ایک بار پھر سٹریٹجک معاملات میں غیر معمولی تدبر سے کام لینے کی گھڑی ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب ہمارے پڑوس میں سوویت افواج وارد ہوچکی تھیں۔ تب جنرل ضیا الحق نے معاملات کو کسی نہ کسی طور سنبھالا تھا۔ بڑی تعداد میں آنے والے افغان پناہ گزینوں کا بوجھ تو ہمیں اٹھانا پڑا تھا تاہم سوویت افواج کو افغانستان تک محدود رکھنے میں بھی فقید المثال نوعیت کی کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے ایک بہت ہی مشکل وقت میں انتہائی درجے کے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف تو سوویت افواج کو افغانستان سے آگے نہیں بڑھنے دیا اور دوسری طرف امریکا اور یورپ سے فوائد کشید کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوویت یونین کو شکست و ریخت کی طرف دھکیلنے میں جس افغان جہاد نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اُس کا منتظم پاکستان بنا تھا مگر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اس کے سوا پاکستان کے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ مسلم دنیا بھی یہ دیکھنے کو بے تاب تھی کہ اپنے پڑوس میں سوویت افواج کے ہوتے ہوئے پاکستان کس طور اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہو پاتا ہے اور پاکستان کامیاب رہا۔ افغانستان پر سوویت یونین کی لشکر کشی انتہائی خطرناک تھی کیونکہ کوئی معمولی سی غلطی بھی خطے میں ایک نئی جنگ چھیڑ سکتی تھی اور یہ جنگ شاید عالمی جنگ بننے میں زیادہ دیر بھی نہ لگاتی۔ جنرل ضیاء الحق اور اُن کی ٹیم نے معاملات کو بخوبی سنبھالا اور انتہائی مساعد حالات میں بھی پاکستان کو جنگ کی بھٹی کا ایندھن بننے سے روکا۔
اب پھر ویسی ہی مشکل آن پڑی ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد کے ماحول میں ویسی کوئی سرد جنگ تو شروع نہ ہوئی مگر ہاں چھوٹے پیمانے کی گرم جنگیں ضرور مختلف خطوں کا مقدر رہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور افریقا کو جنگوں اور خانہ جنگیوں میں مبتلا رکھنے کے بعد اب مغربی طاقتیں ایشیا و بحرالکاہل کے خطے کو جنگ کے میدان میں تبدیل کرنے کی خواہاں دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکا اور یورپ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج چین کو مزید مضبوط ہونے سے روکنا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کا درجہ پانے والا چین اب امریکا اور یورپ کے مفادات کے لیے سب سے بڑے چیلنج کے طور پر اتنا پنپ چکا ہے کہ اُسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ مغرب کے سازشی ذہن ایک بار پھر فعال ہیں اور ایشیا و بحرالکاہل کے خطے (اوشیانا) میں سٹریٹجک سطح پر ایسا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں جس میں مغرب کے لیے صرف فوائد اور اس خطے کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہ ہو۔ چین کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے روس بھی میدان میں ہے۔ ترکی بھی خاصا مضبوط ہوچکا ہے اور اُس کی بھی خواہش ہے کہ علاقائی سطح پر اُس کا کوئی بڑا کردار متعین ہو۔ ترکی صدیوں تک ایک خاص نوعیت کی سپر پاور رہا ہے۔ وہ اپنے شاندار ماضی کی تجدید چاہتا ہے۔ اس کے لیے جتنی تیاری کی جانی چاہیے وہ بھی کرلی گئی ہے۔ چین‘ روس اور ترکی ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب اور ایران کو بھی ساتھ ملانا لازم ہوچکا ہے۔ سعودی عرب غیر معمولی حد تک مغرب کے مدار میں رہا ہے مگر اب اُس کی قیادت ٹریک بدلنے کے بارے میں سوچنے لگی ہے۔ چین کی شکل میں ایشیائی ممالک کو ایسی قوت میسر ہے جس کے ذریعے اپنی بات منوائی جاسکتی ہے اور مغرب کی خون چُوسنے والی پالیسیوں سے گلو خلاصی میں بھی بہت حد تک کامیابی مل سکتی ہے۔
مغربی طاقتوں کی توجہ اوشیانا کی طرف مرکوز ہونے کے بعد سے بھارت غیر معمولی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر بھارت کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے کی ٹھان لی ہے۔ امریکا جدید ترین ٹیکنالوجیز دے کر بھارت کو خطے میں سب سے اوپر رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ بھارت ایک طرف بہت بڑی منڈی ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں مصروف ہے اور دوسری طرف مغربی دنیا کو بہترین تربیت یافتہ اور فرماں بردار قسم کے نالج ورکرز اور دیگر محنت کش فراہم کرکے بھی اپنے لیے مزید پنپنے کی گنجائش پیدا کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہو رہا اور راتوں رات بھی نہیں ہوا ہے۔ بھارتی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ چین کے سامنے پامردی سے کھڑے رہنے کے لیے مغربی طاقتوں کو اُس کی ضرورت پڑے گی۔ امریکا نے بھارت کو مختلف شعبوں میں مضبوط کرکے جنوبی ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں غیر معمولی مضبوط پوزیشن عطا کردی ہے۔ دوسری طرف یورپ بھی بھارت کی طرف جھکا ہوا ہے۔
روس اور چین چونکہ ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے مقابل بھی کسی کو ہونا چاہیے۔ اس کے لیے پاکستان پر بھی توجہ دی جارہی ہے اور بنگلا دیش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جارہا۔ چین نے سری لنکا کو بھی مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی مگر بھارت نے مغربی دنیا کے اشارے پر سری لنکن معیشت کا دھڑن تختہ کردیا اور وہاں ایسی سیاسی بے چینی پیدا کی جس کے نتیجے میں سیاسی استحکام محض خواب ہوکر رہ گیا۔ معاملہ اب بہتر ہیں تاہم سری لنکا بڑی طاقتوں کی لڑائی میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ ایسے میں چین اور روس نے بنگلا دیش پر متوجہ رہنا ترک نہیں کیا۔ چین نے جب ایشیا سے یورپ تک تجارتی راہداری تیار کرنے کا منصوبہ بی آر آئی شروع کیا تھا تب بنگلا دیش کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کی تھی تاکہ وہاں بھی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے لیے سٹریٹجک ڈیپتھ پیدا کی جاسکے۔ بنگلا دیش کی قیادت معاملے کو سنبھال نہ سکی۔ بنگلا دیش ایک زمانے تک بھارت کا بغل بچہ سا رہا ہے۔ محلِ وقوع کی نوعیت کے باعث بنگلا دیشی قیادت کے لیے بھارت کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنا ممکن ہی نہیں۔ محض دس سال قبل تک بنگلا دیش کے بارے میں سبھی یہ کہہ رہے تھے کہ یہ ناکام ریاست کا درجہ پانے کو ہے۔ انتہائی درجے کے افلاس نے پورے بنگلا دیش کو گرفت میں لے رکھا تھا۔ پھر راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ بنگلا دیش کی معیشت بھی سنبھل گئی اور سیاسی استحکام بھی پیدا ہوگیا؟ یہ سب کچھ انجینئرڈ ہے۔ بھارت نے مغربی طاقتوں سے مل کر بنگلا دیش کو سنبھالا ہے تاکہ وہ چین‘ روس اور پاکستان کی طرف جھکنے سے مجتنب رہے۔ بنگلا دیشی قیادت نے بھی بھارت اور اُس کی حلیف مغربی طاقتوں کی ایما پر ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں چین سمیت کسی بھی علاقائی طاقت کے ساتھ مل کر چلنے اور پاکستان یا کسی اور علاقائی ملک سے تعلقات بہتر بنانے کی گنجائش نہیں رہی۔
پاکستان کے لیے یہ بہت اہم اور نازک مرحلہ ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے بھارت میں G20 کے سربراہ اجلاس سے ایک دن قبل بنگلا دیش کا ایک روزہ دورہ کرکے مغرب کو واضح پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ روس کی طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر بنگلا دیش سے پہلا باضابطہ ہے۔ بھارت اور پاکستان میں سرگئی لاروف کے دورے کو بہت معنی خیز سمجھا گیا ہے اور ایک اہم پیغام کے طور پر لیا گیا ہے۔ روس نے بنگلا دیش کو خام تیل، گیس، گندم، کھاد اور دوسری بہت سی اشیا فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ روس اِس مرحلے پر چاہتا ہے کہ بنگلا دیشی قیادت اپنا سارا سٹریٹجک وزن بھارت کی طرف نہ ڈالے بلکہ متوازن ہوکر چلے۔ ایک طرف اُسے پاکستان کی طرف بھی جھکنا چاہیے اور دوسری طرف چین سے بھی بہتر سٹریٹجک پارٹنر شپ کی طرف جانا چاہیے۔ روسی وزیر خارجہ کے دورۂ بنگلا دیش میں پاکستان کے لیے اچھا پیغام ہے۔ بنگلا دیشی قیادت کو خطے کے ممالک کی طرف دیکھنے کی تحریک مل سکتی ہے۔ ہاں، ہمیں اس بات کا لازمی طور پر خیال رکھنا ہے کہ ہم ایک بار پھر بڑی طاقتوں کے لیے میدانِ جنگ میں تبدیل نہ ہوں۔ سرد جنگ کے دور میں پاکستان نے امریکا اور سوویت یونین کے درمیان پُل کا سا کردار ادا کرنے کی کوشش کی تھی مگر اِس پُل کے نیچے سے اچھا خاصا پانی بہہ گیا تھا۔ حالات نے ایک بار پھر ہمارے لیے چند ایک مواقع پیدا کیے ہیں۔ چین اور روس کے ساتھ مل کر ہمیں اپنے لیے وزن پیدا کرنا ہے اور بھارت کی مکاری سے بچنے کی بھی کوشش کرنی ہے۔