"MIK" (space) message & send to 7575

زندگی انتظام و انصرام چاہتی ہے

اپنے تمام معاملات کو ہم کئی خانوں میں تقسیم کرسکتے‘ رکھ سکتے ہیں۔ ایک طرف معاشی معاملات ہیں اور دوسری طرف معاشرتی معاملات۔ کچھ معاملات ہمارے لیے مکمل طور پر خانگی ہوتے ہیں اور کچھ ایسے کہ جن میں دوسروں کی شرکت و شمولیت ناگزیر ہوتی ہے۔ تب ہم تنہا کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم زندگی کو جتنے بھی خانوں میں رکھتے ہیں وہ تمام خانے ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوئے بھی الگ نہیں ہیں۔ اِن سب کا آپس میں ربط ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ربط ہے تو خانوں کا الگ ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ بات یہ ہے کہ تمام معاملات کو گڈمڈ نہیں کیا جاسکتا۔ باہم ربط رکھنے پر بھی معاملات کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے کی اپنی سی کوشش تو کی ہی جانی چاہیے تاکہ زیادہ خرابیاں پیدا نہ ہوں۔ اِسی کا نام انتظام و انصرام ہے۔
کل تک زندگی اِتنی سادہ تھی کہ عام آدمی کو زیادہ سوچنا نہیں پڑتا تھا۔ تب وہی لوگ سوچنے کی طرف جاتے تھے جو دوسروں سے بہت بلند ہوکر کچھ پانا چاہتے تھے۔ تب کسی بھی معاشرے کے تمام شعبے اپنے اپنے مقام پر مضبوط ہوا کرتے تھے۔ ایک دوسرے سے ربط ہونے پر بھی وہ اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ تب کسی بھی شعبے کو کسی اور شعبے یا باقی معاشرے سے ایسے خطرات لاحق نہیں ہوتے تھے کہ بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہو۔ جب مادّی سطح پر حیران کُن ترقی ممکن نہیں ہو پائی تھی تب زندگی پیچیدہ نہ تھی۔ ٹیکنالوجیز اِتنی اور ایسی نہ تھیں کہ انسان کچھ سمجھ ہی نہ پائے‘ کچھ کر ہی نہ پائے۔ آج کے انسان کی طرح اُس دور کے انسان کو ایسی ٹیکنالوجیز کا سامنا نہ تھا جو زندگی کو قدم قدم پر الجھنوں سے دوچار کریں۔ ہم بہت پرانے زمانوں کی بات نہیں کر رہے۔ 1970ء کے عشرے تک زندگی انتہائی سادہ تھی۔ ٹیکنالوجیز کی بھرمار نہیں تھی۔ زندگی میں بہت زیادہ آسانیاں نہیں تھیں۔ انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا تھا۔ یہ مشکلات ہی اُس کے لیے سکونِ قلب کا ذریعہ تھیں۔ تب ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ کرنا ناگزیر تھا۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایسی حالت میں زندگی کا ڈھانچا الگ تھا۔ لوگ جانتے تھے کہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر کچھ بھی حاصل نہ ہو پائے گا۔ کسی کو ذرا سی بھی آسائش درکار ہوتی تھی تو اُس کے لیے محنت کے مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا۔ مشقّت کے بغیر زندگی کو آسان بنانا ممکن نہ تھا۔
آج معاملہ یہ ہے کہ قدم قدم پر آسانیاں ہیں‘ ایسی آسانیاں جو زندگی کو دشوار سے دشوار تر بناتی جاتی ہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں قدم قدم پر حیران کُن آسانیاں دامن گیر رہتی ہیں۔ یہ کیفیت ہمارے لیے سوہانِ روح ہوکر رہ گئی ہے۔ ہم جن آسانیوں کے خواب دیکھا کرتے تھے اُنہوں نے حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے لیے صرف الجھنوں کا سامان کیا ہے۔ آج کا انسان اِس اعتبار سے مصیبت زدہ ہے کہ اُس کی زندگی میں آسانیوں کے ہاتھوں انتہائی نوعیت کی مشکلات در آئی ہیں۔ وہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی سمجھ نہیں پارہا کہ کرے تو کیا کرے۔ ایک طرف دنیا ہے جس سے نبھانا ناگزیر ہے اور دوسری طرف خانگی زندگی۔ زندگی کے یہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے بُری طرح متصادم ہیں کیونکہ دونوں ہی ایک دوسرے میں پیوست ہونے کو بے تاب رہتے ہیں۔ اب کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُس کی خانگی زندگی الگ ہے اور معاشی و معاشرتی زندگی کچھ اور ہے۔ معاشی معاملات میں بھی معاشرتی پہلو مداخلت سے باز نہیں رہتے۔ بالکل اِسی طور خالص کاروباری یا پروفیشنل معاملات میں نجی زندگی کے بہت سے پہلو یوں دکھائی دیتے ہیں کہ انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ جب معاشی اور غیر معاشی پہلو ایک دوسرے سے متصادم ہوں اور ایک دوسرے میں مداخلت بھی کرنے پر تُلے ہوں تب انسان کے لیے قابلِ اعتبار توازن کے ساتھ جینا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ آج کے انسان کو اِسی بحران کا سامنا ہے۔ عمر کا ایک بڑا حصہ تو یہ سوچنے ہی میں کھپ رہا ہے کہ معاملات کو سلجھانے کی تدبیر ہو تو کیا ہو، زندگی کو توازن میں لایا جائے تو کیسے لایا جائے۔ کبھی آپ نے چھوٹے، درمیانے اور بڑے‘ تینوں طرح کے کاروباری اداروں کے انتظام و انصرام کے بارے میں سُنا اور سوچا ہے؟ بڑے کاروباری اداروں کو چلانے کے لیے انتظامیہ کے نام پر قابل ترین افراد کا تقرر کیا جاتا ہے۔ اِن پروفیشنلز کے ذریعے بڑے کاروباری ادارے ایک طرف قابل ترین افراد کی بھرتی ممکن بناتے ہیں اور دوسری طرف اِن کے ذریعے ادارے کی مالی حیثیت کو مستحکم رکھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ مالیاتی امور کے ماہرین ادارے کے مالکان کو وہ نتائج دیتے ہیں جو ادارے کو آگے لے کر جائیں۔ یہی اُن کے تقرر کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ لاگت پر نظر رکھنے والے اکاؤنٹنٹس کا بنیادی کام لاگت کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے تاکہ تمام ایسے اخراجات سے جان چھوٹ جائے جن سے جان چھڑائی جاسکتی ہو۔ منافع اِسی طور بڑھتا ہے۔ یہی حال ادارے کے دوسرے معاملات کا بھی ہوتا ہے۔ انتظامیہ میں شامل ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ ادارے کو تمام فضول اخراجات سے بچائیں اور کارکردگی بہتر بنانے کی راہ ہموار کریں۔
آج کے انسان کو بھی اپنی ذات کے انتظام و انصرام کے لیے وہی طریقِ کار اپنانا ہے جو کاروباری اداروں کو چلانے کے لیے اپنایا جاتا ہے۔ جس طور کاروباری ادارے اپنے تمام فضول اور لاحاصل اخراجات سے جان چھڑانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں بالکل اُسی طور ہر انسان کو بھی سوچنا چاہیے کہ اُس کی زندگی میں ایسا کیا کیا ہے جس سے جان چھڑانا لازم ہے۔ ہم سب میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارا ہے نہ ہمارے کسی کام کا ہے۔ ہم پہاڑوں پر یا ویرانوں میں تو رہتے نہیں۔ انسانوں کے درمیان رہنے کی صورت میں بہت کچھ ہماری زندگی کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے اور ہم لاکھ کوشش کرنے پر بھی جان چھڑانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اِس ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ زندگی کو فضول معاملات اور لاحاصل باتوں سے نجات دلانے کے لیے جو تربیت درکار ہے وہ ہم حاصل نہیں کرتے۔ اِس معاملے میں کسی سے مشاورت کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ ہم سب اپنے اپنے طور جی رہے ہوتے ہیں۔ جس طور کسی شعبے میں کامیابی کے لیے متعلقہ تعلیم و تربیت لازم ہوا کرتی ہے اور عملی پہلو کے حوالے سے مشاورت بھی ناگزیر ہوتی ہے بالکل اُسی طور زندگی بسر کرنے کا فن بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ خود بخود واقع ہو جانے والا معاملہ نہیں۔ اگر چبوترا بنانا ہو تو سیمنٹ، بجری، پتھر اور دیگر لوازم کو ایک جگہ جمع کردینا کافی نہیں۔ اِن تمام اشیا کو ملاکر چبوترا ''بنانا‘‘ بھی پڑتا ہے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ زندگی کا ہے۔ بیشتر معاملات میں ہم نے تصور کر رکھا ہے کہ مطلوب مالیاتی وسائل کا انتظام کرلینا کافی ہے۔ ایسا نہیں ہے! مال و زر کا سامنے یا ہاتھ میں ہونا کافی نہیں ہوتا۔ مال و زر کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے ہی پر کچھ ہو پاتا ہے۔ بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ مضبوط مالی حیثیت کا حامل ہونے کو کافی سمجھتے ہوئے بچوں کی بہتر تربیت کا اہتمام نہیں کرتے۔ اُن کے ذہن میں یہ گرہ پڑچکی ہے کہ پیسہ ہے تو سارے کام ہو جائیں گے۔ صرف پیسے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سوچنا پڑتا ہے، انتظام و انصرام کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کاروباری اداروں کی طرح ہماری زندگی بھی قدم قدم پر انتظامی اقدامات کی طالب رہتی ہے۔ جو کچھ ہمارے گرد و پیش رونما ہو رہا ہے وہ ہم پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ایسے میں لازم ہے کہ ہم اپنے وجود اور گھر کے ماحول کو باقی معاشرے کے منفی معاملات کے زیرِ اثر آنے سے روکنے کے لیے سوچیں‘ اس پر متوجہ ہوں۔ یہ کام انتظامی سطح کا ہے۔ جو لوگ انتظامی سوچ رکھتے ہیں وہ قدم قدم پر فضول معاملات کو زندگی سے خارج کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ آپ کو بھی یہ ہنر آزمانا ہے۔ اگر خود کچھ نہیں سمجھ پارہے تو کوئی بات نہیں۔ شرمندہ ہوئے بغیر یہ ہنر سیکھئے۔ ماہرین موجود ہیں۔ اُنہیں پڑھیے، اُن کے مشوروں سے مستفید ہوتے رہیے۔ یہ عمل تسلسل مانگتا ہے یعنی آپ کو زمانے سے ہم آہنگ ہونے اور زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے لیے بہت کچھ سیکھتے رہنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں