دنیا بھر میں علم و فن کے حوالے سے رجحانات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ نئی نسل مستقبل کے بارے میں خوب سوچتی ہے، سو سپنے پلکوں پر سنجوتی ہے۔ آنے والے زمانے کی بے یقینی کے پیشِ نظر اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ تیاری کی حالت میں رکھنے پر توجہ دینے کا رجحان آج بھی کمزور نہیں پڑا۔ پھر بھی بعض معاملات کو نظر انداز کرنے سے کامیاب کیریئر کی طرف بڑھنے میں الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ نئی نسل کے لیے تعلیم اور تربیت دونوں ہی بہت اہم ہیں؛ تاہم تعلیم کو آج بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں عمومی یا روایتی سا معاملہ ہے کہ دسویں جماعت میں کامیابی کے بعد چودھویں جماعت تک کالج میں پڑھا جائے۔ کالج کی تعلیم پوری دنیا میں کیریئر کے حوالے سے معیاری گردانی جاتی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ کالج کی تعلیم انسان کو تابناک مستقبل کے لیے اچھی طرح تیار کرتی ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ آج کی دنیا میں تعلیم کے حوالے سے طرزِ فکر و عمل تبدیلی ہوچکی ہے۔ کالج کی ڈگری کو کسی دور میں غیر معمولی اہمیت دی جاتی تھی۔ فی زمانہ کالج کی ڈگری کو سب کچھ سمجھنے کا چلن عام نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اب ڈگری کی اہمیت یا وقعت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
دنیا بھر میں ڈگریوں کی اہمیت گھٹ رہی ہے۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ عشروں تک چلن یہ رہا ہے کہ جس کے پاس اعلیٰ ڈگری ہو اُسے ملازمت دے دی جائے۔ اِس کے نتیجے میں یہ دیکھنے کا چلن عام نہ ہوسکا کہ جسے ملازمت دی جارہی ہے اُس کے پاس مطلوب قابلیت بھی ہے یا نہیں۔ کالج؍ یونیورسٹی کی ڈگری کو کافی سمجھ لینے کی صورت میں دنیا بھر کے کاروباری اداروں کو قابلِ اعتماد پروفیشنلز کی خدمات حاصل کرنے میں الجھنوں کا سامنا رہا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کبھی لازم نہیں رہا کہ جس کے پاس ڈگری ہو اُس کے پاس قابلیت بھی ہو۔ کالج کی سطح پر جو بھی تعلیم ملتی ہے وہ لازمی طور پر قابلیت پیدا نہیں کرتی۔ کالج میں انسان بہت کچھ سیکھتا ہے مگر کبھی کبھی وہ ایسا بہت کچھ سیکھنے سے بہت دور رہتا ہے جو عملی زندگی میں قدم قدم پر اُس کے کام آنے والا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہی مسئلہ رہا ہے۔ آج بھی کالج؍ یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم پانے والوں کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو وہ دنیا بھر کی باتیں سیکھ رہے ہوتے ہیں اور اگر نہیں سیکھ رہے ہوتے تو بس یہ کہ عملی زندگی میں صرف قابلیت چلتی ہے یعنی جس شعبے میں ملازمت ملی ہو اُس کے بارے میں سب کچھ معلوم ہونا چاہیے اور معاملات کو درست کرنے کی مہارت پائی جائے۔
اگر ہم پوری دیانت سے جائزہ لیں تو ہمارے ہاں کالج کی سطح کی تعلیم اب تک ڈِلیور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جو کچھ کالج کی سطح پر نوجوان سیکھتے ہیں وہ عملی زندگی کے لیے انتہائی ناکافی ہوتا ہے۔ (بالخصوص سرکاری) کالجوں کے اساتذہ کی قابلیت کا بھی وہ معیار نہیں جو ہونا چاہیے اور اُن میں جوش و خروش کی بھی شدید کمی ہے۔ کسی بھی نوجوان کو کالج میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اُس کا بنیادی مقصد ہوتا ہے اُسے عملی زندگی کے لیے تیار کرنا۔ اگر یہ کام نہ ہوسکے تو پھر کالج کی سطح پر پڑھنے کا کوئی مقصد یا جواز باقی نہیں رہتا۔ ہمارے ہاں چونکہ کالج کی سطح پر تعلیم مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں چنانچہ ڈگری کی بھی کچھ زیادہ وقعت نہیں۔ نوجوان کالج سے فارغ ہوتے ہیں تو اُن کے پاس اِتنی قابلیت نہیں ہوتی کہ عملی زندگی میں نمایاں اور قابلِ ستائش کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔
آج کی عملی یعنی کاروباری دنیا میں اداروں کی ضرورت تبدیل ہوچکی ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کسی میں مطلوب قابلیت اور مہارت ہے یا نہیں۔ کبھی کبھی قابلیت سے زیادہ مہارت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ مہارت یعنی کام کرنے کی صلاحیت۔ ہر ادارہ یہی چاہتا ہے کہ جسے ملازمت دی جارہی ہے اُسے کچھ سکھانا اور بتانا نہ پڑے یعنی وہ آتے ہی کام پر لگ جائے۔ آج کی کاروباری دنیا میں مسابقت غیر معمولی ہے۔ بعض شعبوں میں تو ''گلا کاٹ‘‘ نوعیت کی مسابقت ہے۔ ایسے میں کوئی بھی ادارہ یہ بات کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ نوجوانوں کو محض اس لیے بھرتی کرلے کہ وہ نوجوان ہیں‘ جوش و جذبے سے سرشار ہیں؟ ایسے جوش و جذبے کا کیا کرنا جس کے ساتھ مہارت اور کام کرنے کی لگن نہ ہو؟ دنیا بھر میں کاروباری ادارے اب بھرتی کے وقت صرف اِس بات کو اہمیت دے رہے ہیں کہ جسے ادارے کا حصہ بنایا جارہا ہے وہ مطلوب مہارت رکھتا ہو۔ ڈگری کا معاملہ اب بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ بہت سے بڑے اداروں نے بھرتی کے لیے مطلوب معاملات میں سے تعلیم کا خانہ نکال دیا ہے۔ اُنہیں اِس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ کسی کے پاس کون سی ڈگری ہے اور وہ کس ادارے سے پڑھا ہوا ہے۔ اگر مطلوب مہارت نہیں تو ڈگری کسی کام کی نہیں۔ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے مگر ہے تو حقیقت پسندی کا مظہر۔ جسے کسی کی خدمات حاصل کرنا ہوں وہ اس کی تعلیم کیوں دیکھے؟ عملی پہلو دیکھنا چاہیے اور وہی دیکھا جارہا ہے۔ یہ بات کچھ ایسی پیچیدہ بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ ایک طرف تو وہ کروڑوں نوجوان ہیں جو کالج کی سطح پر روایتی طرز کی تعلیم پاتے ہیں اور جاب مارکیٹ میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے میں الجھنیں محسوس کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے نوجوان بھی ہیں جو انٹرنیٹ کی بدولت پسندیدہ شعبے میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔ اُنہیں ایسا بہت کچھ معلوم ہوتا ہے جو کالج کی سطح پر نہیں پڑھایا جاتا۔ پسماندہ ممالک میں کالج کی سطح کی تعلیم اب تک خاصی غیر معیاری اور عصری تقاضوں سے غیر ہم آہنگ ہے۔ ہمارے ہاں تو جامعات کی سطح پر بھی تعلیم کا معیار ایسا نہیں کہ ڈگری ملنے پر کسی بھی نوجوان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے۔ سرکاری جامعات کا بہت بُرا حال ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ سرکاری جامعات کی تعلیم مکمل کرنے پر ملنے والی ڈگری تابناک مستقبل کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ ایسے میں وہ نوجوان زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو کالج یا جامعات کی روایتی تعلیم سے ہٹ کر اپنے لیے معقول تربیت کی راہ نکالتے ہیں، انٹرنیٹ کی مدد سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ''مسلح‘‘ کرتے ہیں اور پوری تیاری کے ساتھ جاب مارکیٹ میں قدم رکھتے ہیں۔
یہ وقت صرف اور صرف عمل کا ہے۔ تعلیم سے زیادہ اہمیت تربیت کی ہے۔ وہی نوجوان روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں جو تعلیم کے دوران تربیت کا بھی اہتمام کریں۔ تربیت کا مطلب ہے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا۔ کسی بھی عصری تقاضے کو نظر انداز کرکے ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں قدم قدم پر صرف الجھنیں ہیں۔ یہ الجھنیں معاشی بھی ہیں اور معاشرتی بھی۔ معاشی الجھنوں کا تدارک اولین ترجیح کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ خراب معاشی حالت انسان کے تمام معاملات کو بگاڑ دیتی ہے۔ تعلیم و تربیت کا معیار بلند رکھنا بھی لازم ہے اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہنا بھی ناگزیر ہے۔ اب وہی نوجوان کامیاب کیریئر کی طرف بڑھ پاتے ہیں جو تعلیم کے دوران تربیت پر متوجہ رہتے ہیں اور ڈگری کو بنیاد بنانے کے بجائے مہارت کو بنیاد بناتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں کالج کی سطح کی تعلیم انتہائی معیاری ہے مگر پھر بھی وہاں کاروباری ادارے ملازمت دیتے وقت ڈگری کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ اس بات کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے کہ کسی کو ملازمت دیں اور وہ اپنا کام ڈھنگ سے کرنے کے قابل ہونے میں سال‘ ڈیڑھ سال لگائے۔ آن دی جاب ٹریننگ کا وقت جا چکا ہے۔ اب وہی چل پاتا ہے جو پہلے سے سیکھ کر آتا ہے۔ کاروباری ادارے اُنہی نوجوانوں کو ملازمت میں ترجیح دیتے ہیں جنہیں کسی بھی سطح پر تربیت کی ضرورت نہ ہو اور کام کے ماحول سے بھی آشنا ہوں۔ پاکستان جیسے ممالک میں نئی نسل کو جاب مارکیٹ میں انٹری کے وقت شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اِن مشکلات کے تدارک کیلئے تعلیم و تربیت کا ڈھانچا ہی نہیں‘ سوچ بھی بدلنا پڑے گی۔ اس معاملے میں تاخیر کی گنجائش ہے نہ تساہل کی۔ جو کچھ بھی کرنا ہے فوری کرنا ہے اور بھرپور طریقے سے کرنا ہے۔