن کی رہی ہے جنہوں نے اپنے حالات سے مطابقت رکھنے والی زندگی بسر کرنے کے بجائے ایسی زندگی بسر کرنے کی کوشش کی ہے جو اُن کی خواہشات اور ترجیحات سے مطابقت رکھتی تھی اور یوں زندگی کا بڑا حصہ ناکامی اور تاسّف کی نذر ہوتا آیا ہے۔ ہم اپنی خواہشات اور ترجیحات سے مطابقت رکھنے والی کیفیت پیدا کرنے کے نام پر جو کچھ کرتے ہیں اُس کے نتیجے میں زندگی بہت سے ٹکڑوں یا خانوں میں تقسیم ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ کیفیت انسان کی ذہنی یا نفسی الجھنوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ جب ہم حقیقت کی دنیا سے دور رہتے ہوئے جینے کی کوشش کرتے ہیں تب زندگی تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزرتی جاتی ہے۔ ایسے میں ہمارے لیے الجھنوں کا بڑھنا فطری امر ہے۔ اِن الجھنوں کا گراف نیچے لانے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم حقیقت پسندی کا وصف اپنے اندر پیدا کریں اور اگر پہلے سے پایا جاتا ہو تو اُسے توانا رکھیں۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ آپ محض خواہشات کے غلام ہوکر نہ جئیں بلکہ ماحول سے مطابقت قائم رکھتے ہوئے اپنے لیے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں‘ کریں۔ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنا دانش مندی نہیں اور اپنی تمام خواہشات کا گلا گھونٹ دینا بھی عقل کا سودا نہیں۔ ہمیں بَین بَین چلنا ہے، اعتدال کی راہ پر گامزن رہنا ہے۔ حقیقی دانش کا یہی تقاضا ہے۔
زندگی جیسی نعمت یقینا اِس لیے تو عطا نہیں کی گئی کہ ہم اِسے بالکل اُسی طرح پیس کر رکھ دیں جس طرح چکی کے دو پاٹوں کے بیچ دانہ پس کر رہ جاتا ہے۔ یہ نعمت اِس لیے عطا کی گئی ہے کہ ہم اپنے خالق کی مرضی کے بھی تابع رہیں اور اپنی خواہشات کو بھی کسی نہ کسی حد تک پورا کرتے رہیں۔ ماحول چاہے کچھ کہہ رہا ہو اور ہماری خواہشات چاہے کوئی بھی راگ الاپ رہی ہوں، ہمیں ایسی زندگی بسر کرنی ہے جس میں ہمارے رب کی رِضا کا بھی سامان ہو اور اپنی دل بستگی کی بھی گنجائش ہو۔ اور اگر اس عمل میں دنیا بھی ہم سے خوش رہے تو سمجھ لیجیے ہاتھ سے کچھ بھی نہیں گیا۔