دنیا کیا ہے‘ اچھا خاصا میلہ لگا ہوا ہے۔ قدم قدم پر تماشے ہیں۔ ہم سب تماشائی بھی ہیں اور تماشا بھی۔ جو کچھ ہم کرتے ہیں اسی سے تماشے منصۂ شہود پر آتے ہیں۔ کسی کے لیے ہم تماشا ہوتے ہیں اور کوئی ہمارے لیے تماشے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان تماشوں میں ہم سبھی گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ذہن پر بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ذہن پر پڑنے والا بوجھ سوچنے‘ سمجھنے اور طے کرنے کی صلاحیت پر بُری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ ذہن پر تو دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ہاں‘ ہماری شعوری کوشش اس دباؤ کو ایک خاص حد میں رکھنے کی اہل ضرور ثابت ہوتی ہے۔ شعوری کوشش کا مطلب یہ ہے کہ ہم ذہن کو قابو میں رکھنے کا فیصلہ کریں‘ جو کچھ بہت ضروری یا ناگزیر ہے صرف اسی پر متوجہ ہوں‘ دل بہلانے کے معاملات کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دیں‘ دنیا بھر کے تماشوں میں اپنے آپ کو نہ الجھائیں۔ محض سوچنے سے یہ سب نہیں ہو جاتا۔ اگر کسی کو ذہن پر قابو پانا ہے تو بھرپور عزم کے ساتھ ضبطِ نفس کی ڈگر پر سفر شروع کرنا پڑتا ہے۔
کبھی آپ نے اس نکتے پر غور کیا ہے کہ ذہن کو قابو میں رکھے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے؟ اگر ذہن پر بوجھ بڑھتا ہی چلا جائے تو؟ ایک وقت آتا ہے کہ یہ کام کرنے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ اور ہم شدید لاپروائی برتیں تو یہ وقت آنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا! معاشرے میں آپ کو ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے کام میں مہارت کے حامل ہوتے ہیں۔ خرابی اگر ہے تو صرف یہ کہ ایسے لوگ رفتہ رفتہ خود غرض ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھنے کے معاملے میں یہ اتنے متشدد ہوتے ہیں کہ انہیں باقی دنیا سے کچھ بھی غرض نہیں رہتی۔
دوسری طرف آپ کو وہ لوگ ملیں گے جو اپنے وجود کے سوا ہر چیز میں بھرپور دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی بھر تماشوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ ان کا جینا اپنے لیے نہیں ہوتا۔ یہ دوسروں میں اتنی زیادہ دلچسپی لیتے ہیں کہ ان کی طرف سے زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں! زندگی بسر کرنے کا یہ انداز کسی بھی اعتبار سے مثالی اور قابلِ تقلید نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اپنے وجود کو بھول جاتے ہیں وہ دوسروں میں اتنے گم رہتے ہیں کہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے معاملے میں کچے رہ جاتے ہیں اور اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہی پڑتا ہے۔
ہم جو کچھ دیکھتے‘ سنتے اور پڑھتے ہیں وہ ہماری ذہنی ساخت کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری غور و فکر کی صلاحیت پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ہمارے اپنے ماحول میں جو کچھ بھی واقع ہو رہا ہوتا ہے وہ ہماری زندگی‘ نفسی ساخت اور حافظے کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت پر اپنے اثرات مرتب کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ ہمیں سوچ سمجھ کر پڑھنا‘ سننا اور دیکھنا چاہیے۔ جب ہم ان تینوں معاملات میں غیرمعمولی احتیاط کا مظاہرہ کریں گے تو ناگزیر طور پر اپنے آپ کو فضول باتوں سے بچائیں گے اور فضول بولنے سے بھی گریز ہی کریں گے۔
ذہن ہی ہمارے لیے سب کچھ ہے کیونکہ اسی کی کارکردگی ہمارے پورے وجود کو ریگیولیٹ کرتی ہے۔ ذہن کو قابو میں رکھنا ناگزیر ہے کیونکہ ایسا نہ ہو تو زندگی بے ڈول‘ بے ہنگم اور غیرمنظم ہوکر رہ جائے۔ ذہن کو قابو میں رکھنے کے معاملے میں برتی جانے والی لاپروائی کے نتائج دیکھنے کے لیے آپ کو کہیں دور جانے اور سوشل میڈیا پورٹلز کھنگالنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے ماحول میں آپ ایسے لوگوں کو بہت آسانی سے شناخت کر سکتے ہیں جنہوں نے ذہن کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے لاپروائی برتی اور اس کا خمیازہ یوں بھگت رہے ہیں کہ پوری زندگی ہی نظم و ضبط سے محروم ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسے لوگ اپنے وقت‘ لیاقت اور سکت تینوں کا ضیاع روک نہیں پاتے۔ ان کی زندگی میں ترتیب خال خال ملتی ہے۔ ایسے لوگ سوچتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ ہے کیونکہ ان کا سوچنا بھی بے وقت ہوتا ہے اور کرنا بھی بے محل۔ فکر و عمل کے معاملے عدمِ ترتیب سے تمام ہی معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
ہر عہد کے انسان کو ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ ذہن کا دباؤ کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ ذہن قابو میں رہے تو اس کی تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے اور مشق کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ذہن کو قابو میں رکھنا یعنی متوازن رکھنا کسی بھی انسان کے لیے ممکن ہو سکتا ہے مگر یہ کام ہے بہت محنت طلب۔ اس کے لیے صبر بھی کرنا پڑتا ہے اور ایثار کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ذہن کو بہت سے معاملات سے ہٹانا بھی پڑتا ہے اور بہت سے معاملات کی طرف اس کا رخ موڑنا بھی پڑتا ہے۔ ذہن کو اگر ڈھیلا یا آزاد چھوڑ دیا جائے تو اس میں دنیا بھر کی اچھی اور بری باتیں بھرتی چلی جاتی ہیں۔ اگر خرافات زیادہ ہوں (جیسا کہ بیشتر معاملات میں ہوتا ہی ہے) تو انسان ڈھنگ سے سوچنے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ خرافات یعنی لایعنی باتیں‘ ایسے معاملات جن کا ہماری ذات سے کوئی تعلق نہ ہو اور ہمارے مفادات کو جن سے تحفظ بھی نہ ملتا ہو۔ انسان کو دوسروں میں بھی دلچسپی لینی چاہیے مگر اس کی ایک خاص حد مقرر ہونی چاہیے۔ دوسروں کے معاملات سے یکسر لاتعلق رہنا بھی اچھی بات نہیں اور ان میں گم ہو رہنا بھی کسی درجے میں مستحسن نہیں۔ بَین بَین چلنا ہے۔ نہ ادھر لُڑھکنا ہے نہ اُدھر۔ توازن ہی زندگی کو قابلِ اعتبار اور قابلِ استفادہ بناتا ہے۔
آج ذہن پر دباؤ مرتب ہونے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ جو کچھ ماحول میں ہے اسے دیکھتے رہنے ہی تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان کی صلاحیت اور سکت صرف تماشوں کی نذر ہو چکی ہے۔ ہر انسان بہت کچھ کر سکتا ہے مگر صرف اس وقت جب وہ اپنے ذہن کو قابو میں رکھے‘ اس میں خرافات کے بھرنے کا عمل روکے‘ کام کی باتوں پر متوجہ رہے‘ اپنے آپ کو فضول معاملات سے دور رکھے‘ صرف ان معاملات میں حقیقی جذبۂ عمل کا مظاہرہ کرے جن سے زندگی کا حسن بڑھتا ہو‘ معاملات کی الجھن دور ہوتی ہو۔ افسوس کہ ایسا ہو نہیں رہا۔ واضح اکثریت کا یہ حال ہے کہ عہدِ جدید کی ایجادات و اختراعات سے بالکل اسی طور مسحور ہے جس طور کوئی بچہ کسی نئی چیز کو دیکھ کر اس میں گم ہو جاتا ہے۔ کسی بھی نئی چیز کو پاکر حیران ہونا حیرت انگیز نہیں مگر نئی چیزوں کو دیکھ کر مستقبل بنیاد پر حیرانی کی نذر ہوتے رہنا ضرور حیرت انگیز امر ہے۔ یہ معاملہ توجہ طلب ہے۔
ذہن کی حیثیت ایک بڑی ذخیرہ گاہ کی سی ہے۔ اسی میں حافظہ بھی ہوتا ہے جو تمام معاملات کو محفوظ رکھنے کے میکانزم کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر ہم ذہن میں دنیا بھر کی فضول باتیں انڈیلتے رہیں تو جی چکے۔ ذہن میں خرافات کے بھرنے کا عمل جاری رہے تو یہ ذخیرہ گاہ بالآخر کباڑ خانے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ حالت کسی بھی اعتبار سے مثالی حیثیت نہیں رکھتی۔ جب ہم ذہن کو کباڑ خانہ بننے دیتے ہیں تب ہماری فیصلہ کرنے اور فیصلوں کو رُو بہ عمل لانے کی صلاحیت کمزور پڑتی چلی جاتی ہے۔ یوں زندگی غیر متوازن ہوتی چلی جاتی ہے۔
ذہن کے نصیب میں بوجھ تو ہر دور میں لکھا گیا ہے۔ فی زمانہ یہ بوجھ کچھ زیادہ ہے کیونکہ ٹیکنالوجیز نے معاملات کو ایسی شکل دی ہے کہ ذہن کے لیے بچ نکلنا انتہائی دشوار ہو چکا ہے۔ اب وہی لوگ کسی حد تک متوازن زندگی بسر کر سکتے ہیں جو یہ طے کریں کہ ایسا کرنا ہے یعنی شعوری کوشش کے نتیجے ہی میں ذہن کو فضول دباؤ سے بچایا جا سکتا ہے۔ ذہن کو دباؤ سے بچانا لازم ہے کیونکہ ایسا کرنے ہی سے ہم درست فیصلے کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے قابل رہتے ہیں۔ عہدِ حاضر نے ہمارے لیے مشکلات بڑھائی ہیں مگر اتنی نہیں کہ ہم شعوری کوشش سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکیں‘ بالخصوص ذہنی توازن کے معاملے میں۔