کیا یورپ کا ہنی مُون پیریڈ گزر چکا ہے؟ یہ سوال عالمی سیاست و معیشت پر نظر رکھنے والے ہر تجزیہ کار کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ یورپ نے دو عشروں کے دوران جو روش اختیار کی ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب باہر کی طرف دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ یورپ نے کم و بیش پانچ صدیوں تک دنیا بھر میں اکھاڑ پچھاڑ کی، کئی خطوں کو پامال کیا، اِس دوران دنیا بھر کے قدرتی وسائل جی بھرکے لُوٹے، کئی سلطنتوں اور ریاستوں کو خاک میں ملایا اور اپنے لیے دنیا کو جنت نظیر بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ یورپ اپنی اِس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا۔ دنیا کو اُس نے پا ہی لیا۔ اِس کوشش میں بہت کچھ ہاتھ سے جاتا بھی رہا مگر اُس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
یورپ کو احساس ہے کہ اُس نے صدیوں تک مظالم ڈھائے ہیں۔ آج علم و فن کے جس مقام پر یورپ کھڑا ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے اُس نے بہت سے خطوں کو یوں تاراج کیا ہے کہ وہ اب تک اپنے پیروں پر کھڑے ہی نہیں ہوسکے۔ دوسروں کی قبروں پر اپنے تاج محل کھڑے کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یورپ نے بھی جب مذہب کو تج کر دنیا کو اپنانے کی ٹھانی تب یہ نہیں دیکھا کہ اُس کے کس عمل سے کسے کتنا نقصان پہنچے گا۔ اُس نے اپنی دُھن میں بڑھتے ہی جانے کا ارادہ کیا اور اُس پر عمل بھی کیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آج یورپ کی چمک دمک سے ایک دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔ یورپ کا بیشتر حصہ انفرادی سطح پر ایسے معیارِ زندگی کا حامل ہے جس کا ہزاروں سال تک محض خواب دیکھا گیا۔ خالص مادّی اعتبار سے ایسا اعلیٰ معیارِ زندگی آج بھی بہت سے خطوں کے لیے محض خواب ہی ہے۔ یورپ اور امریکہ مل کر مغرب کو تشکیل دیتے ہیں۔ امریکہ کی شاندار مادّی ترقی میں بھی کلیدی کردار یورپ ہی نے ادا کیا۔ آج یورپ اُداس ہے۔ جس ترقی کے لیے اُس نے صدیوں تک درجنوں ممالک پر مظالم ڈھائے، معاشروں کو تہس نہس کیا وہی ترقی آج اُسے پریشان کر رہی ہے۔ یہ خالص غیر انسانی یعنی محض مادّی ترقی یورپ کے ذہن میں خلفشار مچارہی ہے۔ یورپ کے اہلِ نظر اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ آج جس قابلِ رشک معیارِ زندگی کے حامل ہیں وہ سب کا سب بالکل درست نہیں۔ آج یورپ دنیا بھر کو اخلاقی بلندی اور برتری کا درس دے رہا ہے مگر یہ نہیں بتارہا کہ اُس نے اپنی شاندار مادّی ترقی یقینی بنانے کے لیے اخلاقی اقدار کو کس حد تک پامال کیا۔ یورپ کا قابلِ رشک معیارِ زندگی آج بھی ایک دنیا کو متاثر کر رہا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ایک بھیانک ماضی بھی تو ہے جس کا یورپ میں بہت سوں کو شدت سے احساس ہے۔
امریکہ نے یورپ کے ساتھ مل کر ایک صدی کے دوران باقی دنیا کو اپنی مٹھی میں لینے کی بھرپور اور بہت حد تک کامیاب کوشش کی۔ آج دنیا جس عالمی سیاسی و معاشی نظام کے تحت چلائی جارہی ہے وہ امریکہ اور یورپ کا وضع کردہ ہے اور، ظاہر ہے کہ اُنہی کی مٹھی میں ہے۔ اب امریکہ اور یورپ کی طاقت میں اچھی خاصی کمی واقع ہوچکی ہے مگر عالمی سیاسی و معاشی نظام پر فیصلہ کن حد تک متصرف ہونے کی بدولت یہ دونوں خطے اب بھی خوب فوائد بٹور رہے ہیں۔ چین، روس، بھارت اور ترکیہ کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باوجود امریکہ اور یورپ اب تک بیشتر عالمی معاملات میں اپنی بات منوانے میں اس لیے کامیاب ہیں کہ عالمی سیاسی و معاشی نظام اُن مرضی کے مطابق چلایا جارہا ہے۔ چین اور روس اب مغرب کی اجارہ داری کے لیے بہت بڑا خطرہ بن کر ابھرے ہیں۔ چین اب تک عسکری مہم جُوئی سے گریزاں رہا ہے؛ تاہم روس اِس معاملے میں کھل کر سامنے آچکا ہے۔ وہ اپنی عسکری طاقت بھی منوانا چاہتا ہے اور معاشی قوت بھی۔ یورپ اس تبدیلی سے پریشان بھی ہے اور خائف بھی۔ پریشان اِس لیے کہ وہ عالمی سیاست و معیشت میں اپنی بات بھرپور طور پر منوانے کے لیے قابل نہیں رہا اور خائف اِس لیے کہ جن خطوں کو اُس نے صدیوں تک لُوٹا ہے وہ اگر چین اور روس کے ساتھ مل کر محاذ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو؟ ایسی کوئی بھی تبدیلی یورپ کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگی۔
آج یورپ اندرونی مسائل میں بُری طرح الجھا ہوا ہے۔ یورپ کے بعض حصے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اُنہیں بھی برابری کی بنیاد پر پنپنے کے مواقع درکار ہیں۔ یورپ میں غیر معمولی ترقی سے ہم کنار ریاستیں ایک خاص حد تک رعایت دینے کو تیار ہیں۔ سابق کمیونسٹ بلاک سے تعلق رکھنے والی ریاستیں چاہتی ہیں کہ اُنہیں تیزی سے پنپنے کا مواقع دیا جائے، ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں انفرادی سطح پر قابلِ رشک معیارِ زندگی یقینی بنایا جاسکے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ اِس کے لیے تیار نہیں۔ سکینڈے نیوین ممالک (فن لینڈ، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، سوئیڈن وغیرہ) فلاحی ریاستوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے باشندوں کو ایسا معیارِ زندگی فراہم کرنے میں کامیاب رہے ہیں جو باقی دنیا کے لیے اب بھی محض خواب ہے۔ یورپ کے پس ماندہ ممالک کی طرف سے اِن ترقی یافتہ ممالک کے لیے خطرات ابھر رہے ہیں۔ جرمنی اور فرانس کا رویہ کشیدگی بڑھارہا ہے۔ یہ دونوں ریاستیں اپنی طاقت کے ذریعے یورپ کے معاملات کو اپنی مٹھی میں لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یورپی یونین کی توسیع کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے مگر اس توسیع کی مخالفت بھی بڑھ رہی ہے کیونکہ یورپ کے پسماندہ ممالک یورپی یونین کے ترقی یافتہ ممالک کی نظر میں محض بوجھ ہیں۔ وہ اپنی ترقی کے ثمرات میں دوسروں کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یورپی یونین کا مجموعی مزاج یہ ہے کہ گھر کے معاملات درست کرنے پر توجہ دی جائے۔ امریکہ اب بھی بیرونی محاذوں پر مہم جُوئی کا خواہش مند ہے مگر یورپ اِس کے لیے بالکل تیار نہیں۔ یوکرین کے معاملے میں یہی ہوا ہے۔ روس کی لشکر کشی نے پورے یورپ کے لیے خطرات کھڑے کیے مگر یورپی طاقتیں روس کے مقابل کھڑی ہونے سے گریزاں ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ یوکرین اپنی جنگ خود لڑے۔ یورپی یونین اس جنگ میں کودنے کے لیے تیار نہیں۔ دو عالمگیر جنگوں کا تجربہ شاہد ہے کہ سب سے زیادہ نقصان یورپ کو برداشت کرنا پڑا تھا۔ یہی سبب ہے کہ یورپی طاقتیں اب کسی بھی بیرونی محاذ پر زیادہ متحرک ہونے سے مجتنب ہیں۔ یورپ مجموعی طور پر تذبذب کا شکار ہے۔ وہ سمجھ نہیں پارہا کہ اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے کس نوعیت کی حکمتِ عملی اختیار کرے۔ وہ نرم قوت کے بل پر چلنا چاہتا ہے۔ امریکہ عسکری مہم جُوئی سے باز نہیں آرہا مگر یورپ نے طے کرلیا ہے کہ علم و فن، معیشت، مالیات، سیاحت اور نرم قوت کے دیگر مظاہر کی مدد سے اپنے آپ کو عالمی سیاست میں کسی حد تک زندہ رکھا جائے۔ اگر یورپی قائدین امریکہ کے ساتھ چلیں گے تو یورپ کی ہدف پذیری بڑھ جائے گی۔ جو خطے امریکہ سے ناراض ہیں وہ امریکہ کے ساتھ یورپ کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔ یورپی یونین کی سربرآوردہ شخصیات فی الحال ایسا کچھ نہیں چاہتیں۔
یورپ کا رقبہ بھی کم ہے اور شرحِ پیدائش بھی تقریباً منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں تو یورپ اب کچھ بھی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ شعبے چین کی مٹھی میں ہے۔ اشیا سازی کے حوالے سے چین کو پاور ہاؤس کہا جاتا ہے۔ یورپ کے پاس لے دے کر اب علم و فن کا میدان رہ گیا ہے۔ ہائی ٹیک کے شعبے میں اپنی پوزیشن مضبوط رکھ کر ہی یورپ کچھ کرسکتا ہے۔ ثقافتی اعتبار سے یورپ کی برتری اب تک برقرار ہے۔ دنیا بھر میں یورپ کی ثقافت اور طرزِ زندگی سے مرعوب ذہن کروڑوں نہیں‘ اربوں میں ہیں۔ یورپ اگر آگے جانا چاہتا ہے تو سمت یہی رکھنا پڑیگی۔ سمت بدلنا اُس کے لیے ممکن ہی نہیں۔ عسکری مہم جُوئی میں یورپ نے صدیاں گزاری ہیں اور ذلت ہی سمیٹی ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے درجنوں ممالک میں آج بھی یورپ کیلئے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ یورپ کے بڑے ذہن اِس حقیقت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اُن کیلئے اور کوئی راستہ نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو اچھا زمانہ گزر چکا ہے وہ اب نہیں آنیوالا۔ ایسے میں موجودہ زمانے ہی کو اپنا بنایا جانا چاہیے۔