"MIK" (space) message & send to 7575

تھمی تھمی سی زندگی

معاملات ٹھہر سے گئے ہیں۔ سیاست ہو یا معیشت، معاشرت ہو یا ثقافت‘ کہیں بھی وہ تحرک دکھائی نہیں دے رہا جو کسی بھی زندہ قوم کی سب سے نمایاں علامت ہوا کرتا ہے۔ نیم دِلی بیشتر معاملات پر متصرف ہوچکی ہے۔ جاں نثار اخترؔ نے کہا تھا ؎
ہائے یہ انتظار کے لمحے ؍ جیسے سگنل پہ رک گئی ہو ریل
آج کے پاکستان کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کسی بھی معاملے میں وہ تحرک دکھائی نہیں دے رہا جو قوم کو کسی منزل تک پہنچانے کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ اہلِ سیاست نے پہلے تو بہت شور مچایا۔ ایک حکومت کو ختم کیا اور زمامِ کار اپنے ہاتھوں میں لی مگر اب یوں خاموش بیٹھے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا، کچھ کیا ہی نہیں تھا۔ ایک منتخب حکومت کو کسی بھی وجہ سے ختم کیا گیا تو جواب میں کچھ ایسا ہونا چاہیے تھا جو اُس حکومت کے کیے ہوئے کا تدارک سمجھا جاتا۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا! اب معاملہ یہ ہے کہ کہیں بھی کچھ درست ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ تو ایک بات ہوئی۔ دوسری‘ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ معاملات رُک گئے‘ اٹک گئے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ گاڑی آگے کیسے بڑھے گی۔ گزشتہ برس حکومت کی تبدیلی کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں آنے والے سیاست دانوں کا دعویٰ تھا کہ وہ تمام معاملات درست کردیں گے۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا! جنہیں ہٹایا گیا تھا اُن کے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچانے کا پورا بندوبست کیا گیا ہے یعنی کچھ کیا ہی نہیں گیا۔
قوم بہت کچھ بھگتتی آئی ہے اور آج بھی بھگت ہی رہی ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی قابو میں نہیں۔ معیشت کا پہیہ رکا ہوا ہے۔ معاشرت بگڑتی ہی جا رہی ہے۔ عام آدمی ایک طرف تو ذہنی خلجان میں مبتلا ہے اور دوسری طرف اُسے معاشی مشکلات نے گھیر رکھا ہے۔ الجھی ہوئی معیشت نے معاشرت کو بھی خطرناک حد تک متاثر کیا ہے۔ تھمی تھمی سی زندگی بہت خطرناک ہوتی ہے کیونکہ اندر ہی اندر بہت سا لاوا پک رہا ہوتا ہے۔ آج کا پاکستان بھی ایسی ہی کیفیت کا شکار ہے۔ یہ تھمی تھمی سی زندگی اُتنی تھمی ہوئی نہیں جتنی ہمیں دکھائی دے رہی ہے۔ معیشت کی الجھنوں نے معاشرت کی سطح پر غیر معمولی اکھاڑ پچھاڑ مچائی ہے۔ لاوا پک رہا ہے۔ لوگ بھرے بیٹھے ہیں۔ امکانات کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں۔ نئی نسل زیادہ پریشان ہے کیونکہ اُسے ڈھنگ سے عملی زندگی کا آغاز کرنے کا موقع نہیں مل پارہا۔ پختہ عمر کے لوگ بھی کم پریشان نہیں کیونکہ اُن پر پورے گھر کا بوجھ ہے۔ افراطِ زر میں اضافے کی شرح اِتنی زیادہ ہے کہ آمدن گھٹتی ہی جارہی ہے کیونکہ زر کی قوتِ خرید میں روز بروز کمی رونما ہوتی جارہی ہے۔ سب سے زیادہ مشکلات تنخواہ دار طبقے کے لیے ہیں کیونکہ اُس کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہو رہا اور زر کی قوتِ خرید یومیہ بنیاد پر گھٹ رہی ہے۔ کاروباری طبقہ بہرحال فائدے میں ہے۔ اپنا کام کرنے والے (سیلف ایمپلائیڈ) بھی زیادہ خسارے میں نہیں کیونکہ وہ اپنی اجرت بڑھاتے جاتے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ بند گلی میں کھڑا ہے۔ وہ اپنا بڑھتا ہوا خسارہ کیونکر پورا کرے؟
ملک کو تحرک کی ضرورت ہے۔ محض باتیں بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ذوق و شوقِ عمل درکار ہے۔ جب تک یہ دولت ہاتھ نہیں آئے گی تب تک کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ ریاستی منصوبہ سازوں کو اس مرحلے پر اپنا کردار زیادہ جاں فشانی اور دلجمعی سے ادا کرنا ہے۔ اداروں کے سر پر خاصا بوجھ ہے۔ اُنہیں ڈِلیور کرنا ہے۔ سیاستدان کیا ڈِلیور کرسکیں گے یہ بعد کی بات ہے۔ پہلے مرحلے میں اداروں کو ڈِلیور کرنا ہے تاکہ عوام کی اشک شُوئی ہو اور وہ کسی حد تک سکون کا سانس لے سکیں۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے؟ ایسا سمجھنے کی کا کوئی معقول جواز ہے نہیں۔ معاشرہ زندہ ہے، سانس لے رہا ہے۔ اِسے آکسیجن کی ضرورت ہے۔ ماحول کا تکدّر دور کردیا جائے تو معاشرے کی سانسیں بہ خوبی بحال ہوسکتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ کسی کی سمجھ میں آسانی سے کچھ نہ آئے۔
قوم کو نیا جذبہ درکار ہے۔ یہ کام ریاست کا بھی ہے اور اہلِ سیاست کا بھی۔ کاروباری طبقہ تمام معاملات کو چونکہ نفع و ضرر کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اس لیے اُس سے کوئی واضح معاشرتی کردار متوقع نہیں ہوا کرتا۔ کاروباری طبقے میں بھی وطن سے محبت تو پائی جاتی ہے؛ تاہم اُس کے اپنے مفادات بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ کوئی غیر فطری بات نہیں۔ جن کے کروڑوں بلکہ اربوں روپے داؤ پر لگے ہوں وہ بھلا کسی بھی معاملے میں جذباتی ہوکر کیوں سوچنے لگے؟ وہ اپنے تمام معاملات میں نفع و ضرر کے پہلو کو پہلے نمبر پر رکھتے ہیں۔ اُن کی سوچ مجموعی طور پر اس بات کے محور پر گھومتی ہے کہ پہلے تو سرمائے کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے کے بعد ہی وہ اپنے آپ کو کسی معاشرتی کردار کے لیے تیار کر پاتے ہیں۔ اہلِ سیاست کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ کاروباری طبقے کو احکامات اور اجازت کا انتظار رہتا ہے۔ ریاستی سطح پر فیصلے کرنے کی قوت چونکہ اُس کے پاس نہیں ہوتی اس لیے وہ بیشتر معاملات میں قدرے نیم دلانہ رویے کا حامل ہوسکتا ہے مگر اہلِ سیاست کو تو چونکہ اقتدار کی منزل تک پہنچنا ہوتا ہے اس لیے وہ زیادہ ذوق و شوق کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں، قوم کے معاملات درست کرنے کے معاملے میں اُن کا جذبہ زیادہ منطقی اور کارگر ہوتا ہے۔ اِس وقت اہلِ سیاست کو اپنا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کرنا ہے۔ قوم بے یقینی کا شکار ہے۔ عوام کے ذہن اٹکے ہوئے ہیں۔ وہ راہ نہیں پارہے۔ اِس مرحلے پر اہلِ سیاست کو آگے بڑھ کر اُنہیں راہ دکھانی ہے۔
تھمے تھمے سے معاملات کو تحرک کی طرف مائل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اہلِ سیاست اور ریاستی مشینری کے درمیان تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو، وہ ایک دوسرے کو قبول کرنے کے بارے میں سوچیں۔ قوم ایک زمانے سے سیاست دانوں اور مقتدرہ کی چپقلش دیکھ رہی ہے۔ اس تماشے نے قوم کے مفادات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ عوام اب اس تماشے سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ریاست کو مستحکم کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ علاقائی اور عالمی حالات اب ہمیں مزید عدمِ تحرک کی اجازت نہیں دیتے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم اب تک وہیں اٹکے ہوئے ہیں یعنی بے عملی کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ قومی مفادات کو پروان چڑھانے اور تحفظ فراہم کرنے کی سوچ کسی بھی طور پروان نہیں چڑھ رہی۔ چند برسوں کے دوران مہنگائی نے عوام کو پیس کو رکھ دیا ہے۔ یہ چکّی رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ریاستی مشینری اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے نہیں کر پارہی۔ سیاسی قائدین بھی اپنا کوئی فریضہ پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کرنے پر مائل نہیں ہو رہے۔ ایوان ہائے اقتدار تک پہنچنے کی ہوس تو توانا ہے مگر کام کرنے کی لگن کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ عوام اپنے تمام معاملات میں سیاست دانوں کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ وہی تو اُن کی آواز پارلیمنٹ اور متعلقہ فورمز تک پہنچاتے ہیں۔ اب اگر اُن کی آواز آگے بڑھانے والے ہی بے یقینی اور عدمِ تحرک کا شکار ہوں تو کسی اور کیا اُمید وابستہ کی جائے؟ ایسے میں فکر و عمل پر پژمردگی چھانا یقینی ہے۔
قوم کے رُکے ہوئے معاملات کو چلانے کے لیے سب کو مل جل کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ عدلیہ یا کسی اور ریاستی ستون پر سارا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ ریاست کا کوئی بھی ستون ایک خاص حد تک ہی بوجھ سہار سکتا ہے۔ ریاست کے تمام ستونوں کو مل بیٹھ کر قومی سطح پر مصالحت کی راہ نکالنا ہوگی۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے کہ مفادات سے کسی حد تک دستبردار ہونے کی ذہنیت پائی جاتی ہو۔ اگر کوئی بھی طبقہ یا ریاستی ستون اپنے مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر ہوچکی قومی مصالحت۔ گھوم پھر کر سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی روش اب ترک کی جانی چاہیے کیونکہ یہ روش ایک خاص حد تک ہی اپنائی جاسکتی ہے۔ عوام کے کَس بَل نکل چکے ہیں۔ اب اُنہیں مزید آزمائش میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اگر ہم چلنے پر مائل نہ ہوئے تو دنیا ہمیں چلتا کردے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں