جو کچھ بھی قدرت نے ہمارے لیے لاکھوں بلکہ کروڑوں سال سے سنبھال کر، سینت سینت کر رکھا تھا وہ ہم نے اپنی بداعمالیوں سے ٹھکانے لگانا شروع کردیا ہے۔ کم و بیش ساڑھے تین ہزار سال میں انسان نے ترقی اور پیش رفت کے نام پر جو باغ لگایا تھا وہ اب ''برگ و بار‘‘ لارہا ہے اور انداز ایسا ہے کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ قدرت نے دنیا کے ماحول میں جو توازن رکھا تھا وہ انسان نے اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا ہے۔ روئے ارض پر جتنی بھی نعمتیں ہیں سب کی سب توازن کے ساتھ ہیں۔ ان کے درمیان توازن کا برقرار رکھا جانا لازم ہے مگر انسان کو اس بات کی کچھ خاص پروا نہیں کہ ماحول کو کن باتوں سے کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اُسے تو بس اِس بات سے غرض ہے کہ اُس کی ہر خواہش پوری ہو، زیادہ سے زیادہ دولت ہاتھ آجائے اور زندگی یوں گزرے کہ لوگ دیکھیں تو رشک کریں۔ کم و بیش تین صدیوں کے دوران ترقی کا سفر بتدریج تیز ہوتا گیا ہے۔ انسان نے ڈھائی تین ہزار سال کے دوران اِسی دنیا میں کسی اور یعنی خیالی دنیا کو رُو بہ عمل لانے کے لیے جو کچھ کیا تھا وہ اب بھرپور آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ دنیا بھر میں ترقی کے نام پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے والے اب بھی خال خال ہیں کہ ہمارے اعمال سے قدرتی ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ کسی خاص طبقے یا خطے کے لیے نہیں ہے بلکہ سب کو اُس میں حصہ دار بننا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر افراد، طبقات اور ممالک جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ قدرتی ماحول کو برباد کرنے پر تُلا ہے۔ پھر بھی ہوش کے ناخن لینے کے بارے میں نہیں سوچا جارہا۔
جنگلات ہمارے ماحول یعنی ایکو سسٹم کو متوازن رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ جب جنگلات کا رقبہ تشویش ناک حد تک گھٹ جائے تب موسموں کا پیٹرن تبدیل ہو جاتا ہے۔ کہیں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور کہیں بہت کم۔ زمین کا کٹاؤ بھی بڑھ جاتا ہے۔ جنگلات کے ذریعے زمین کا کٹاؤ بھی رُکتا ہے اور بارشوں کا نظام بھی ایک ضبط میں کام کرتا رہتا ہے۔ جنگلات کا رقبہ زیادہ ہو تو سبزہ زیادہ ہوتا ہے، ماحول تر و تازہ رہتا ہے اور صحتِ عامہ کے حوالے سے زیادہ پیچیدہ مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ مختلف مقاصد کیلئے لکڑی کے حصول کی خاطر درخت کاٹنے کا دھندا اِتنا مضبوط ہے کہ حکومتیں بھی اِسے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ ایندھن کے علاوہ تعمیرات میں استعمال ہونے والی لکڑی کی فروخت سے جڑا مافیا ایسا طاقتور ہے کہ ریاستی مشینری پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ دوسرے بہت سے شعبوں کے مافیا کا بھی یہی حال ہے۔ صنعتی عمل کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے اور لاگت کم سے کم رکھنے کے اقدامات کے نتیجے میں ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اُس کا علم تو سبھی کو ہے مگر احساس کی سطح بہت پست ہے۔ کوئی بھی اپنے مفادات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ یہی حال کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر گیسوں کے اخراج کا ہے۔ دنیا بھر میں کاربن کا اخراج کم کرنے سے متعلق اقدامات کیے جارہے ہیں مگر بعض ممالک اس حوالے سے شدید بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پس ماندہ ممالک کو اس معاملے میں زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔ اِن ممالک میں لوگوں کو ماحول کے حوالے سے باشعور کرنے کی بیشتر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ کچرا بہت بڑے پیمانے پر اور خاصے غیر منظم انداز سے جلایا جاتا ہے۔ جن چیزوں کو معقول طریقے سے دفنانا چاہیے اُنہیں یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ماحول متعفن رہتا ہے اور صحتِ عامہ کے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ حکومتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات عوام کی سوچ بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب لازم ہوچکا ہے کہ ماحول کو نقصان سے دوچار کرنے والے کام نہ کیے جائیں۔ ایک صدی سے بھی زیادہ مدت کے دوران مادّی ترقی کی رفتار خاصی تیز رہی ہے۔ یہ ترقی قدرت کے پیدا کردہ ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر ممکن نہ تھی۔ انسان نے قدرتی وسائل کو اندھا دھند استعمال کرکے توازن بگاڑ دیا ہے۔ یہ عمل روکنا اس لیے ناممکن تھا کہ تمام انسانوں کی سوچ کو بدلنا اور اُنہیں ماحول دوست خیالات کا حامل بنانا ممکن نہ تھا۔ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کے لوگوں کو یہ سمجھانا بہت مشکل تھا کہ آگے نکلنے کی خاطر بدحواسی میں وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس سے ماحول کا توازن بگڑتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں موسموں کا پیٹرن بدلتا ہے۔ درخت بہت زیادہ کاٹنا ماحول کو شدید نقصان سے دوچار کرتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں کہیں شدید خشک سالی پڑتی ہے اور کہیں موسلا دھار بارشیں ہوتی ہیں۔ جنگلات کا رقبہ گھٹنے سے ماحول کی ٹھنڈک بھی ٹھکانے لگ جاتی ہے اور ہوا کی تازگی بھی جاتی رہتی ہے۔
ماحول کو شدید نقصان پہنچانے والے دوسرے رجحانات بھی ہیں۔ دیہی علاقوں میں زرعی مقاصد کے لیے مختص زمین گھٹتی جارہی ہے۔ بستیاں بسانے کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ شہروں کا پھیلتا ہوا رقبہ متصل دیہی علاقوں کو ڈکار رہا ہے۔ خالص قدرتی ماحول کا گھٹتا ہوا رقبہ موسموں کے پیٹرن پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ جہاں بارشیں برائے نام ہوا کرتی تھیں وہاں زیادہ اور موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں سیلاب بھی آرہے ہیں اور ہر سال کروڑوں افراد سیلاب کے ہاتھوں شدید مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ جہاں صرف گرمی پڑتی تھی وہاں اب برف بھی گر رہی ہے۔ جہاں صرف ٹھنڈک رہتی تھی وہاں اب گرمی پڑ رہی ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی نقصان دہ ہے کیونکہ موسموں کا نظام بدلنے سے زراعت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی پیداوار متاثر ہونے سے فوڈ سکیورٹی سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو بھی اس حوالے سے منصوبہ سازی کرنا پڑ رہی ہے۔ قدرت کے نظام میں انسان کی مداخلت نے خوراک کے ساتھ ساتھ توانائی کا مسئلہ بھی کھڑا کیا ہے اور صحتِ عامہ کے حوالے سے بھی پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں۔ یہ سب کچھ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں کم و بیش ڈیڑھ ارب افراد کے لیے انتہائی نوعیت کی صورتِ حال پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں موسموں کے بدلتے ہوئے تیور خصوصی طور پر سنگین مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی جنگلات کا رقبہ خطرناک حد تک گھٹ چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں زمین کا کٹاؤ بڑھ چکا ہے۔ ماحول میں عدم توازن پیدا ہونے سے بارشیں کہیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں اور کہیں برائے نام۔ کراچی میں موسلا دھار اور طوفانی بارشوں نے چار سال میں کئی بار قیامتِ صغریٰ برپا کی ہے۔ 2019ء میں صرف چند گھنٹوں کی بارش نے شہرِ قائد کو ڈبو دیا تھا۔ گزشتہ برس سندھ بھر میں سیلاب نے ایسی تباہی مچائی کہ اُس کے اثرات سے مکمل چھٹکارا اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
پاکستان موسموں کے تنوع کے حوالے سے ایک نمایاں اور غیر معمولی ایڈوانٹیج کا حامل ملک ہے۔ ہمارے ہاں پہاڑ بھی ہیں اور میدان بھی۔ صحرا بھی ہے اور ہرے بھرے کھیت بھی۔ سردی بھی خوب پڑتی ہے اور گرمی بھی انتہائی نوعیت کی ہوا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ قدرت کے انتظام و انصرام کے تحت ہے۔ ہم اِس پورے ڈھانچے کو بگاڑ رہے ہیں اور اِس کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے معیشت کو شدید سست رفتاری سے دوچار کیا ہے اور سیاسی سطح پر بھی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ بعض علاقوں میں شدید خشک سالی نے فوڈ سکیورٹی کی کیفیت پیدا کی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ غذائی اجناس اور سبزیوں‘ پھلوں کی پیداوار زیادہ ہو تب بھی عوام کو اُس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ایک طرف تو پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے کا نظام ناقص ہے اور دوسری طرف نیتوں کی خرابی بھی قیامت ڈھانے پر تُلی ہوئی ہے۔ رسد بڑھنے پر قیمتوں کا نیچے آنا فطری امر ہے مگر اجارہ داری قائم کرکے اِس فطری معاملے کو بگاڑا جاتا ہے۔
بہر کیف‘ موسموں کے ڈھانچے میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ فی زمانہ اِس ایک مصیبت کے ہاتھوں معیشتیں ڈانواں ڈول ہو رہی ہیں۔ طاقتور ممالک بھی پریشان ہیں‘ ہماری تو بساط ہی کیا۔ لازم ہے کہ ایکو سسٹم کو متوازن رکھنے پر بھرپور توجہ دی جائے۔