"MIK" (space) message & send to 7575

کون سی دولت؟

انسان دولت کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ یہ تعاقب مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔ جو لوگ سادہ زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں اُن سے تو کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں‘ جو لوگ زندگی بھر صرف دولت کی طلب میں مگن رہتے ہیں اُن سے دولت کی حقیقت کے بارے میں پوچھئے تو بہت سادگی سے فوراً جواب دیتے ہیں: دنیا کی دولت تو محض فریب ہے‘ جو یہاں کا ہے وہ یہیں رہ جانا ہے، کوئی بھی کچھ ساتھ لے کر قبر میں نہیں جائے گا! آپ سوچیں گے جب سب کچھ یہیں رہ جانا ہے تو پھر یہ بھاگ دوڑ کیوں، حرام و حلال کے فرق کو نظر انداز کرنے کی روش کیوں؟ اِس حوالے سے بات کیجیے تو دُنیوی دولت کے متوالے آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ دُنیوی دولت کا عجیب ہی معاملہ بلکہ مخمصہ ہے۔ لوگ اِس کے حصول کے لیے بے تاب بھی رہتے ہیں اور اِس کے بے وقعت ہونے کا راگ بھی الاپتے رہتے ہیں۔ دنیا میں قیام عارضی ہے۔ دنیا کا ہر انسان اِس بدیہی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔ جو کسی مذہب کے پیرَو ہیں اور یومِ حساب پر یقین رکھتے ہیں وہ تھوڑا بہت خوف بھی رکھتے ہیں کہ کل کو حساب دینا ہے۔ جو کسی مذہب کے پیرو نہیں اور خالص دُنیوی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اُن کے ذہن میں بھی کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ یہاں کا سب مال و زر یہیں رہ جانا ہے اور ہمیں ایک روز خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہو جانا ہے تو ہر معاملے میں بہت زیادہ دلچسپی کیوں لی جائے اور ہر وقت دولت کے حصول کی خواہش کے آستانے پر سجدہ ریز کیوں رہا جائے۔ دنیا کو بے وقعت بھی سمجھنا اور اِس کے حصول کے لیے سارے اُصولوں اور اقدار کو داؤ پر بھی لگانا‘ یہ محض دوغلا پن ہے، اور کچھ نہیں۔ یہ دوغلا پن ہر دور کے انسان کی نفسی ساخت سے چمٹا رہا ہے۔
چار دن کی زندگی کو چار چاند لگانے کی کوشش میں یومِ حساب کے بعد کی ابدی زندگی کو مکمل تاریکی کی نذر کردینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ یہ تو جہالت اور حماقت کی انتہا ہے۔ ہر دور کے اہلِ دانش نے عام آدمی کو بتایا ہے کہ اِس دنیا کے عارضی قیام کو زیادہ سے زیادہ رنگین بنانے کے لیے اِس کے بعد کی دنیا کو رنگوں سے محروم کرنا کسی بھی درجے میں معقول رویہ نہیں۔ عقلِ سلیم رکھنے والا ہر انسان اِس بات کو کسی نہ کسی حد تک سمجھتا ہے کہ دنیا کے پیچھے بھاگنا حماقت ہے مگر ذہن کی ناپختگی کا یہ عالم ہے کہ لوگ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلتے رہتے ہیں۔ ڈیڑھ سال قبل افریقی ملک گھانا میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ایک ریڑھی والے کو بہت سی دولت پانے کی خواہش لاحق تھی۔ وہ راتوں رات اِتنی دولت پانا چاہتا تھا کہ باقی زندگی کچھ نہ کرنا پڑے۔ اِس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ اگر ڈاکا ڈالتا تو جان کا جوکھم تھا۔ کامیاب ڈاکا اُسے راتوں رات امیر بناسکتا تھا مگر اُس نے یہ راہ نہیں چُنی کیونکہ جان کا جوکھم تھا۔ جب جان ہی نہ رہے تو دولت کس کام کی؟ اُس نے وہ راہ منتخب کی جس میں اپنی جان کو کچھ خطرہ نہ تھا اور دولت مند بننے کی خواہش کے پورا ہونے کا سامان تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کس کی جان کو خطرہ لاحق ہوا؟
33 سالہ پرنس اکوائے نے ایک عامل سے رابطہ کیا تاکہ راتوں رات دولت مند بننے کی راہ دکھائی دے۔ عامل نے اُسے پٹی پڑھائی کہ وہ راتوں رات امیر بننے کے لیے اگر کسی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائے تو عمل بتایا جاسکتا ہے۔ پرنس اکوائے نے رضامندی ظاہر کی تو عامل نے عمل بتایا اور کہا کہ عمل مکمل کرکے کسی کو سمندر میں پھینک دے! پرنس اکوائے نے ایک دن سمندر کی سیر کا پروگرام بنایا۔ اپنی پارٹنر ایبی گیل نیومور اور دو سالہ بچے کو ساتھ لیا اور ساحل پر پہنچ گیا۔ ساحل پر تھوڑی چہل قدمی اور بھاگ دوڑ کے بعد جب ایبی گیل آرام کر رہی تھی تب پرنس اکوائے نے دو سالہ بچے کو لیا اور عمل کر کے اُسے سمندر میں پھینک دیا!
ایک جاہل نے عارضی نوعیت کی دُنیوی دولت کی خاطر اصلی دولت ہی کو سمندر میں پھینک دیا! یہ ہے اِس دنیا کی حقیقت۔ انسان واحد جاندار ہے جسے شعور کی دولت عطا کی گئی ہے۔ اور اِس جاندار کا یہ حال ہے کہ جب اپنے وجود کو بے توقیر کرنے پر آتا ہے تو شاید کیڑے مکوڑے بھی دیکھ کر شرما جائیں۔ اِتنی عقل تو قدرت کی طرف سے ہر مخلوق کو عطا کی گئی ہے کہ اپنے حقیقی نقصان کا اندازہ لگاکر سب کچھ خواہ مخواہ داؤ پر لگانے سے گریز کرے۔ درندے اور چوپائے بھی اپنے فائدے کے لیے اولاد کو یوں داؤ پر نہیں لگاتے بلکہ شکاری پیچھے پڑا ہو تو اپنے بچوں کو بچانے کے لیے خود کو آگے کردیتے ہیں، اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں۔ جنگل کی بہت سی وڈیوز دیکھ کر یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے۔ یہ ''شرف‘‘ تو انسان ہی کو عطا ہوا ہے کہ ذرا سے اور عارضی فائدے کے لیے اپنے پیاروں کو بھی موت کے گھاٹ اُتارنے سے دریغ نہیں کرتا۔ ترقی یافتہ معاشروں کو چھوڑ کر باقی دنیا میں آج بھی ایسے جاہل پائے جاتے ہیں جو تھوڑے سے دُنیوی فائدے کی خاطر کسی کی باتوں میں آکر اپنے پیاروں کو بھی موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے معاشروں میں دولت کی خاطر اولاد کو قربان کرنے والے آج بھی پائے جاتے ہیں۔ بھارت اِس معاملے میں پہلے نمبر پر ہے کیونکہ وہاں تنتر وِدیا اور جادو وغیرہ پر یقین رکھنے والوں کی تعداد آج بھی کروڑوں میں ہے۔ ستاروں کی چال میں اپنا مقدر تلاش کرنے والے بھی کم نہیں۔ ہر موقع کے لیے مہورت نکالنا آج بھی بھارتی معاشرے کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ ہزار سال سے ہندوؤں کے ساتھ رہتے رہتے برصغیر کے مسلمانوں نے بھی اِس حوالے سے بہت کچھ اخذ کرلیا ہے اور یہ سب ہماری اجتماعی نفسی ساخت کا حصہ ہے۔ اِس دنیا کی حقیقت کو سمجھنا کوئی کمال کی بات نہیں۔ ہر انسان جب چاہے تھوڑا سا غور و فکر کرے اور دنیا کو سمجھ لے۔ سوال سمجھنے کا نہیں‘ جو سمجھ میں آجائے اُس کے مطابق جینے کا ہے۔ عمل کے معاملے میں انسان کی مَت ماری جاتی ہے۔ ایک گھنٹے کا وعظ سُن کر بہت کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے مگر جب عمل کی گھڑی آتی ہے تب سارے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔
ہر دور کے انسان کو دنیا کی حقیقت کے بارے میں بتانے کی ضرورت رہی ہے۔ آج یہ ضرورت بہت زیادہ ہے کیونکہ آج کی دنیا بہت رنگین ہے۔ یہ رنگینیاں انسان کو بہت تیزی سے اپنی طرف مائل کرتی ہیں اور اِنسان اِن کا حصول یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کے لیے بہت تیزی اور آسانی سے تیار ہو جاتا ہے۔ اب دُنیا کی موہ مایا اِتنی زیادہ ہے کہ انسان تمام اقدار اور اُصولوں کو داؤ پر لگانے میں کوئی خاص قباحت محسوس نہیں کرتا۔ آج کے انسان کا ذہن چونکہ بہت الجھا ہوا ہے اِس لیے اُسے درست حالت میں لانے کے لیے متعلقہ ماہرین کو غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ خاصی دقیق نوعیت کی منصوبہ سازی کے ذریعے ایسا مواد تیار کرنا پڑتا ہے جو انسان کو راہِ راست پر آنے کی تحریک دے، اپنی حدود میں رہنا سکھائے، دُنیا کے مایا جال میں پھنسنے سے روکے اور خدا سے لَو لگانے کی توفیق دے۔
آج کا انسان مذہب سے بہت دور ہے۔ ہم بہت سوں کو دیکھتے ہیں کہ عبادات میں مصروف رہتے ہیں مگر اُن کی زندگی میں کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ معاملہ یہ ہے کہ اُن میں مذہب نہیں، صرف مذہبیت یہ ہے۔ یہ سب ایک رسم ہے۔ دینی تعلیمات کو دِل سے لگانا اور اُن پر عمل کرنا اور بات ہے جبکہ اُن کو رسمی طور پر اپنانا اور چیز ہے۔ دُنیا کی رنگینی اِس لیے نہیں ہوتی کہ اِس میں گم ہوکر آخرت کو بھلادیا جائے۔ دُنیا کا مال بھی اِس لیے نہیں ہوتا کہ اِس کے حصول کے لیے آخرت سمیت سبھی کچھ داؤ پر لگادیا جائے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ نرے احمق ہیں۔ دُنیوی دولت کا حصول بہت اچھی بات سہی مگر اِس کے لیے ایمان اور ضمیر سمیت سبھی کچھ بیچ ڈالنا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ اِس جہالت سے بچنے کا اہتمام کرتے رہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں