مزاج کا فرق دنیا کو رنگین بھی بناتا ہے اور سنگین بھی۔ ہر انسان مختلف اور منفرد مزاج کا حامل ہوتا ہے۔ یہ حقیقت جس نے سمجھی وہی کامیاب رہا۔ مزاج کے فرق کی بنیاد ہی پر ہم لوگوں سے معاملت کرتے ہیں۔ اگر کسی نے طے کرلیا ہے کہ کسی کو سمجھنا ہی نہیں تو اور بات ہے۔ ہر انسان چند خاص معاملات میں غیر معمولی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ یہ خصوصیات اُسے دوسروں سے بالکل مختلف بناتی ہیں۔ کوئی محض مختلف ہونے کی بنیاد پر کام کا ثابت نہیں ہوتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ خصوصیات کا اختلاف کسی کام کا ہے بھی نہیں۔ اگر کوئی محض انفرادیت کی بنیاد پر اپنے آپ کو منوانا چاہے تو دنیا نہیں مانتی‘ مان بھی نہیں سکتی۔ اہمیت صرف اُس انسان کی ہے جو افادیت کا حامل ہو، اپنے لیے بھی کچھ کرسکتا ہو اور دوسروں کے لیے بھی۔
مزاج کی بنیاد پر انسان کا بیانیہ بھی تشکیل پاتا ہے۔ ہمارے ہاں چند اصطلاحات فیشن کا درجہ رکھتی ہیں۔ ''بیانیہ‘‘ بھی ایسی ہی اصطلاح ہے۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ کسی بھی موضوع پر انٹ شنٹ بولنے کو بھی بیانیے کے خانے میں رکھا جارہا ہے۔ بیانیہ کسی بھی موضوع پر یا کسی بھی بنیادی مسئلے کے حوالے سے پائی جانے والی مجموعی آرا کا مجموعہ ہوتا ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی گروہ، طبقے یا معاشرے کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ ذرا ذرا سی بات پر دی جانے والی رائے کو بھی بیانیہ کہہ بیٹھتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کا ایک واضح بیانیہ ہوتا ہے۔ ہر حکومت بیانیے کی بنیاد پر بات کرتی ہے مگر یہ بیانیہ بہت محنت سے تیار کیا جاتا ہے۔ اِسے بار بار کتر بیونت کے مراحل سے گزارنا پڑتا ہے۔ تہذیب و تطہیر کے بغیر کوئی بھی بیانیہ واضح شکل اختیار نہیں کرتا۔
ہمارے ہاں لوگ متضاد آرا کا اظہار کرتے ہیں اور اُن تمام آرا کے مجموعے کو بیانیہ کہہ کر خوش ہولیتے ہیں۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس کے ذہن میں جو کچھ بھی پنپ رہا ہوتا ہے یعنی جو ''بیانیہ‘‘ کلبلارہا ہوتا ہے اُسے کسی نہ کسی طور دنیا کے سامنے لانے کے لیے وہ بے تاب رہتا ہے۔ بس موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ شروع ہو جاتا ہے۔ عرفِ عام میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بس بٹن کے دبنے کی دیر ہوتی ہے، بیانیہ ہمارے سامنے پَر پھیلانے لگتا ہے۔
کسی بھی بڑے ہسپتال میں ذہنی امراض کے وارڈ کا دورہ کیجیے، مریضوں کا جائزہ لیجیے اور ماہرین سے رابطہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ذہنی امراض کی جو بنیادی علامات ہوتی ہیں وہ اِن وارڈز ہی نہیں پائی جاتیں بلکہ معاشرے میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ ذہنی پیچیدگیوں کے حوالے سے انتہائی نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ لوگ بات بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب کسی کو مشتعل ہونے کے لیے کوئی جواز درکار ہوتا تھا۔ تربیت ایسی تھی کہ انسان بات بات پر آپے سے باہر نہیں ہوتا تھا بلکہ اِس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتا تھا۔ لوگ جانتے تھے کہ کسی معمولی سی بات پر غیر معمولی ردِعمل کا مظاہرہ کسی بھی اعتبار سے معقول رویہ نہیں۔ غیر معمولی ردِعمل کسی ایسی بات پر زیب دیتا ہے جو غیر معمولی نوعیت کی ہو اور انسان کے لیے کوئی واقعی حرج واقع ہوتا ہو۔ ذرا سی بات پر ہتھے سے اکھڑ جانا کسی بھی اعتبار سے معقول ہے نہ پسندیدہ۔ ایسے لوگوں کو پسند کرنے والے معدودے چند ہوتے ہیں۔ عام طور پر لوگ ایسی کسی بھی صورتِ حال سے صرف لطف کشید کر رہے ہوتے ہیں۔
ذہنی مریضوں کا بغور جائزہ لیجیے اور نفسی پیچیدگیوں کے ماہرین سے بات کیجیے تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ کسی بھی ذہنی مریض کو مشتعل کرنے والی چند خاص باتیں ہوتی ہیں۔ وہ ہر معاملے میں آپے سے باہر نہیں ہوتے۔ جس معاملے سے اُنہیں تکلیف پہنچی ہو اُسی کے حوالے سے اُن کا ذہن الجھا ہوا ہوا ہوتا ہے اور جیسے ہی وہ معاملہ سامنے آتا ہے وہ آپے سے باہر ہونے لگتے ہیں۔ جن معاملات سے کوئی بھی ذہنی مریض شدید تکلیف میں مبتلا ہوا ہو اُن کے تذکرے کے لیے چند خاص جملے مختص ہوتے ہیں۔ جب وہ جملے دہرائے جاتے ہیں تو چھپا ہوا ذہنی مرض فوراً سامنے آ جاتا ہے۔ ذہنی امراض کے ماہرین آپ کو بتائیں گے کہ کسی بھی ذہنی مریض کے ذہن میں طوفان اٹھانے والا، جذبات میں شدید ہلچل پیدا کرنے والا بٹن کون سا ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایک چھوٹا سا جملہ بھی کسی ذہنی مریض کو دیکھتے ہی دیکھتے ناقابلِ تصرف بنادیتا ہے۔ کراچی میں ایک کیس ایسا تھا کہ ذہنی مریض جی بھرکے باتیں کرتا تھا۔ دنیا بھر کی باتیں کیجیے، گپ شپ جاری رہے گی۔ ہم شناخت چھپانے کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ مریض کا نام سلیم تھا۔ آپ اُس کے ساتھ دنیا بھر کی باتیں کرتے رہیے، کچھ بھی ایسا ویسا نہ ہوگا۔ جہاں آپ نے کہا ''سلیم بھائی، پولیس آئی‘‘ اور وہ صاحب ہتھے سے اُکھڑے۔ یہ گویا اُن کا ''بٹن‘‘ تھا۔ اِس بٹن کے دبتے ہی منظر بدل جاتا تھا۔ پھر سلیم بھائی کو کنٹرول کرنا انتہائی دشوار ہوتا تھا۔ ہم میں سے کوئی ذہنی مریض ہو یا نہ ہو، اُس کا کوئی نہ کوئی بٹن ضرور ہوتا ہے۔ اِس بٹن کے دبنے کی دیر ہوتی ہے کہ ذہن کے خانے کھلنے لگتے ہیں۔ سماجی معاملات میں بٹن کی بہت اہمیت ہے۔ بٹن ہی کی بنیاد پر ذہن کنٹرول ہوتے ہیں۔ کاروباری دنیا تشہیر کے معاملے میں بٹن کا فائدہ خوب اٹھاتی ہے۔ ہر انسان چند معاملات میں حساس ہوتا ہے۔ نفسی امور کے ماہرین جمع کردہ معلومات کے تجزیے کی بنیاد پر کسی نتیجے تک پہنچتے ہیں اور تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اُن تجاویز کی بنیاد پر تشہیر کی جاتی ہے۔ مارکیٹنگ میں بھی بٹن کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ثابت ہوتا ہے۔ مارکیٹنگ میں صارفین کو اُن کی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہدف بنایا جاتا ہے۔ پسند و ناپسند کا اندازہ رائے عامہ کے جائزوں اور سوالوں ناموں کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ مارکیٹنگ کے ماہرین بھی بٹن کو ذہن میں رکھتے ہیں یعنی اُنہیں اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ لوگوں کی دُکھتی رگ کون سی ہے۔ دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے تشہیر کے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں، لوگوں باور کرایا جاتا ہے کہ اُن کی جنت چند قدموں یا ایک فیصلے کے فاصلے پر ہے یعنی بس زیرِ نظر اشتہار کے مطابق فیصلہ کرنے کی دیر ہے۔
روزمرہ گفتگو میں بھی ہمیں دیکھنا ہوتا ہے کہ کس کو کیسی بات اچھی لگتی ہے۔ اگر کسی کو خوش کرنا ہو تو ہم اُس کی پسند کے موضوع پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ جن باتوں سے اُسے خوشی ملتی ہو اُسی بات کو ہم ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں بھی بات گھما پھراکر بٹن تک پہنچتی ہے۔ اِسی طور اگر کسی کو تکلیف پہنچانی ہو تو ہمیں وہ بٹن تلاش کرنا پڑتا ہے جس کے دبنے سے اُس شخص کو تکلیف پہنچے یعنی دیکھنا پڑتا ہے کہ کن باتوں سے وہ کس حد تک پریشان ہوتا ہے۔ جو باتیں کسی کو پریشان کرتی ہیں، ذہن کو الجھاتی ہیں وہ مخالفین کے لیے بہترین اور انتہائی کارآمد بٹن کا درجہ رکھتی ہیں۔
جن باتوں سے آپ کو رغبت ہے وہ آپ کے لیے بٹن کا درجہ رکھتی ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ سے اُن معاملات کے بارے میں بات کیا کریں جو آپ کو بہت پسند ہیں۔ بالکل اِسی طور آپ بھی اگر کسی سے بہتر روابط کے حامل رہنا چاہتے ہیں، تعلقات کو زیادہ بارآور بنانا چاہتے ہیں تو ناگزیر ہے کہ اُس کی پسند و ناپسند کا خیال رکھیں یعنی اُسے مشتعل کرنے والا بٹن دبانے سے گریز کریں اور جس کے دبنے پر اُس کی طبیعت کِھل اٹھتی ہے بس وہی بٹن دبائیں۔ یہ معاملہ مستقل بنیاد پر توجہ طلب ہے۔ آپ کو حالات کے مطابق اپنے سوچ کا جائزہ لینا پڑے گا، لوگوں کی پسند و ناپسند پر بھی نظر رکھنا پڑے گی۔
آج کل ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ لوگ مختلف حوالوں سے بھرے رہتے ہیں اور کسی جواز کے بغیر کسی کے سامنے بھی پھٹ پڑتے ہیں۔ ماحول کا دباؤ اس قدر ہے کہ لوگوں کے لیے اپنے ذہن کو قابو میں رکھنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا لازم ہے کہ کہیں بھی کوئی ناپسندیدہ بٹن نہ دبے۔ بات احتیاط سے کیجیے اور فضول بحث میں الجھنے میں سے یکسر گریز کی عادت اپنائیے۔ اور ہاں‘ اپنے بٹنوں کا بھی خیال رکھیے۔