"MIK" (space) message & send to 7575

وہ جو کرنا ہے ہم نہیں کرتے

زندگی کے دو ہی پہلو ہیں اور دونوں اس قدر واضح ہیں کہ زیادہ تشریح و تصریح کی ضرورت بھی نہیں۔ ایک تو ہے معاشی پہلو یعنی کمانے کی سوچ اور باقی جو کچھ بھی ہے وہ ہے غیر معاشی پہلو۔ اس میں معاشرتی معاملات بھی ہیں اور خانگی زندگی بھی۔ ہم زندگی بھر ان دونوں پہلوؤں کو آپس میں بُری طرح گڈمڈ کرتے رہتے ہیں اور اس کا خمیازہ بھگتنے کے باوجود کبھی اصلاحِ احوال کی طرف نہیں آتے۔ اس لیے نہیں آتے کہ اس کے لیے ذہن بنانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
ایک زمانے سے ماہرین اس نکتے کی صراحت کرتے آئے ہیں کہ کامیاب زندگی وہ ہے جو زندگی کے دونوں پہلوؤں کو توازن کے ساتھ برتے۔ کسی ایک پہلو کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ انسان معاشرت میں گم ہوکر معیشت کو نظر انداز کرنے کا جُوا نہیں کھیل سکتا۔ ایسے ہر جُوئے میں ہارنا لکھا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طور جو لوگ صرف کمانے کی تگ و دَو میں کھوئے رہتے ہیں وہ غیر معاشی معاملات میں اس قدر بودا پن دکھاتے ہیں کہ اچھی خاصی مالی حیثیت کے حامل ہوتے ہوئے بھی کچھ خاص نہیں کر پاتے‘ زندگی کا معیار بلند کرنے کی کوئی بھی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوتی۔
کامیاب زندگی کیا ہے؟ اس حوالے سے تصریح و تشریح کا بازار گرم ہے۔ دنیا بھر میں مصنفین اپنے اپنے طور پر قارئین کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ حقیقی کامیاب زندگی کی جامع تعریف و تصریح ممکن نہیں کیونکہ ہر معاشرے کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ معاشرت بھی اس حوالے سے بہت اہمیت رکھتی ہے اور معاشی استحکام بھی۔ ساتھ ہی ساتھ مذہبی نقطۂ نظر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بھر میں ایسے کروڑوں افراد ہیں جو انتہائی دولت مند ہونے پر بھی خوش نہیں اور اپنے آپ کو کامیاب قرار دینے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو بظاہر تہی دست ہیں مگر اُن کی زندگی بھرپور دکھائی دیتی ہے۔ وہ خوش رہتے ہیں اور خوش رکھتے ہیں۔ یہ سارا معاملہ بہت حد تک سوچ کا ہے۔ اپنے آپ کو کامیاب سمجھنا‘ جو کچھ بھی مل جائے اُس پہ اکتفا کرنا‘ جو کچھ بھی دستیاب ہو اُس سے مستفید ہوتے ہوئے زندگی کو زیادہ سے زیادہ دلکش بناتے ہوئے فرحاں و شاداں رہنا ہر اُس انسان کے بس کی بات ہے جو اس حوالے سے سوچتا رہا ہو‘ بڑوں کی باتوں پر دھیان دیتا آیا ہو اور اپنے آپ کو بے لگام خواہشات کے حوالے کرنے سے اجتناب کی راہ پر گامزن رہا ہو۔
ہمیں زندگی بھر اتنا ضرور یاد رکھنا ہے کہ کمانا بھی ہے اور کمانے سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کرنا ہے۔ یہ دونوں معاملات ہمارے لیے ناگزیر ہیں۔ ان کے درمیان توازن ہی ہمیں معیاری انداز سے جینے کی گنجائش فراہم کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ معاشی اور غیرمعاشی پہلو کو الگ رکھنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔ معاشی پہلو بالعموم زندگی کے باقی تمام معاملات پر حاوی رہتا ہے۔ معاشی پہلو حاوی رہے تو فکری کجی پیدا ہوتی ہے۔ فکری ساخت میں پیدا ہونے والی کجی انسان کو کسی بھی معاملے میں سیدھا نہیں رہنے دیتی۔ اس کجی کو دور کرنے کی ضرورت ہے مگر بس یہی نہیں ہو پاتا۔ انسان دنیا بھر کے جھمیلوں میں گم رہتا ہے اور اپنی ذات ہی کو بھول جاتا ہے۔
ڈھائی تین عشروں کے دوران ایموشنل انٹیلی جنس کا بہت غلغلہ رہا ہے۔ ایموشنل انٹیلی جنس یہ ہے کہ انسان ہر معاملے میں صرف معاشی نقطۂ نظر کا حامل نہ ہو بلکہ معاملات کو سمجھنے کے لیے درکار دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ سب کچھ کرے جو اخلاقی طور پر بھی درست ہو اور خالص دُنیوی یا مادی اعتبار سے بھی غلط قرار نہ پائے۔ عرفِ عام میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کو عقلِ سلیم سے کام لینے کی ذہنیت اپنانی چاہیے۔ ایموشنل انٹیلی جنس کی ضرورت اب اس لیے زیادہ شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں نوجوان غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہوئے بھی کچھ زیادہ نہیں کر پا رہے۔ وہ اپنے پسندیدہ شعبے کی تمام مطلوب مہارتیں سیکھتے ہیں مگر اُن مہارتوں کو بروئے کار لانے میں بالعموم ناکام رہتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ زندگی کا غیر مادی پہلو نظر انداز کردیا جائے تو مادی پہلو بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔
دنیا بھر میں اس بات پر خاصی وقیع تحقیق ہو چکی ہے کہ بہت سے نوجوان غیر معمولی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے حامل ہوتے ہوئے بھی عملی زندگی میں کچھ زیادہ نہیں کر پاتے اور سوال صرف مالی حیثیت کے کمزور رہ جانے کا نہیں ہے۔ لوگ اُنہیں معاشرتی اور اخلاقی اعتبار سے بھی نہیں سراہتے۔ اگر کسی نے پانچ یا سات سال کی بھرپور محنت کے بعد طب میں ڈگری لی ہو یعنی ڈاکٹر بن گیا ہو تو اپنے شعبے میں کامیاب اُسی وقت ہوگا جب اپنی شخصیت کے غیر معاشی پہلو کو بھی ذہن نشین رکھے گا۔ ڈاکٹر کو اپنے مریض کا محض معالج نہیں ہونا بلکہ دوست اور ہمدرد بھی بن کر دکھانا ہے۔ اگر وہ بات بات پر جھڑکتا ہو‘ لوگوں کی تذلیل سے ذہنی سکون پاتا ہو تو اُسے معالج نہیں بلکہ بیمار تصور کیا جائے گا۔ ایسا کوئی بھی نوجوان اچھا ڈاکٹر کبھی نہیں بن سکتا یعنی ایک طرف تو اُس کی پریکٹس متاثر ہو گی اور دوسری طرف لوگ اُس کے بارے میں اچھی رائے کے حامل نہ ہوں گے۔ یوں وہ غیر معمولی قابلیت کے باوجود اپنے شعبے میں نمایاں مقام تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔
آج نئی نسل کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ محض پروفیشنل قابلیت سب کچھ نہیں۔ مزاج کی بھی اہمیت ہے اور کردار کی بھی۔ لوگ عموماً مزاج اور کردار کو یکجا کرکے دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں بالکل الگ معاملات ہیں۔ کردار تو یہ ہے کہ انسان چوری نہ کرے‘ جُھوٹ نہ بولے‘ کسی کا حق نہ مارے‘ کوئی نشہ نہ کرے‘ کسی کی عزت داغ دار نہ کرے‘ کسی کے خلاف سازش نہ کرے وغیرہ وغیرہ۔ مزاج یہ ہے کہ انسان کسی کا حق تو نہ مارے یعنی اُسے مالی نقصان نہ پہنچائے مگر زبان قابو میں نہ رکھے اور کسی کے بارے میں ایسی رائے دے جو اُس کا دل دُکھادے۔ بہت سوں کو جھوٹ بولنے کی عادت تو نہیں ہوتی مگر بات بات پر جُھنجھلا جاتے ہیں‘ کوئی ذرا سی بھی ناپسندیدہ بات کر بیٹھے تو آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہر معاملے میں شک کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اس عادت کے ہاتھوں اپنی زندگی میں صرف زہر گھولتے رہتے ہیں۔ یہ ہے مزاج۔ بلند کردار کا مالک مزاجاً اچھا نہ ہو تو ساری محنت اکارت جاتی ہے۔ کوئی دین دار بھی ہو‘ کسی کا مال بھی نہ کھاتا ہو‘ کسی کو دھوکا بھی نہ دیتا ہو مگر زبان پر قابو نہ پائے اور کسی کے بارے میں کچھ بھی کہتا پھرے تو اُسے کون پسند کرے گا؟ ایسا شخص زندگی بھر پریشان ہی رہے گا۔ نئی نسل کو یہ نکتہ ذہن نشین کرانا لازم ہے کہ مزاج اور کردار کو الگ رکھ کر دیکھیں اور برتیں۔ ہر معاملے میں معاشی یا مادہ پرستانہ سوچ کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ جہاں اخلاقی اقدار کو اولین ترجیح کا درجہ دیا جانا ہو وہاں ایسا کیے بغیر کام نہیں چلتا۔ اور جہاں خالص پروفیشنل اپروچ درکار ہو وہاں کوئی اور طرزِ فکر ہمارے لیے کام کی ثابت نہیں ہوتی۔
غیرمعمولی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا بھی اچھی بات ہے مگر بچوں کو یہ بھی سکھایا جانا چاہیے کہ خوش اخلاقی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں‘ صرف اپنے مفادات کو ذہن نشین نہ رکھا کریں بلکہ دوسروں کی بہبود کا بھی سوچا کریں اور کسی کی جس قدر بھی مدد کی جا سکتی ہو ضرور کریں۔ محض انٹیلی جنس (ذہانت) کافی نہیں بلکہ مزاج کو درست کرنے والی ذہانت یعنی ایموشنل انٹیلی جنس کا حامل ہونا بھی ناگزیر ہے۔ یہ پہلو تشنہ رہے تو زندگی ادھوری رہ جاتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں