زندگی کو کھیل سمجھنے والوں کی کمی نہیں۔ مگر ''اصل حقیقت‘‘ یہ ہے کہ زندگی ہم سے کھیلتی رہتی ہے۔ جب کبھی زندگی پر تھکن سوار ہوتی ہے اور وہ آرام کے موڈ میں ہوتی ہے تب ہم‘ کچھ دیر کے لیے‘ ایک دوسرے سے کھیلنے لگتے ہیں! یہ سب کچھ ہماری آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔ آپس میں یعنی ایک دوسرے سے کھیلنے اور محظوظ ہونے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ ایسا ہے جس کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ذرا سوچئے کہ وہ طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ آج تک طے نہ ہوسکا کہ ہمارا قومی کھیل کیا ہے۔ یار لوگوں سے سنا ہے کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے۔ کبھی کبھی اِس بات پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ جو پوری قوم کا حال ہے وہی ہاکی کا بھی ہے! یاروں نے اِس کھیل سے اِتنا کھلواڑ کیا کہ اب بقول غالبؔ
ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے!
بچپن میں تو گلی ڈنڈا قومی کھیل کا درجہ اختیار کیے رہتا ہے۔ ویسے ہاکی اور گلی ڈنڈے میں خاصی مماثلت ہے۔ دونوں میں لاٹھی ہے۔ شاید اِسی لیے ہم بچپن ہی سے سیکھ جاتے ہیں کہ جس کی لاٹھی‘ اُس کی بھینس! یہ اور بات کہ ہمیں اب تک لاٹھی ملی ہے نہ بھینس۔
کیریئر کی ابتداء میں ہم ایک اخبار میں ٹرینی سب ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ اُس کے میگزین ایڈیٹر راشد عزیز تھے۔ ایک سینئر کارکن شاہد الانوار شیروانی زیبِ تن کرکے دفتر آیا کرتے تھے۔ ایک دن راشد عزیز نے اُن سے پوچھا کہ آپ شیروانی کیوں پہنتے ہیں۔ جواب میں اُنہوں نے کہا: یہ شرفا کا لباس ہے۔ راشد عزیز نے جھٹ کہا: پھر آپ کیوں پہن کر آتے ہیں! کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم کرکٹ میں اِتنی دلچسپی کیوں لیتے ہیں کہ یہ تو ''شرفا کا کھیل‘‘ ہوا کرتا تھا۔ کرکٹ کا عجیب حال ہے کہ اِس ایک کھیل میں کئی کھیل سماگئے ہیں یا سمودیے گئے ہیں۔ جب کرکٹر میدان میں ہوتے ہیں تب کرکٹ کے سوا سبھی کچھ کھل کر کھیلا جارہا ہوتا ہے! کسی زمانے میں بلیئرڈ بھی شرفا کا کھیل ہوا کرتا تھا اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ قائداعظم بھی بلیئرڈ کھیلا کرتے تھے مگر اب حالت یہ ہے کہ جہاں کہیں تھوڑی بہت سرکاری زمین فارغ پڑی دکھائی دیتی ہے، یار لوگ قبضہ کرکے بڑا سا جھونپڑا بناتے ہیں اور اُس میں بلیئرڈ نما سنوکر کلب کھول لیتے ہیں!
ملک میں مختلف سطحوں پر طرح طرح کے کھیل رائج ہیں جن میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طور قومی کھیل کا سا درجہ حاصل ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ سرکاری دفاتر میں چھپن چھپائی مقبول ترین کھیل ہے۔ چھپن چھپائی کی ایک شکل یہ ہے کہ بندہ گھر بیٹھا رہے یعنی دفتر میں دکھائی بھی دے اور تنخواہ اوور ٹائم سمیت وصول کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی بندہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے بہت سا مال سمیٹ کر غائب ہو جائے اور پھر سب اُسے ڈھونڈتے پھریں! مگر صاحب! کرکٹ، ہاکی، گلی ڈنڈا، بلیئرڈ، سنوکر سب آنے جانے والے کھیل ہیں۔ ایک کھیل ایسا ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ کِسی مائی کے لعل میں دم نہیں کہ اِس کھیل کو صفحۂ ہستی سے مِٹاسکے۔ یہ کھیل ہے بات بات پر منہ پھلانے اور رُوٹھ جانے کا! اِس کھیل کے لیے ویسے تو خیر عمر کی کوئی قید نہیں‘ لوگ بڑھاپے کی آخری حد کو چھونے کے مرحلے میں بھی یہ کھیل کھیلتے رہتے ہیں مگر جوانی بلکہ اُٹھتی ہوئی جوانی میں یہ کھیل کچھ زیادہ ہی جلوے بکھیر رہا ہوتا ہے!
لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اپنی اہمیت منوانی ہے تو بس رُوٹھ جائیے۔ اور جب کوئی منائے تو مزید رُوٹھ جائیے۔ پھر جب لوگ منانے سے باز آنے لگیں تو آسانی سے مَن جانے کا عندیہ دیجیے! منہ پھلاکر زندگی بسر کرنے کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ فی زمانہ کرکٹ اور دیگر کھیلوں کے مقابلوں میں سٹّے کا چلن زیادہ ہے۔ آسانی سے اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کوئی ہار رہا ہے تو وہ واقعی ہار رہا ہے یا دانستہ مد مقابل کو فتح یاب کر رہا ہے! آپ کوشش کرکے بہرحال کچھ نہ کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کوئی کیوں ہار رہا ہے اور کوئی کیوں جیت رہا ہے مگر منہ پھلانے اور بات بات پر رُوٹھنے کا معاملہ ایسا ہے کہ ٹھیک سے اندازہ ہو ہی نہیں پاتا کہ کون کب رُوٹھنے کے موڈ میں ہے اور کب مَن جانے کے mode میں آچکا ہے! بعض خاندانوں کا تو یہ حال ہے کہ سب کو ڈائری میں باضابطہ حساب رکھنا پڑتا ہے کہ آج کل کون کس سے ناراض ہے اور کون کس سے مل رہا ہے!
منہ پھلانے، رُوٹھنے اور بات چیت بند کرنے کا کھیل ویسے تو اور بہت سے میدانوں میں کھیلا جاتا ہے مگر اِس سلسلے میں پسندیدہ ترین گراؤنڈ ہوتا ہے شادی والا گھر! شادی کی تقریب اُن لوگوں کے لیے نعمت سے کم نہیں جنہیں بات بات پر ٹھنکنے، غصّے سے بپھرے ہوئے سانپ کی طرح پھنکارنے اور مینڈک کی طرح منہ پھلاکر بات بند کرنے کا بہانہ درکار ہوتا ہے! خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوئی ہاتھ پیر جوڑ کر منائے۔ جس کے گھر میں شادی ہو رہی ہو اُس بے چارے کو شادی کے لوازم، کھانے پینے اور مہمانوں کے ٹھہرنے کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ کون کون منہ پھلائے بیٹھا ہے۔ کہیں کہیں تو یہ منظر بھی دِکھائی دیتا ہے کہ بے چارے میزبان چند اڑیل ٹٹوؤں کو منانے ہی میں ادھ موئے ہو جاتے ہیں! اور دوسری طرف یہ اڑیل ٹٹو '' زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کی عملی تصویر بنے لوگوں کی بھرپور تفریح کا سامان کر رہے ہوتے ہیں! اب حکومت کو قومی کھیل وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ قوم نے رُوٹھنے، منہ پھلانے اور بات چیت بند کرنے کو اصلی تے وڈّا قومی کھیل بنالیا ہے! منہ پھلانے والوں کی ''برکت‘‘ ہی سے شادی کی بعض تقریبات کا بیڑہ یوں غرق ہوتا ہے کہ رقیبانِ رُو سیاہ کے کلیجے میں ٹھنڈک سی ''پے‘‘ جاتی ہے۔ بعض خاندانوں میں شادی کے موقع پر رُوٹھنے اور ٹھنکنے کا معاملہ ''انٹرا فیملی‘‘ مقابلے کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے اور کچھ لوگ محض یہ تماشا دیکھنے ہی کے لیے شادی کے جھمیلے میں شریک ہوتے ہیں! کبھی کبھی تو یہ تماشا اِس قدر دلچسپ ہو جاتا ہے کہ دُلھا اور دُلھن بھی اپنی اپنی رُسومات اور چونچلے بازی بھول کر رُوٹھنے والوں کو منانے کی کوششیں دیکھنے میں مگن ہو جاتے ہیں! شادی بیاہ میں رُوٹھنے کے شوقین اور عادی افراد کے لیے منہ پھلانا ذہن کو وہی تسکین فراہم کرتا ہے جو ہاضمے کا چورن معدے کو بخشتا ہے! جب تک یہ رُوٹھ نہ لیں، اِن کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں سے ملاقات کے دوران کرید کرید کر پوچھنا پڑتا ہے کہ آج کل کس کس سے بات چیت بند ہے اور کس کس سے کھلی ہوئی ہے تاکہ گفتگو میں کسی کے بخیے اُدھیڑنے اور کسی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں آسانی رہے!
ماہرین نفسیات زمانے بھر کے موضوعات پر غور کرتے رہتے ہیں اور پھر تحقیق کا بازار گرم کرتے ہیں مگر اُنہیں اندازہ ہی نہیں کہ رُوٹھنے اور مَننے میں کیا لطف پوشیدہ ہے! جب کوئی منّت سماجت کرکے منانے کی کوشش کرتا ہے تب دل کو وہ سُکون ملتا ہے جس کی تلاش میں سادھو سنیاسی ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کی چوٹیاں کھنگالتے پھرتے ہیں! ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی زندگی بات بات پر ناراض ہونے اور ناز اُٹھوانے میں گزری ہے۔ اور اِس کام میں اُنہوں نے ایسا مزہ پایا ہے کہ اب کچھ اور نہ بھی ملے تو زندگی سے شاید اُنہیں کچھ خاص شکوہ نہ ہوگا! مغرب کی ترقی کا شور ہم ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں۔ مگر یہ کیا کہ اعلیٰ تعلیم پائی، کیریئر شروع کیا، ترقی کی، خوش حالی سے ہم کنار ہوئے، بوڑھے ہوئے اور مرگئے۔ ایسی ''لگی بندھی‘‘ اور ''دقیانوسی‘‘ زندگی بھلا کس کام کی؟ زندگی کے مزے اُن سے پوچھئے جو رُوٹھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کیا بات ہے! ایسا لگتا ہے جیسے کائنات سمٹ کر قدموں میں آگئی ہے! ترقی کے نام پر مشینی زندگی بسر کرنے والوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ کبھی ذرا منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہمارے اصلی تے وَڈّے کھیل کو بھی اپنائیں اور زندگی کا ایک ایسا انوکھا مزہ چکھیں جو اُن کے معاشروں میں بالکل نہیں پایا جاتا! ہاں‘ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر اِس کھیل میں مزہ نہ آئے تو پیسے واپس نہیں ملتے!