"MIK" (space) message & send to 7575

مغرب راہ بدلنے پر مجبور؟

مغرب عجیب مخمصے کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ پوری دنیا سے مال بٹور رہا ہے، معدنی وسائل پر بھی نظر ہے اور بہترین افرادی قوت بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا۔ مگر الجھن کی بات یہ ہے کہ موجودہ عالمگیر معاشی و مالیاتی نظام اب مغرب کے گلے کی ہڈی بنتا جارہا ہے۔ عالمگیریت کے نام پر مغرب نے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر جو منصوبہ سازی کی تھی وہ اُس کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے ختم ہونے پر امریکہ اور یورپ نے مل کر دنیا کی قیادت سنبھالی اور عالمی سیاست و معیشت کیلئے لبرل ڈیموکریٹک نظامِ سیاست و معیشت تشکیل دیا۔ اِس لبرل نظام کے تحت آزاد تجارت کو بھی خوب بڑھاوا دیا گیا۔ سوویت یونین اور اُس کے زیرِ اثر معاشرے بند تھے۔ امریکہ اور یورپ نے مل کر دنیا کو آزاد معاشرے کا تصور ہی نہیں دیا بلکہ اُسے عملی شکل دینے میں معاونت بھی کی۔ آزاد معاشروں کے درمیان دوسرے بہت سے معاملات کی طرح تجارت بھی آزاد ہونی تھی۔ مغرب ہی نے بین الریاستی یا بین الاقوامی تجارت کا پُرانا ڈھانچا (مرکنٹائل اِزم) ترک کرکے آزاد تجارت کا تصور دیا۔ دنیا کو یقین دلایا گیا کہ آزاد تجارت کو پروان چڑھانے سے دنیا بھر کے غریب و پسماندہ ممالک اور خطوں کو باقی دنیا سے ہم آہنگ ہونے میں مدد ملے گی، افلاس کا گراف گرے گا اور یوں خوشحالی کی راہ ہموار ہوگی۔ مغرب نے آزاد معاشرے اور آزاد تجارت کا جو تصور دیا تھا اُس پر عمل کرتے ہوئے دنیا نے سات عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران افلاس کا گراف نیچے لانے اور متوسط طبقے کو مضبوط بنانے میں خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کامیابی کئی ریاستوں کو مکمل ناکامی سے بچاچکی ہے اور عام آدمی کو کسی حد تک سُکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ کیا مغرب کو اِس کا کریڈٹ لینا چاہیے؟ یقینا کیونکہ عالمگیریت کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار مغرب ہی نے ادا کیا ہے۔
تین عشروں کے دوران عالمی تجارت کو ایک لڑی میں پرونے اور مالیاتی معاملات کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں مغرب نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے اور اب تک اِس کے فوائد بھی بٹور رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب امریکہ اور یورپ میں عالمگیریت کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ عالمگیریت کا غلغلہ تو مغرب ہی نے بلند کیا تھا۔ اُسی نے باقی دنیا کو بتایا تھا کہ دنیا بھر کی اقوام کو ایک لڑی میں پرونے کی ضرورت ہے اور اِس حوالے سے تجارت مضبوط ڈوری کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ علاقائی بنیاد پر کی جانے والی تجارت کو پوری انسانیت کیلئے ناکافی اور غیر موزوں قرار دے کر مغرب نے یہ تصور دیا کہ کوئی بھی معاشرہ خود کو الگ تھلگ نہ رکھے بلکہ سب ایک دوسرے کو سمجھیں اور اپنائیں۔ پھر اب ایسا کیا ہو گیا ہے کہ مغربی ممالک ہی عالمگیریت سے بیزار سے دکھائی دے رہے ہیں؟
ملکی یا علاقائی سطح پر ظاہر ہونے والے رجحانات بلا جواز نہیں ہوتے۔ آج مغرب عالمگیریت کی راہ سے ہٹنے کے لیے بے تاب ہے تو اِس کی وجوہ کو سمجھنا کچھ دشوار نہیں۔ 1980 کے عشرے کے وسط میں جب انٹرنیٹ آیا اور عالمگیر سطح پر رابطے آسان ہوئے تو مغرب نے آئی ٹی سیکٹر میں بھی قیادت کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورے۔ امریکہ و یورپ کی ہائی ٹیک کمپنیوں نے غیر معمولی فوائد بٹورنے کے بعد جب عالمگیریت کا ڈول ڈالا تب دنیا نے حیرت کا اظہار کیا اور مسرت محسوس کی۔ حیرت اِس لیے تھی کہ اِس سے قبل مغرب کسی کو کچھ دینے کے حق میں دکھائی نہ دیتا تھا اور مسرت محسوس کرنے کا سبب یہ تھا کہ شدید افلاس و پسماندگی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ممالک اور خطوں کو عالمگیریت کی شکل میں اپنے لیے کسی حد تک راہِ نجات دکھائی دے رہی تھی۔ اُنہیں سُرنگ کے دوسرے سرے پر تھوڑی بہت روشنی نظر آرہی تھی اور وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اب اُن کے دن پھرنے والے ہیں، خوشحالی کی وہ منزل آنے والی ہے جس کا اب تک خواب دیکھا جاتا رہا۔
کیا ایسا ہوسکا؟ اِس کا جواب نفی میں ہے۔ ایسا نہیں کہ عالمگیریت مکمل طور پر ناکام رہی۔ اس سے کئی خطوں کو سنبھلنے اور پنپنے کا موقع ملا مگر یہ تلخ حقیقت تاحال برقرار ہے کہ افریقہ اب تک شدید پسماندگی کا شکار ہے۔ اس کے طول و عرض میں زندگی آج بھی عذاب کی ایک شکل ہے۔ جنگوں اور خانہ جنگیوں کے نتیجے میں پورے پورے معاشرے شدید تباہی سے دوچار ہیں۔ بڑی طاقتوں نے افریقی ممالک کے معدنی وسائل جی بھرکے لوٹے ہیں مگر افریقیوں کا مستقبل سنوارنے اور اُن کی زندگی کو خوشحالی سے ہم کنار کرنے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا۔ کچھ ایسا ہی حال چند ایشیائی معاشروں کا بھی ہے۔ افغانستان اِس کی نمایاں ترین مثال ہے۔ سری لنکا اور جنوب مشرقی ایشیا کے چند ممالک کو بھی اِسی طور دبوچ کر رکھا گیا۔ عالمگیریت سے مغرب نے غیر معمولی فوائد بٹورے مگر پھر بھی وہ اِس راہ سے ہٹنا چاہتا ہے۔ کیوں؟ بات کچھ یوں ہے کہ داؤ تھوڑا سا اُلٹا پڑگیا ہے۔ مغرب نے جو کچھ چاہا تھا وہ سب نہیں ہوسکا۔ مغرب اپنی برتری ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ عالمگیریت کو عملی شکل محض اِس لیے نہیں دی گئی تھی کہ دنیا کو خوشحال ہونے کا موقع ملے۔ مغرب نے جو شاندار ترقی چار پانچ صدیوں کی محنت شاقہ کے نتیجے میں ممکن بنائی اُس کے ثمرات کو وہ مفت میں کیوں بانٹنے لگا؟ مغرب کے پالیسی میکرز نے جو کچھ سوچا تھا معاملہ جب ویسا نہیں ہوا تو وہ اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی پر مجبور ہوئے۔ گویا ؎
مے خانے میں زاہد سے کوئی چُوک ہوئی ہے
جانے کے قدم اور تھے آنے کے قدم اور
بات کچھ یوں ہے کہ امریکہ اور یورپ سے ایشیائی ممالک کا ابھرنا اور ایشیا کو عالمی سیاست و معیشت کا مرکز بنانے کی تگ و دَو میں مصروف ہونا ہضم نہیں ہو پارہا۔ جاپان کی ترقی بھی بے مثال رہی مگر وہ چونکہ مغرب نواز رہا ہے اِس لیے اُس سے کسی بھی مغربی طاقت کو کبھی کوئی بڑا خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ یوں بھی جاپان توسیع پسندانہ عزائم کا حامل نہیں اور عالمی سطح پر سیاسی و عسکری مہمات میں اپنے آپ کو منوانے کی راہ پر گامزن نہیں۔ چین کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ اُس نے امریکہ اور یورپ کو نیچا دکھانے کے عزم کے ساتھ ہی چار عشروں پہلے بھرپور ترقی کا سفر شروع کیا تھا۔ مغربی طاقتیں چین کی غیر معمولی معاشی قوت سے انتہائی خائف ہیں۔ یورپ پہلے ہی کونا پکڑ چکا ہے‘ اب امریکہ میدان میں تنہا رہ گیا ہے۔ جاپان اور دیگر مضبوط یورپی ممالک نے چین سے ہاتھ ملایا ہے اور عالمی معیشت میں اپنا اپنا کردار مل جل کر ادا کر رہے ہیں۔ جاپان کو یورپ کی قیادت کا بھی شوق نہیں رہا۔ یہی حال فرانسیسی قیادت کا ہے جو اپنے ہاں تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی سیاسی و معاشی قوت سے بھی خائف ہے۔ امریکہ کو پریشانی اِس لیے بھی لاحق ہے کہ اب وہ معاشی میدان میں چین کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ اس وقت عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ 21 فیصد اور امریکا کا حصہ 16 فیصد ہے۔ 1988ء میں یہ تناسب بالترتیب 3.6 اور 20 فیصد تھا! اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ اب کہاں کھڑا ہے ... اور کھڑا بھی ہے یا نہیں! ایسے میں مغرب کے لیے چین، بھارت اور روس کے علاوہ دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں سے نپٹنا کس طور ممکن ہوسکتا ہے؟
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اب مغرب باقی دنیا کو کیونکر یقین دلائے کہ عالمگیریت میں وہ بات نہیں پائی جاتی جس کا وہ خود سب سے بڑا داعی رہاہے۔ مغربی طاقتیں تین عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران سیاست و معیشت میں عالمگیریت کے فوائد کی ڈفلی بجاتی رہی ہیں۔ دنیا بھر میں افلاس کا گراف نیچے لانا کسی حد تک ممکن ہوا ہے مگر دوسری طرف چین، بھارت، روس اور ترکیہ وغیرہ بہت پنپ چکے ہیں اور مغرب کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ بھارت مغرب نواز رہا ہے اور اب بھی ہے مگر وہ بھی محض اپنے مفادات کا غلام ہے۔ بیرونِ ملک مقیم چینیوں اور بھارتیوں کی تعداد اِتنی زیادہ ہے کہ مغربی قوتیں بھارت سے اپنی بات منوانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں