"MIK" (space) message & send to 7575

اور کتنا جینا ہے ؟

ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ہم اُتنا ہی جیتے ہیں جتنا قدرت نے لکھا ہوتا ہے اور اِس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بھی کسی طرح کا تذبذب محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ قدرت نے ہمارے لیے اِس دنیا میں قیام کی جو میعاد مقرر کی ہے وہی بہترین ہے۔ کسی کے حالات اچھے ہوں تب بھی اور بُرے ہوں تب بھی اُتنی ہی زندگی بہترین ہے جو قدرت کی متعین کردہ ہے۔ بہت طویل عمر کی خواہش سے تو مجتنب رہنے کو کہا گیا ہے۔ انسان بہت جینا چاہتا ہے۔ کوئی بھی اوسط درجے کی عمر نہیں چاہتا۔ اِس دنیا کی رنگینیاں یوں دامن گیر رہتی ہیں کہ انسان بُرے حالات سے دوچار ہونے پر بھی یہاں سے رخصت ہونے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ قیام یقینی بنایا جائے۔ ایسا کرنا سب کے لیے ممکن نہیں کیونکہ یہ کوئی مفت کا معاملہ نہیں۔ زیادہ جینے کے قابل ہونے کے لیے اول تو صحت کا عمومی معیار بلند کرنا پڑتا ہے اور پھر اِتنا بھی کافی نہیں ہوتا۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے جسم کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے پر بھی متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ صحت کا اعلیٰ معیار عمر کی طوالت یقینی بنانے کا ضامن نہیں ہوتا۔ اچھی صحت انسان کو ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل بناتی ہے، عمومی عوارض سے بچنے میں مدد دیتی ہے اور شب و روز کی بے جا تھکن سے بچاتی ہے۔ اِس سے آگے جانے کے لیے انسان کو مزید بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔
دنیا بھر میں ماہرین اوسط عمر میں دو تین عشروں کا اضافہ یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ بیشتر معاشروں میں حالاتِ زندگی انتہائی پست نوعیت کے ہیں۔ پس ماندہ معاشروں کا یہ حال ہے کہ لوگ دو وقت کی روٹی کا حصول یقینی بنانے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے میں جسم کے اندر واقع ہونے والی شکست و ریخت سے بچنے کا اہتمام کرنے کے بارے میں کون سوچے؟ اور اگر سوچ بھی لے تو کیا اور کہاں سے خرچ کرے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی کو طویل عمر درکار ہے تو صحت کا عمومی معیار بلند کرنے کے مرحلے میں اٹک کر نہ رہ جائے بلکہ اِس سے کئی قدم آگے جاکر جسم کو اندرونی شکست و ریخت سے بچانے پر متوجہ ہو۔ جسم بڑھاپے کی طرف صرف ایک صورت میں جاتا ہے‘ جب خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہوتی ہے اور نئے خلیوں کی تشکیل کا عمل سست پڑ جاتا ہے۔ ہمارا جسم جب تک توانا رہتا ہے تب تک مردہ خلیوں کی جگہ نئے خلیے پیدا کرتا رہتا ہے۔ جب یہ عمل سست پڑتا ہے تب ہم کمزوریاں محسوس کرتے ہوئے بڑھاپے کی طرف لڑھکتے جاتے ہیں۔ جسم جب اندرونی کمزوریوں کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے تب اُسے بحالی کی طرف لانے میں بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ بعض کمزوریاں جڑوں میں بیٹھ جاتی ہیں اور اُن سے نجات پانا ایسا آسان نہیں ہوتا جیسا دکھائی دیتا ہے۔ خوراک کے ساتھ سپلیمنٹ کے طور پر تجویز کی جانے والی دوائیں (ٹانک وغیرہ) ایک خاص حد تک ساتھ دیتی ہیں۔ صحت ایک بار لڑھکے تو لڑھکتا ہی چلی جاتی ہے۔
آج دنیا بھر میں ہر شعبے کے ماہرین بھرپور دادِ تحقیق دینے میں مصروف ہیں۔ ایسے موضوعات پر بھی تحقیق ہو رہی ہے جن کے بارے میں ہم کبھی سوچتے بھی نہیں۔ جنہیں دن رات تحقیق کا بازار گرم رکھنا ہے یعنی جیب بھرنے کا اہتمام کرنا ہے وہ موضوعات خود پیدا کرتے ہیں اور پھر یوں دادِ تحقیق دیتے ہیں کہ دیکھیے تو دیکھتے رہ جائیے۔ ایک بنیادی تحقیق بڑھاپے کو ٹالنے کے حوالے سے بھی ہو رہی ہے اور اِس تحقیق کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والا طریقِ علاج بھی بہت مقبول ہے۔ یہ بڑوں یعنی امیروں کا کھیل ہے۔ عام آدمی دو وقت کی روٹی کا اہتمام ممکن بنالے تو بڑی بات ہے۔ زیادہ جینے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو کچھ کرنا اور خرچ کرنا پڑتا ہے اُس کے بارے میں عام آدمی بے چارہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں صحت کا عمومی معیار خاصا بلند ہونے سے اوسط عمر تھوڑی زیادہ ہے مگر خیر‘ یہ معاملہ اوسط عمر تک ہی رہتا ہے۔ وہاں بھی کسی کو نمایاں طویل عمر درکار ہو تو سو جتن کرنے پڑتے ہیں اور جیب اچھی خاصی ڈھیلی کرنی پڑتی ہے۔
خورد حیاتیات کی ایک شاخ بائیو جیرونٹولوجی ہے۔ اس میں بنیادی تحقیق اس امر پر کی جاتی ہے کہ جسم میں خلیوں کو شکست و ریخت سے کیسے بچانا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کون سے جینز ہیں جو بیماریوں کے خلاف لڑنے میں نمایاں حد تک اور قابلِ رشک نوعیت کی مدد کرتے ہیں۔ بعض جانور غیر معمولی عمر پاتے ہیں۔ کچھوے اور ہاتھی طویل عمر پاتے ہیں۔ بعض وہیل مچھلی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ماہرین اِن حیوانات میں ایسے جینز کا سراغ لگارہے ہیں جو سرطان اور دیگر جان لیوا امراض سے دفاع میں جسم کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ یہ تحقیق انسانوں بھی عمر کا دورانیہ بڑھانے میں غیر معمولی مدد فراہم کرسکتی ہے۔ انگلینڈ کی برمنگھم یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف اینٹی ایجنگ میں بائیو جیرونٹولوجی کے ماہر ڈاکٹر جوآؤ پیڈرو ڈی میگلہیز کہتے ہیں کہ اگر انسان خلیوں میں واقع ہونے والی شکست و ریخت پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے تو محض طویل نہیں بلکہ بہت طویل عمر بھی پاسکتا ہے۔ اُن کا استدلال ہے کہ خلیوں کی شکست و ریخت کا عمل نمایاں حد تک روکنے میں کامیابی انسان کو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سال زندہ رہنے کے قابل بناسکتی ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے انسان اپنے جسم کے خلیوں میں شکست و ریخت کا عمل روکنے کی صورت میں بیس ہزار سال بھی جی سکتا ہے!
دنیا بھر میں longevity یعنی عمر کی طوالت کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق نمایاں حد تک زیادہ جینے کی گنجائش پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ چند معاشروں میں لوگ اپنی طرزِ زندگی کی بنیاد پر ویسے ہی زیادہ جیتے ہیں۔ جاپان اِس کی نمایاں مثال ہے۔ دنیا بھر کے سرد پہاڑی علاقوں میں لوگ زیادہ جیتے ہیں کیونکہ اول تو وہ مصنوعی یعنی کیمیکلز والی اشیا کم کھاتے ہیں، مرغن خوراک سے پرہیز کرتے ہیں، خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کو نمایاں مقام دیتے ہیں۔ اُن کے علاقوں کا ماحول آلودگی سے بہت حد تک پاک ہے۔ ورزش یومیہ معمولات کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں وہ دنیا بھر کے لاحاصل معاملات کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان نہیں ہوتے رہتے۔
اخلاقی سطح پر ایک اہم سوال یہ ہے کہ انسان آخر زیادہ جینا کیوں چاہتا ہے۔ دنیا کی رنگینیاں کم نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہیں مگر یہ سب تو محض مادّیت کا معاملہ ہے۔ اِس دنیا کی ساری رونق مادّیت یعنی ظاہر کی سطح پر بڑھ رہی ہے۔ باطن تو پھیکے رنگوں کا، بے رونق اور تاریک ہے۔ جسم قابلِ رشک حد تک توانا ہو بھی تو کیا اگر روح کمزوریوں سے متصف رہے؟ سوال یہ ہے کہ ہم اِس دنیا میں بہت دیر رہ کر کریں گے کیا۔ بہت جینے کا کوئی مقصد بھی تو ہونا ہی چاہیے۔ جاپان میں 90 اور 100 سال کے درمیان کی عمر والوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے پر بھی اُن کا جسم اُتنا ہی توانا ہوتا ہے جتنا پس ماندہ معاشروں میں پینتیس چالیس سال والے آدمی کا ہوتا ہے۔ ایسے میں اُن کے پاس نیا کیریئر شروع کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ جاپان کے معمر افراد کو اپنے لیے کوئی نہ کوئی مصروفیت تلاش کرنا پڑتی ہے۔ کمانے کی منزل سے کامیاب گزرنے کی صورت میں بڑھاپے کے لیے اتنا کچھ پاس ہوتا ہے کہ وہ لڑھکتی ہوئی عمر میں بہت سے کام محض اپنے ماحول کی خوشی کے لیے کرتے ہیں یعنی بلا معاوضہ خدمات فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاک خانے سے وابستہ ہوکر لوگوں تک ڈاک پہنچانا، بچوں کے ساتھ وقت گزارنا وغیرہ۔ کوئی واضح مقصد نہ ہو تو قابلِ رشک طویل عمر وبال سے کم نہیں ہوتی۔ طویل عمر اُسی وقت کام کی ہوتی ہے جب اپنے لیے یا دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا منصوبہ ذہن میں ہو۔ ٹیکنالوجیز اور دواؤں کی مدد سے ممکن بنائی جانے والی طویل عمر بھی قدرت ہی کی مرضی سے طے شدہ ہوتی ہے۔ اگر ذہن نے کچھ کرنے کا طے نہ کیا ہو تو طویل عمر محض سوہانِ روح ثابت ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں