بحران سب کے لیے ہیں۔ 1970ء کے عشرے کے وسط میں اُس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے شدید زعم میں لتھڑے ہوئے احساسِ تفاخر کے ساتھ کہا تھا ''اگلے ہفتے کوئی بحران رونما نہیں ہو سکتا‘ میرا شیڈیول فُل ہے!‘‘۔ گوکہ تب سوویت یونین کی شکل میں ایک اور سپر پاور موجود تھی تاہم امریکہ اور یورپ مل کر ایک ایسی سپر پاور کی حیثیت اختیار کیے ہوئے تھے جس کے آگے کسی کا چراغ نہ جلتا تھا۔ ایسے میں ہنری کسنجر کا گھمنڈ لاکھ قابلِ مذمت سہی‘ حیرت انگیز اور غیر متوقع بالکل نہ تھا۔
بحران سب کے لیے ہوتے ہیں۔ آخر کار انہیں بھی بحرانوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے جو دوسروں کیلئے بحران پیدا کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ کب بحرانوں کی زد میں نہیں رہا؟ یہ قدرت کا اصول ہے کہ جو دوسروں کیلئے گڑھے کھودتے ہیں وہ خود بھی ان میں سے کسی گڑھے میں گرتے ہی ہیں۔ واحد سپر پاور کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اپنی پالیسیوں سے دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کرنے والے امریکہ کو خود بھی گوناگوں خرابیوں کا سامنا رہا ہے۔ حالات جب بدلتے ہیں تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ کوئی کتنی ہی احتیاط برتے اور کیسی ہی منصوبہ سازی کرے‘ اگر نیت میں اخلاص نہ رہا ہو تو معاملات کی خرابی بالآخر اس پر اثر انداز ہوکر ہی رہتی ہے۔ امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں سلامتی کے مسائل پیدا ہوتے رہے ہیں۔ کئی ملکوں پر جنگ مسلط کرکے انہیں تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے والے امریکہ کو بھی اب مختلف معاشرتی اور نفسی مسائل کا سامنا ہے۔ یہ مسائل عمومی سطح پر معاشی خرابیوں کے بطن سے ہویدا ہوئے ہیں۔ امریکہ بھی معاشی خرابیوں کا شکار ہے۔ ہاں‘ نوعیت ذرا مختلف ہے۔ ہر سطح کے دکھ اور سکھ الگ ہوتے ہیں۔ امریکہ واحد سپر پاور ہے تو اس کی مشکلات بھی الگ ہی نوعیت کی ہیں۔
دنیا بھر میں کئی معاشرے امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں ایسی تباہی سے دوچار ہوئے کہ کروڑوں افراد شدید نوعیت کے ذہنی امراض کا شکار ہوگئے۔ کئی خطوں کو امریکہ اور یورپ کی پالیسیوں نے یوں پامال کیا ہے کہ اُن کیلئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اب تک ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ یورپ کو اپنی پالیسیوں کے غلط ہونے کا اندازہ بہت پہلے ہوگیا تھا اس لیے اس نے اپنی راہ الگ کرنے کو ترجیح دی اور اب ہر معاملے میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریزاں ہے۔ اب امریکہ خود معاشرتی اور نفسی پیچیدگیوں کی بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔ بیشتر امریکیوں کو ہائپر ٹینشن (بلند فشارِ خون) اور شدید ڈپریشن کا سامنا ہے۔ عمومی سطح پر پائی جانے والی بے چینی تو خیر اب امریکیوں کے مزاج کا حصہ ہے۔ ایک دنیا ہے کہ امریکہ جانے اور وہاں آباد ہونے کے خواب دیکھتی رہتی ہے اور خود امریکیوں کا یہ حال ہے کہ بڑھتی ہوئی معاشی اور معاشرتی پیچیدگیاں زندگی کو دشوار سے دشوار تر کیے دیتی ہیں۔
بہت حد تک قابلِ رشک معیارِ زندگی یقینی بنا لیے جانے کے باوجود امریکہ بھر میں خود کشی کا رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف یورپ میں خود کشی کا رجحان خاصا کمزور ہے۔ جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ‘ اٹلی اور سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں خود کشی کی طرف مائل ہونے والوں کی تعداد نمایاں طور پر کم ہے۔ فلاحی ریاست کا درجہ رکھنے والے اسکینڈینیوین ممالک (ناروے‘ سوئیڈن‘ ڈنمارک‘ نیدر لینڈز‘ فن لینڈ وغیرہ) میں لوگ بھرپور آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کیلئے بنیادی مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان ممالک میں لوگ قدرے خوش و خرم رہتے ہیں۔ امریکہ کا معاملہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اس کی معاشرتی الجھنوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نفسی پیچیدگیاں روز بروز خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔
گزشتہ برس امریکہ بھر میں کم و بیش ایک لاکھ دس ہزار افراد مختلف نشہ آور اشیا کے غیرمعمولی استعمال کے باعث موت کے گھاٹ اُترے۔ امریکیوں میں موٹاپا بھی عام بات ہے اور اس کے نتیجے میں اختلاجِ قلب بڑھنے سے اوسط عمر گھٹتی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندہ رہنے اور ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کی لگن کمزور پڑتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں امریکہ صحتِ عامہ کے حوالے سے فی کس اور اجتماعی بنیاد پر سب سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ اگست 2023ء کے وسط تک یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے خود کشی کے 49ہزار 500واقعات کی اطلاع دی تھی۔2020ء میں سوئٹزر لینڈ میں خود کشی کے ایک ہزار واقعات رونما ہوئے جو 60سال میں سب سے زیادہ تھے۔ جرمنی‘ فرانس اور برطانیہ میں خود کشی کے بارے میں سوچنے اور خود کشی کی کوشش کرنے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ یورپ میں لوگ زندگی سے بہت کم مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ تو پھر امریکہ میں ایسا کیا ہے کہ لوگ مایوسی کے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں؟ ماہرین کے نزدیک اس کی چار بنیادی وجوہ ہیں۔ پہلے نمبر پر ڈپریشن ہے۔ دوسرا نمبر معاشی عدمِ تحفظ کا ہے۔ تیسرے نمبر پر نشے کی لت ہے اور چوتھا نمبر معاشرتی تنہائی کا ہے۔ امریکیوں میں ڈپریشن بہت سی وجوہ کی بنیاد پر ہے۔ امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں دنیا بھر میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان کے ممکنہ اثرات بھی ڈپریشن کی وجوہ میں شامل ہیں۔ کروڑوں امریکیوں میں کسی حد تک احساسِ جرم پایا جاتا ہے۔ بیرونِ ملک عسکری مہمات میں حصہ لینے اور پس ماندہ ممالک کے لاچار انسانوں پر مظالم ڈھانے والے امریکی فوجی مرتے دم تک احساسِ جرم کے گھیرے میں رہتے ہیں۔ سابق امریکی فوجیوں کی خود کشی کے واقعات بھی دو دہائیوں کے دوران بڑھے ہیں۔
برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں خود کشی کا رجحان بڑھاپے کی منزل میں زیادہ توانا دیکھا گیا ہے جبکہ امریکہ میں نوجوان مایوسی کے گڑھے میں گر کر خود کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 2000ء سے 2021ء کے دوران 10سے 24سال تک کے امریکیوں میں خود کشی کا رجحان 52فیصد بڑھا۔ 2010ء کے عشرے کے اوائل میں یہ رجحان زیادہ تیزی سے پروان چڑھا۔ بچوں اور نوجوانوں میں سوشل میڈیا سے مستفید ہونے کا رجحان بھی غیرمعمولی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ آن لائن کلچر اور سوشل میڈیا نے بھی نئی نسل میں اضطراب اور ڈپریشن کو ہوا دی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران امریکہ بھر میں زندگی سے بیزاری کی لہر پیدا ہوئی اور سکول کی طالبات اس لہر کی زد میں زیادہ آئیں۔
امریکہ میں گن کلچر نے خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ گھر میں آتشیں ہتھیار ہوں تو مایوسی بڑھنے پر زندگی ختم کرنے کا خدشہ زیادہ قوی ہوتا ہے۔ نئی نسل اس معاملے میں بھی آگے ہے۔ جان ہاپکنز سینٹر فار گن وایولینس سولیوشن کی تحقیق کے مطابق گھر میں آتشیں ہتھیار موجود ہوں تو کبھی کبھی لوگ کسی خاص صورتحال سے پیدا ہونیوالے ذہنی دباؤ کے تحت متعلقین کو ختم کرکے اپنے آپ کو بھی موت کے منہ میں دھکیل لیتے ہیں۔ یورپ نے گن کلچر کو بہت حد تک کنٹرول کیا ہے۔ امریکہ میں اس حوالے سے کیے جانیوالے اقدامات اب تک ناکام رہے ہیں اور بعض معاملات تو بیک فائر ہوئے ہیں۔ امریکہ کے سرکاری اداروں کو بھی معلوم نہیں کہ ملک بھر میں کتنے لوگوں کے پاس ہتھیار ہیں۔ اس حوالے سے ڈیٹا بیس تیار کرنے کی کوششیں زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ خود کشی کو آسان بنانے میں آتشیں ہتھیار غیرمعمولی معاونت کرتے ہیں اس لیے یورپ میں بہت پہلے اس حوالے سے سوچ لیا گیا‘ تاہم امریکہ میں اس طرف خاطر خواہ حد تک توجہ نہیں دی گئی۔
اگر اہلِ وطن کو دوبارہ زندگی کی طرف لانا ہے اور احساسِ جرم سمیت تمام نفسی اور معاشرتی پیچیدگیوں سے پاک معاشرے کی تشکیل یقینی بنانی ہے تو امریکی پالیسی میکرز کو دنیا بھر میں خرابیوں کا سلسلہ روکنا ہوگا۔ اس راہ پر آگے بڑھتے رہنا امریکی معاشرے کو مکافاتِ عمل کے نتیجے میں مکمل تباہی کے گڑھے میں دھکیل دے گا۔ امریکہ اس معاملے میں یورپ سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔