ہم زندگی بھر اچھے اور برے کے الٹ پھیر میں رہتے ہیں۔ ہمیں ہر طرف چَھل کَپٹ (مکر، فریب، دغا)کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں؟ ہماری کنڈیشننگ ہی کچھ ایسی ہے۔ جو کچھ ہمارے ذہنوں میں انڈیلا جاتا ہے ہم اُسی کے مطابق سوچتے اور کرتے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت کچھ ہمارے ذہنوں میں خود بخود اُنڈل جاتا ہے یعنی ہم غیر محسوس طور پر بہت کچھ قبول کرتے رہتے ہیں اور اِس کے نتائج کی سنگینی کا اندازہ ہمیں بہت بعد میں ہوتا ہے۔ عمومی سوچ انسان کو عمومی بنائے رکھتی ہے۔ اگر ہم کسی کے بارے میں کوئی رائے پہلے سے قائم کرلیں تو پھر اُس کے بارے میں اُسی سوچ کی حدود میں مقید رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے ذہن میں جو کچھ ڈالا جاتا ہے وہی کچھ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بچپن سے ملنے اور پنپنے والی سوچ کو بدلنا اور حقیقت پسندی کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ بیشتر معاملات میں لگی بندھی سوچ کے ساتھ جیتے ہیں اور اِسی میں خوش رہتے ہیں۔
کیا واقعی دنیا میں ہر طرف صرف چَھل کپٹ ہے؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ بیشتر افراد دوسروں کو چَھلنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں؟ کیا دیانت ختم ہوچکی ہے؟ مروت کا وجود نہیں رہا؟ احساسِ ذمہ داری اب اِس دنیا سے اُٹھ چکا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ ہر دور میں اکثریت اُن کی رہی ہے جو اعلیٰ انسانی اخلاق و اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ آج بھی یہی معاملہ ہے۔ آج بھی اکثریت اُن کی ہے جو خود بھی اچھی طرح رہتے ہیں اور اچھی طرح زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے میں دوسروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو عمومی سطح پر یہ سوچ ابھرتی ہے کہ کہیں بھی کچھ بھی اچھا نہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اپنے معاشرے اور ماحول کے بارے میں ہماری سوچ ایسی کیوں ہے؟ یہ منفی اندازِ فکر کیوں پروان چڑھا ہے اور کیوں مسلسل پروان چڑھ رہا ہے؟
جب ہم سٹیریو ٹائپ یعنی لگی بندھی سوچ کے حامل ہوتے ہیں تب ہماری سوچ محدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسے میں تعصب بھی تیزی سے پروان چڑھتا ہے۔ تعصب یعنی کسی کے بارے میں مفروضوں کی بنیاد پر پنپنے والی بے بنیاد سوچ۔ اگر ہم کسی کے بارے میں پہلے سے کوئی رائے قائم کرلیں تو اِسے تعصب قرار دیا جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کو کسی بھی حال میں کسی بھی نوع کا تعصب زیبا نہیں۔ جہاں تعصب ہوتا ہے وہاں حقیقت پسندی نہیں ہوتی اور مثبت سوچ بھی نہیں پنپتی۔ یوں عملی زندگی بھی مشکلات سے دوچار رہتی ہے۔ این فرینک (Anne Frank) کی ''The Diary of a Young Girl‘‘ دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت کی حامل کتاب ہے۔ اس کتاب میں این فرینک نے عملی زندگی کی تلخیوں کو کھل کر بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہم جس سطح کی زندگی بسر کرتے ہیں اُس سے بلند تر سطح کی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ اِس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ سوچ حقیقت پسندانہ اور مثبت ہونی چاہیے۔ این فرینک نے لکھا ہے ''زندگی بارہا ہمارا امتحان لیتی ہے۔ ہم بہت کچھ جھیلتے ہیں۔ میں نے بھی زندگی کے کئی روپ دیکھے ہیں۔ جو کچھ میں نے اب تک دیکھا اور جھیلا ہے اُس کے باوجود میں غور و فکر کے ذریعے اِس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ لوگوں کی اکثریت دل کی اچھی ہی ہوتی ہے۔ ہم بہت سوں کے بارے میں مفروضے قائم کرلیتے ہیں۔ یہ مفروضے ہماری سوچ کو محدود کرتے چلے جاتے ہیں‘‘۔
این فرینک کی بات بالکل درست ہے۔ اُس کا تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے۔ ہمیں زندگی بھر مختلف مزاجوں اور عادات کے حامل افراد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ہمیں بہت پسند آتا ہے اور کوئی بالکل اچھا نہیں لگتا۔ کبھی کبھی اِس کی کوئی ٹھوس وجہ ہوتی ہے اور کبھی پھسپھسی وجہ بھی نہیں ہوتی۔ ہم کبھی کبھی محض جھنجھلاہٹ یا بیزاری کے ہاتھوں بھی کسی کو ناپسند کر بیٹھتے ہیں یا اُس کے بارے میں کوئی ایسی رائے قائم کرلیتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے تعقل اور توازن پر مبنی نہیں ہوتی۔ ایسی رائے ہمارے لیے مفت کی الجھنیں پیدا کرتی ہے۔ جب تک دَم میں دم ہے تب تک ہم میں سے ہر ایک کو معاملت کے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ انسان کو انسانوں ہی میں رہنا زیب دیتا ہے۔ کوئی بھی انسان معاشرے یا ماحول سے ہٹ کر، کٹ کر ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔ ہمیں قدم قدم پر لوگوں سے تفاعل کا سامنا رہتا ہے۔ کسی سے بات کرنا پڑتی ہے اور کسی کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہی معاملہ دوسروں کا بھی ہے یعنی وہ بھی ہم سے بہت کچھ کہتے اور ہمارے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ گمان پال بیٹھیں کہ لوگ ہوتے ہی غلط ہیں تو جی چکے۔ کوئی بھی انسان کیسے ہی حالات کا شکار رہا ہو‘ سب کو غلط قرار نہیں دے سکتا۔ یہ کسی بھی درجے میں مناسب و متوازن ہے نہ مفید۔ اب آئیے اِس سوال کی طرف کہ کسی بھی معاشرے میں اکثریت کس کی ہوتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ انسان کی تربیت ڈھنگ سے نہ کی گئی ہو تو وہ زندگی کا بیشتر حصہ بدگمانی کے ساتھ گزارتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں غالب اکثریت کبھی بری نہیں ہوتی۔ پاکستان جیسے معاشروں میں لوگ مختلف تجربات کے ہاتھوں مجبور ہوکر بعض معاملات میں لگی بندھی سوچ کے حامل ہوسکتے ہیں مگر پھر بھی یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ غالب اکثریت بری نہیں ہوتی اِس لیے اُس سے خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ این فرینک نے اپنی کتاب کے ذریعے یہ خوبصورت اور مفید پیغام دیا ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ سوچے سمجھے بغیر کوئی رائے قائم کرے اور اُسے برقرار رکھنے پر بضد بھی رہے ہمیں زندگی بھر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ ہر صورتِ حال ہم سے متوازن سوچ طلب کرتی ہے۔ اگر ہم معاشرے کے مجموعی مزاج کو دیکھتے ہوئے کوئی رائے قائم کرلیں تو اپنے وجود سے انصاف نہیں کرسکتے۔
پنپنا تو بہت دور کی بات ہے، کوئی بھی معاشرہ لگی بندھی سوچ کے ساتھ ڈھنگ سے جی بھی نہیں سکتا۔ اگر ہم اپنے کسی ذاتی تلخ تجربے کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرلیں اور کسی گروہ، ثقافت، نسل، مذہب یا نظریے سے وابستہ افراد کے بارے میں کوئی تصور باندھ لیں تو اپنے لیے مشکلات بڑھائیں گے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ہماری سوچ محدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسی سوچ جوہڑ کی طرح ہوتی ہے۔ جوہڑ یعنی کسی جگہ مقید یا ٹھہرا ہوا پانی۔ یہ پانی دھیرے دھیرے گندا ہوتا جاتا ہے اور پھر اِس پانی کو پینے کا معاملہ تو رہنے ہی دیجیے، اِس سے منہ ہاتھ دھونا یا نہانا بھی ممکن نہیں رہتا۔ جوہڑ میں کائی بھی جمتی ہے اور کیڑے بھی پلتے ہیں۔ جامد، محدود اور لگی بندھی سوچ بھی جوہڑ کی طرح ہوتی ہے۔ یہ انسان کے وجود کو بدبو دار بنادیتی ہے۔ معیاری انداز سے جینے کے لیے ذہن کو توانا رکھنا لازم ہے۔ ذہن کی توانائی مثبت سوچ سے برقرار رہتی اور پروان چڑھتی ہے۔ کوئی بھی انسان منفی، محدود اور جامد سوچ کے ساتھ کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہیں کرسکتا۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے ذہن کو دائروں سے نکالنا پڑتا ہے۔ جامد سوچ ذہن کو حقیقت پسندی کی طرف جانے سے روکتی ہے۔ یہ سب کچھ تربیت کے نتیجے میں ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ محدود اور جامد سوچ انسان کے ظاہر و باطن کا قامت گھٹا دیتی ہے۔
ہم اچھے لوگوں سے روابط رکھنا چاہتے ہیں۔ اِس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ہمیں خود بھی اتنا اچھا ہونا چاہیے کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔ بس یہ ہے کہ اُنہیں تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اچھے لوگوں کو تلاش کرنا تھوڑا سا دشوار ضرور ہے‘ ناممکن نہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں لوگوں کی اکثریت خیر کی داعی اور طالب ہے۔ اُسے شناخت کرکے روابط بڑھانے کی صورت میں ہم بھی اپنے معاملات کا ماحول خوش گوار بناسکتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ اچھوں کی تلاش کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خود اچھے بن جائیے۔ نئی نسل کو یہ بات لازمی سکھانی چاہیے کہ کوئی اچھا ہوتا ہے نہ برا۔ طرزِ فکر و عمل کی جہت کا مدار حالات پر ہوتا ہے۔ آپ کسی سے اچھی طرح ملیں گے تو وہ بھی آپ سے اچھی طرح ہی ملے گا۔