"MIK" (space) message & send to 7575

یورپ ذہنی دباؤ کی دلدل میں

دنیا بھر میں نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ خراب مالی حالت انسان کو ذہنی دباؤ کی طرف لے جاتی ہے اور معمولی نوعیت کا ذہنی دباؤ جب تواتر سے پروان چڑھتا ہے تب ڈپریشن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کیا واقعی؟ مالی مشکلات اتنی خطرناک ہوتی ہیں کہ انسان کو درست ذہنی حالت میں رہنے ہی نہ دیں؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے مگر دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مالی آسودگی بھی انسان کو سکون سے رہنے نہیں دیتی۔ اس معاملے میں یورپ سب سے بڑی مثال بن کر ہمارے سامنے موجود ہے۔ یورپ ایک زمانے سے غیر معمولی‘ قابلِ رشک اور حیرت انگیز مالی آسودگی‘ خوشحالی اور تونگری کی علامت ہے۔ اہلِ یورپ اپنی طرزِ رہائش اور طرزِ فکر و عمل دونوں ہی کے اعتبار سے باقی دنیا کے لیے مثال یا آدرش کا درجہ رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں انسان اہلِ یورپ کو دیکھ کر اپنی زندگی کا رُخ متعین کرتے ہیں۔ آج سارے فیشن یورپ سے نکلتے ہیں۔ یورپ کی طرزِ فکر کو آج نمایاں ترین ماڈل کی حیثیت حاصل ہے۔ یورپ کے تجزیہ کاروں کی رائے دنیا بھر میں موقر ترین تسلیم کی جاتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں مغرب سے تعلق رکھنے والا کوئی ماہر جب انٹرویو دیتا ہے تو اس کی بات بھرپور توجہ سے یوں سنی جاتی ہے۔ یہ ہے مغرب کے حوالے سے مرعوبیت کا عالم۔ پھر کیا سبب ہے کہ مغرب شدید ڈپریشن کی زد میں ہے؟
کم و بیش دو عشروں سے یورپ بھر میں ڈپریشن کا توڑ سمجھی جانے والی دوائیں بہت بڑے پیمانے پر فروخت ہو رہی ہیں۔ ماہرین خبردار کرتے آئے ہیں کہ ڈپریشن کی دوائیں تواتر سے لینے کی صورت میں ان کا نشہ سا ہو جاتا ہے اور پھر انسان ان کے بغیر ڈھنگ سے جی نہیں پاتا مگر اس کے باوجود فروخت میں کمی نہیں آئی۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یورپ بھر میں صحتِ عامہ کے حوالے سے سرکاری فنڈنگ میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں صحتِ عامہ کے مسائل زیادہ سنگین شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ یورپ بھر میں لاکھوں افراد کو شدید اضطراب‘ ڈپریشن اور بے خوابی کا سامنا ہے۔ ذہنی دباؤ کا سامنا کرنے والے بیشتر افراد کو یقین ہے کہ اگر وہ موثر علاج نہیں کرائیں گے یعنی دواؤں کے کورس نہیں کریں گے تو نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ یورپ بھر میں اضطراب سے نجات دلانے والی دواؤں‘ جنہیں اصطلاحاً anxiolytics کہا جاتا ہے‘ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اٹلی‘ اسپین‘ کروشیا اور سلوواکیا میں ان دواؤں کا استعمال زیادہ تیزی سے بڑھا ہے۔
2017ء میں‘ یعنی کورونا کی وبا سے بہت پہلے‘ امریکا اور پرتگال اینٹی ڈپریسنٹ دواؤں کے استعمال کے حوالے سے پہلے نمبر پر تھے جہاں ہر ہزار افراد میں سے 100کے لیے ڈپریشن سے نجات دلانے والی دواؤں کے نسخے لکھے جاتے تھے۔ انٹرنیشنل جرنل آف انوائرمینٹل ریسرچ اینڈ پبلک ہیلتھ میں بائیو میڈیکل ریسرچر مارٹا ایسٹریلا نے لکھا ہے کہ ڈپریشن ختم کرنے والی دواؤں کا بڑھتا ہوا استعمال مختلف عوامل کے تحت ہے۔ ایک طرف تو ان دواؤں کا حصول آسان ہوتا جا رہا ہے اور دوسری طرف حکومتیں ذہنی امراض اور پیچیدگیوں کے تدارک کے لیے تحقیق پر زیادہ خرچ نہیں کر رہیں۔ علاج کے بہتر طریقے نہیں سوچے جا رہے۔ محققین کو فنڈز چاہئیں مگر حکومتیں ایسا کرنے سے انکاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے بہت سے معاملات پر بھی توجہ دینی ہے‘ اس لیے صحتِ عامہ اور بالخصوص ذہنی صحت کے لیے زیادہ فنڈنگ نہیں کی جا سکتی۔ ماہرین اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں کیونکہ لوگ معمولی سا سر درد ہونے پر بھی اینگژیولٹکس یعنی اضطراب سے نجات دلانے والی دوائیں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ لاکھوں افراد دیکھتے ہی دیکھتے ان دواؤں کے ایسے عادی ہو چکے ہیں گویا نشئی ہوں۔ کئی یورپی ممالک میں فلو اور سر درد کی دواؤں سے کہیں زیادہ اینٹی ڈپریسنٹس فروخت ہو رہی ہیں۔ مارٹا ایسٹریلا اور ان کے ساتھیوں کا ایک شکوہ یہ ہے کہ لوگ اول تو اینٹی ڈپریسنٹس لینے سے باز نہیں آرہے اور دوسرے یہ کہ وہ تجویز کردہ مدت سے کہیں زیادہ یہ دوائیں لیتے رہتے ہیں۔ مینٹل ہیلتھ یورپ کی ترجمان مارسن راڈزنکا کہتی ہیں کہ کورونا کی وبا کے دوران یورپ بھر میں اضطراب اور ڈپریشن کا شکار ہونے والوں کو تیزی سے نسخے لکھ دینے کا رجحان عام ہوا۔ کورونا کی وبا کے دوران یورپ بھر میں ان لوگوں نے ماہرین کے پاس جانا بہت کم کردیا جو اس سے قبل باقاعدگی سے علاج کرا رہے تھے اور نفسی امور کے ماہرین سے ملاقات میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔ جب مریضوں نے معالجوں سے ملنے میں دلچسپی لینا چھوڑا تو ٹیلی میڈیسن کے ذریعے اینٹی ڈپریسنٹ نسخے لکھنے کا عمل تیز ہوا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ وسائل کم تھے اور وقت اس سے بھی کم۔
Benzodiazepines اضطراب سے نجات دلانے والی ایسی دوائیں ہیں جو انسان کو اپنا عادی بنا لیتی ہیں اور پھر وہ ان دواؤں کی طلب اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح کوئی نشئی کسی نشے کی طلب محسوس کرتا ہے۔ میڈرڈ کی کامپلوٹینس یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور سپینش سوسائٹی آف اینگژائٹی اینڈ سٹریس کے صدر انٹونیو کینو ونڈل کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ اینٹی ڈپریسنٹس کے عادی اس لیے ہو جاتے ہیں کہ جب انہیں شدید ضرورت ہوتی ہے تب یہ دوائیں لے کر اپنا بہتر علاج نہیں کراتے اور جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے تب ان دواؤں کے عادی اور محتاج ہوکر رہ جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ نے بتایا ہے کہ benzodiazepines کے قانونی استعمال میں سپین پہلے نمبر پر ہے۔
یہ تو ہوا حقائق اور اعداد و شمار کا معاملہ۔ اب سوال یہ ہے کہ یورپ جیسے خطے کے لوگ ڈپریشن کا شکار کیوں ہیں‘ آخر انہیں کس بات سے شدید اضطراب لاحق رہتا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو اہلِ یورپ کو سکون کا سانس نہیں لینے دے رہے اور وہ دھیرے دھیرے اینٹی ڈپریسنٹس کے غلام ہوتے جارہے ہیں؟ آج اہلِ یورپ جس باطنی بحران سے دوچار ہیں وہ ان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ مغرب نے کم و بیش تین صدیوں کے عمل میں ایک ایسی طرزِ زندگی کو اپنایا اور پروان چڑھایا ہے جس میں انسانوں سے تعلق کو ثانوی حیثیت حاصل ہے اور اشیائے صرف کا پہلا نمبر ہے۔ مادی آسائشوں ہی کو سب کچھ مان کر زندگی بسر کرنے کا یہ انداز اس قدر بھیانک نتائج کا حامل ہوگا‘ یہ کسی نے کب سوچا ہوگا؟ یورپ کے ماڈل نے ہمیں بتایا ہے کہ مالی آسودگی تمام مسائل کا حل نہیں ہوتی۔ آج یورپ اس قدر مالی آسودگی کا حامل ہے کہ اس کی طرف متوجہ ہونے والے افراد لاکھوں میں ہیں اور وہ اپنے اپنے خطے یا ممالک کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر یورپی ممالک کو اپنا مستقبل مستقر بنانے کے لیے تیار ہیں۔ پس ماندہ خطوں سے تعلق رکھنے والے ذہین اور محنتی نوجوان کسی نہ کسی طور یورپی سرزمین تک پہنچنے کے متمنی رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک روئے ارض پر یہی ایک خطہ جنت یا جنت نظیر ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ خود اسی خطے کے لوگ شدید ڈپریشن کی زد میں ہوں اور دوائیں لینے پر مجبور بھی۔
بات اتنی سی ہے کہ جب انسان باقی معاشرے سے کٹ کر جیتا ہے اور اشیا و خدمات ہی کو سب کچھ گرداننے لگتا ہے تب زندگی کھوکھلی رہ جاتی ہے۔ یورپ نے خالص Impersonal زندگی کا تصور بھی تو دیا ہے یعنی اشیا و خدمات سے آراستہ ایسی زندگی جس میں کوئی بھی شخص ڈھنگ سے جینے کے لیے دوسرے انسانوں کی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو۔ ایسی زندگی بے رَس اور بے ذائقہ ہوتی ہے۔ مغربی دنیا مادے ہی کو سب کچھ گردانتی ہے۔ رشتوں کا احترام تو موجود ہے مگر ان کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ باہمی احترام بھی مشینی انداز کا ہوکر رہ گیا ہے۔ انسان نے کسی کے سلام کا جواب دینے کی ذمہ داری بھی آلات کو سونپ دی ہے۔ جب زندگی اتنی مشینی ہو جائے تو ذہن‘ باطن اور روح کا خالی رہ جانا ناممکن نہیں ہوتا۔ آج یورپ باطن اور روح کے کھوکھلے پن کا شکار ہے۔ اگر وہ نئی زندگی اور سکون چاہتا ہے تو لازم ہے کہ انسان کا انسان سے رشتہ سمجھا اور اپنایا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں