جب تک زندگی ہے تب تک انسان کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ زندگی کا سفر اِسی طور جاری رہتا ہے۔ کسی بھی انسان کے وجود کا معاشی پہلو باقی تمام امور پر حاوی رہتا ہے کیونکہ زندگی میں سکون پیدا کرنے والا نمایاں ترین پہلو یہی ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، اگر معاشی معاملات میں کماحقہٗ محنت نہ کر پائے اور جو کچھ ملنا چاہیے وہ حاصل نہ ہو پائے تو کمی اِس قدر محسوس ہوتی ہے کہ پھر انسان اپنے آپ سے بھی شکوہ کُناں رہتا ہے اور معاشرے سے بھی نالاں رہنے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔
گزارے کی سطح پر جینا کبھی کسی کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ انسان کسی نہ کسی طور پیٹ تو بھر ہی لیتا ہے۔ بات پیٹ بھرنے سے شروع ہوکر پیٹ بھرنے پر ختم نہیں ہوتی۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے انسان کو بہت کچھ چاہیے۔ زندگی کو حقیقی معنوں میں قابلِ رشک بنانا ہر انسان کے بس میں ہے مگر اِس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ لوگ جاں فشانی کے مرحلے سے گزرنے کو ترجیح نہیں دیتے اور تھوڑے پر گزارہ کرتے رہتے ہیں۔ اگر تھوڑے پر گزارہ کرتے ہوئے صبر و شکر کا مظاہرہ کیا جائے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنی صلاحیت و سکت کو کماحقہٗ بروئے کار لانے سے گریز کرتے ہیں اور پھر اِس بات کا رونا بھی روتے ہیں کہ معاشرے نے اُنہیں کچھ بھی نہیں دیا۔ معاشرہ کسی کو کچھ نہیں دیتا! کسی بھی انسان کے پاس جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ اُس نے خود حاصل کیا ہوتا ہے۔ ہر عہد چند ایک چیلنجز لے کر آتا ہے اور اہلِ جہاں کو آزماتا ہے۔ کسی زمانے کو اِس تابندہ روایت سے استثنا نہیں مل سکا تو پھر عہدِ حاضر بھلا کیوں خصوصی قرار پائے؟ آج ہم اپنے ماحول میں ایسی بہت سی تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں جو چیلنج کا درجہ رکھتی ہے اور چیلنج بھی ایسا کہ ذرا سی اونچ نیچ سے پوری زندگی ہی اِدھر سے اُدھر ہو جائے۔ غور کیجیے تو یہ اندازہ لگانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ فی زمانہ ہر قدم پر محتاط رہنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ لوگ بدلتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہیں نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کسی معاملے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جائے گی تو پھر اُس کے ذریعے پیدا ہونے والے چیلنج سے نمٹنا کیونکر ممکن ہوسکے گا؟ ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا کی بات ہی رہنے دیجیے، ترقی یافتہ معاشروں میں بھی عام آدمی اِس حقیقت کا پورا ادراک نہیں رکھتا کہ اب خود کو بدلتے رہنا ہی زندگی ہے۔ کہیں بھی‘ کچھ بھی جامد نہیں۔ ایسے میں انسانوں کا جامد رہنا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ لگے بندھے معمولات کے تحت زندگی بسر کرنے والوں کو آپ دور سے شناخت کرسکتے ہیں۔ اُن کی زندگی کا جمود اِتنا واضح ہوتا ہے کہ (اُن کے سوا) سب کو صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھنے کے لیے دنیا بھر میں 80 فیصد سے زائد افراد اب بھی تیار نہیں کہ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی زندگی میں صرف اور صرف تبدیلیاں ہیں۔ اب تبدیلیوں ہی کو زندگی سمجھیے اور اِنہی کے دامن سے وابستہ رہیے۔ تبدیلیوں کو سمجھنا اب مرتے دم تک کا معاملہ ہے۔ اور معاملہ تبدیلیوں کو محض سمجھنے تک محدود نہیں بلکہ اُن کی تفہیم سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیوں سے ہم کنار ہونا بھی ناگزیر ہے۔ جو کچھ بدل رہا ہے وہ ہمیں بھی بدلنے کی تحریک دے رہا ہے۔ ہر معاملے میں ایسی سوچ درکار ہے جو پختہ بھی ہو اور تبدیلی کو قبول کرنے والی بھی۔
ویسے تو خیر کسی بھی معاملے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں انسان کو بدلنے کی راہ پر ڈالتی ہیں؛ تاہم سب سے اہم ہوتی ہیں معاشی تبدیلیاں۔ انسان ڈھنگ سے زندہ رہنے کے لیے جو معاشی تگ و دَو کرتا ہے وہی زندگی کا حاصل ہے۔ معاشی معاملات میں پایا جانے والا توازن، دیانت اور جاں فشانی شخصیت کو بلند کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی بھی انسان کو پُرسکون دیکھیے گا تو دریافت کرنے پر جان پائیے گا کہ اُس نے معاشی معاملات کو قابو میں کر رکھا ہے۔ کمانا ہر انسان کا بنیادی حق اور فرض ہے۔ جب تک سانسوں کا تسلسل برقرار ہے تب تک ڈھنگ سے زندہ رہنے کے لیے کمانے کی ذمہ داری تو نبھانا ہی پڑے گی۔ جب ایک کام کرنا ہی ہے تو ڈھنگ سے کیوں نہ کیا جائے؟ یہ حقیقت انسان جس قدر جلد سمجھ لے اُتنا ہی اچھا ہے۔ جن معاشروں نے کمانے کے معاملات کو خاطر خواہ اہمیت دی اور اُن سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیوں کو گلے لگایا اُنہیں آج ہم رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے زندگی کے تمام بنیادی مسائل کو عمدگی سے حل کرنے میں کامیابی یقینی بنائی ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشرے اِس حوالے سے نمایاں ترین مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ باقی دنیا اُنہیں دیکھ کر اپنے آپ کو اعلیٰ معیار کی زندگی تک پہنچانے کی تحریک پاتی ہے۔ مغرب کی سوچ باقی دنیا پر حاوی ہے۔ مغرب سے نکلنے والے فیشن باقی دنیا کے لیے قابلِ تقلید نمونوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ مغرب کی طرزِ تعلیم دنیا بھر میں اپنائی گئی ہے۔ علم و فن کے ہر شعبے میں مغرب سربراہ کے منصب پر فائز ہے۔ یہ سب کچھ اِس لیے ہے کہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرکشش بنانے پر توجہ دی گئی ہے۔ اہلِ مغرب نے دنیا کو پوری دلچسپی سے گلے لگایا ہے۔ اِس عمل میں اُنہوں نے بہت کچھ کھویا بھی ہے مگر خیر‘ اُس پر بحث کی یہاں گنجائش نہیں۔
گزشتہ صدی میں جتنی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں اُسے دیکھتے ہوئے یہ سوچا جارہا تھا کہ اکیسویں صدی انتہائی انقلابی نوعیت کی ہوگی اور ایسا ہی ہے۔ آج تبدیلی کی رفتار ہوش و حواس سے بیگانہ کردینے والی ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ توجہ طلب معاملہ ہے کمانے دھمانے کا۔ معاشی معاملات کی پیچیدگی بہت بڑھ گئی ہے۔ چار عشروں پہلے تک دنیا بھر میں لگ بندھا معاشی ڈھانچا تھا۔ لوگ کسی ایک دفتر، فیکٹری یا دکان میں زندگی گزار دیا کرتے تھے۔ ایک ملازمت کو زندگی سمجھ لیا جاتا تھا۔ اب اِس حوالے سے سوچ بہت بدل گئی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ انسان بہتر کی تلاش میں رہے اوروقت کے مطابق کام بدلتا رہے۔ آج کام کے معاملات بہت مختلف اِس لیے ہیں کہ ٹیکنالوجیز کی آمد سے ہر شعبہ بدلتا جارہا ہے۔ کبھی کبھی ٹیکنالوجیز کی آمد اِس طور ہوتی ہے کہ کسی شعبے کے لیے سنبھلنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ آجر چاہتے ہیں کہ اُن کے منافع کا تناسب بڑھتا جائے۔ اِس کے لیے لاگت کا گھٹایا جانا لازم ہے۔ لاگت گھٹانے کے لیے غیر ضروری سٹاف سے چھٹکارا ناگزیر ہے۔ یہی سبب ہے کہ مصنوعی ذہانت یعنی مشین سے کام لینے میں زیادہ دلچسپی لی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں بیشتر آجروں کی سوچ یہ ہے کہ دفتر، فیکٹری یا سائٹ پر کام کا بڑا حصہ مشینوں کے حوالے کردیا جائے اور انسانوں سے جان چھڑائی جائے۔ یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ چیلنجز اور بھی ہیں اور ہر چیلنج سے نپٹنا بھی ہے۔ کمانا کبھی آسان نہ تھا مگر اب تو یہ جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جارہا ہے۔ سوال گزارے کی سطح کا نہیں بلکہ زندگی کے معیار کو قابلِ رشک بنانے کا ہے۔ جو لوگ ہر معاملے میں قابلِ رشک معیار تک پہنچنا چاہتے ہیں اُنہیں بہت کچھ کرتے رہنا پڑے گا۔
آج ہر معاشرے کے عام آدمی کو سمجھنا ہے کہ اگر وہ قابلِ رشک انداز سے جینا چاہتا ہے تو زیادہ کمانا پڑے گا اور زیادہ کمانے کے لیے متنوع سوچ اپنانا پڑے گی۔ لگی بندھی نوعیت کی ملازمتیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ کسی کو زیادہ کمانا ہو تو سیلف ایمپلائمنٹ ایک اچھا طریقہ ہے یعنی کسی کی ملازمت اختیار کرنے کے بجائے محض کام کیا جائے۔ مثلاً اگر کسی کو کچھ کرانا ہو تو آپ کو ملازمت دینے کے بجائے کام بتائے اور طے شدہ معاوضہ ادا کرے۔ ہمارے ہاں سیلف ایمپلائمنٹ کا چلن ایک زمانے سے ہے مگر لوگ اِس معاملے میں ڈھیلی ڈھالی سوچ رکھتے ہیں۔ پروفیشنل اپروچ کے ساتھ کام کیا جائے تو کمانے کے لیے سیلف ایمپلائمنٹ سے اچھا طریقہ کوئی نہیں کیونکہ اِس میں انسان کسی کا پابند نہیں ہوتا اور اوقاتِ کار بھی اپنی مرضی کے مطابق طے کرتا ہے۔ کام کی دنیا کے چیلنجز جان لیوا ہیں مگر حقیقت پسندی کے ساتھ پروفیشنل اپروچ اپنائی جائے تو بہتر امکانات ڈھونڈ نکالنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔