"MIK" (space) message & send to 7575

جیو سو سال مگر…

اِس دنیا اور امریکہ کا معاملہ بہت ملتا جلتا ہے۔ جو لوگ دن رات امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں وہ بھی وہاں محض جانے نہیں بلکہ آباد ہونے کے خواہش مند ہیں! روزمرہ گفتگو میں امریکہ کی خامیاں اور خرابیاں گنوانے والوں کو جیسے ہی موقع ملتا ہے‘ امریکہ کی راہ لیتے ہیں اور وہاں جا کر ایسے بستے ہیں کہ واپسی کا نام تک نہیں لیتے۔ دنیا کے معاملے میں بھی انسانوں کی یہی طرزِ فکر و عمل ہے۔ اِس دنیا سے ہزاروں شکوے ہیں۔ لوگ دن رات دنیا کی خرابیوں، خامیوں، زیادتیوں اور مظالم کا رونا روتے رہتے ہیں مگر اِس دنیا سے رخصت ہونے کا تصور کرتے ہی مزید رونے لگتے ہیں۔ اِس دنیا کا موہ ہے ہی کچھ ایسا کہ کوئی بھی یہاں سے جانا نہیں چاہتا۔ لوگ بسترِ مرگ پر پڑے رہیں تب بھی چاہتے ہیں کہ اور جئیں۔ مفلوج ہو جانے پر بھی زندہ رہنے کی خواہش دم تو کیا توڑے گی‘ ماند بھی نہیں پڑتی۔
ہر دور کے انسان نے دنیا میں اپنے قیام کو زیادہ سے زیادہ طول دینے کی کوشش کی ہے۔ ہر عہد کے ماہرین ایسی دوائیں اور خوراک تیار کرنے میں مصروف رہے ہیں جن کی مدد سے انسان کو زیادہ اور اچھی طرح جینے کے قابل بنایا جاسکے۔ آج اس حوالے سے تحقیق غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ دنیا بھر میں ہزاروں ماہرین ایسی دوائیں اور خوراک تیار کر رہے ہیں جو انسان کو اچھی صحت کے ساتھ زیادہ جینے کے قابل بناسکیں۔ ترقی یافتہ ممالک اس معاملے میں برتری لیے ہوئے ہیں یعنی وہاں کے ماہرین زندگی کا دورانیہ بڑھانے کی طرف لے جانے والی دوائیں اور خوراک تیار کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ طب کے شعبے میں اِس حوالے سے نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ ماہرین آپریشن کے ذریعے جسم سے فضول مادّے نکال کر انسان کو زیادہ جینے کے قابل بناتے ہیں۔ موٹاپا اِس دنیا میں قیام کے دورانیے پر اثر انداز ہونے والا ایک اہم عامل ہے۔ لوگ خطیر رقم خرچ کرکے موٹاپے سے نجات پاتے ہیں تاکہ زیادہ اور اچھی طرح جی سکیں۔
اِس مرحلے میں ذہن کے پردے پر یہ سوال ضرور ابھر سکتا ہے کہ انسان زیادہ کیوں جینا چاہتا ہے۔ کیا زیادہ جینا انسان کے لیے کسی کام کا ہے؟ اوسط عمر بڑھانے سے متعلق حکومتوں کی پالیسیاں قابلِ ستائش ہیں کیونکہ عام آدمی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ بیماریوں اور دیگر پیچیدگیوں کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ اور اچھی طرح جیے۔ پسماندہ ممالک میں اوسط عمر پچاس‘ ساٹھ برس تک رہتی ہے۔ انسان کو اِس سے زیادہ جینے کا حق حاصل ہے۔ اس حوالے سے کام کرنا حکومتوں کا فرض ہے۔ ماہرین کو بھی اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے طولِ عمر کے لیے کام کرنا چاہیے۔
ہر انسان چاہتا ہے کہ اِس دنیا میں اُس کا قیام طویل تر ہو کیونکہ ذہن میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے، بہت کچھ واقع ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ فطری علوم و فنون نے آج زندگی کے ہر شعبے میں ایسی حیرت انگیز پیش رفت ممکن بنائی ہے کہ لوگ بہت کچھ دیکھنے کے منتظر ہیں۔ جو کچھ کبھی محض خیالوں اور خوابوں کا حصہ ہوا کرتا تھا وہ آج ناقابلِ تردید حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ آج کا انسان بہت کچھ دیکھ چکا ہے اور مزید بہت کچھ ابھی دیکھنا ہے۔ جب معاملہ یہ ہو تو کون ہے جو دنیا سے جانا چاہے گا؟ سبھی چاہتے ہیں کہ جو تھوڑا بہت ذہنوں میں رہ گیا ہے وہ بھی اب حقیقت کا روپ دھار لے۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ اِس دنیا میں طویل تر قیام کیا محض تماش بین کی حیثیت سے ہونا چاہیے۔ یہ دنیا بہت رنگین سہی‘ روشنیوں سے مزین سہی مگر پھر بھی معاملات محض تماشا دیکھنے تک تو محدود نہیں رہنے چاہئیں۔ دنیا کی رنگینی اس بات کی متقاضی رہتی ہے کہ ہر انسان اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کرتا رہے، دنیا کی رونق بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کسی واضح مقصد کے بغیر بسر کی جانے والی طویل زندگی تو کسی کام کی نہ ہوئی۔
جاپان میں 100 سال سے زیادہ عمر والوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اِتنا جینا بظاہر بہت اچھا ہے مگر ذرا سوچئے کہ کرنے کو کچھ خاص نہ ہو تو انسان کب تک سکون سے جی سکتا ہے۔ محض طولِ عمر کسی کام کا نہیں اگر کوئی مقصد نہ ہو، کرنے کو کچھ نہ ہو۔ یہی سبب ہے کہ جاپان میں طویل عمر والے لوگ اپنے لیے نئی مصروفیات تلاش کرتے ہیں۔ ملازمت سے ریٹائر ہونے پر وہ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں تاکہ ذہن بوجھل نہ ہو، یہ احساس نہ ستائے کہ کچھ کیے بغیر ہی زندگی بسر ہو رہی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چالیس سال تک پنشن وصول کرنے والے ریاستی خزانے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ اُن سے کچھ کام لیا جائے۔ جاپان میں لوگ رضاکارانہ طور پر بھی معاشرے کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ اپنے علاقے کے بہت سے کام سنبھال لیتے ہیں۔ بچوں کو سکول لے جانے اور لانے کی ذمہ داری بھی بزرگ شہری بخوشی قبول کرتے ہیں اور علاقے میں ڈاک کی تقسیم کی ذمہ داری بھی اپنے سر لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ دنیا بھر میں حکومتیں صحتِ عامہ کی معیاری سہولتوں میں اضافے کے باعث کچھ پریشان بھی ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اوسط عمر بڑھ رہی ہے۔ اِس کے نتیجے میں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن وصول کرتے رہنے کی عمر بھی بڑھ رہی ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی تعداد بڑھتے رہنے سے پنشن کی مد میں مختص کیے جانے والے فنڈز بھی بڑھتے جاتے ہیں۔
طولِ عمر کی خواہش فطری ہے اس لیے کوئی بھی انسان اِس کے سامنے بند باندھ نہیں سکتا۔ اِس دنیا میں اپنے قیام کو طول دینے کے لیے انسان بہت کچھ کرتا ہے۔ حکومتیں بھی اِس طرف متوجہ رہتی ہیں۔ صحتِ عامہ کی سہولتوں میں اضافے سے عام آدمی کو مختلف وباؤں کے خلاف لڑنے کا حوصلہ ملتا رہتا ہے۔ وہ عمومی بیماریوں سے اچھی طرح نپٹنے کے قابل ہو پاتا ہے اور یوں زیادہ جینے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ پسماندہ ممالک میں اوسط عمر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی اوسط عمر کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے؛ تاہم اب اوسط عمر کا گراف بلند کرنے میں خاصی کامیابی ممکن بنائی جارہی ہے۔ طرزِ زندگی سادہ ہو، انسان زیادہ ثقیل خوراک استعمال نہ کرے، ورزش کرتا رہے، مثبت سوچ کے ساتھ ہنستا گاتا رہے تو رُوئے ارض پر قیام کا دورانیہ بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ تھوڑا سا ضبطِ نفس درکار ہے۔ کھانے پینے کے معاملات کو قابو میں رکھنے سے انسان بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور یوں زندگی کا دورانیہ ہی نہیں‘ حُسن بھی بڑھتا ہے۔
مختلف شعبوں میں ممکن بنائی جانے والی پیشرفت سے زندگی کا حسن بڑھ رہا ہے۔ پسماندہ دنیا میں لوگ حالات سے تنگ ہیں مگر پھر بھی اِتنا تو جانتے ہی ہیں کہ اگر تھوری سی توجہ دی جائے تو زندگی کی رنگینیوں سے مستفید ہونا جُوئے شیر لانے جیسا معاملہ نہیں۔ اِس دنیا میں قیام کو زیادہ رنگین، پُرلطف اور شاندار بنانے کے لیے انسان کا دانشور ہونا لازم نہیں۔ یہ کام ضبطِ نفس مانگتا ہے اور تھوڑی سی منصوبہ سازی بھی۔ جب ہم طے کرتے ہیں کہ زندگی کو زیادہ بامقصد اور پُرلطف بنانا ہے تو پھر معاشرے میں پائی جانے والی کوئی بھی ناموافق حقیقت ہمارا راستہ روک نہیں سکتی۔ دنیا کی رنگینی ہمارے لیے کوئی بھی مفہوم اُسی وقت رکھتی ہے جب ہم طے کرلیں کہ اُس کی مدد سے اپنی زندگی کو زیادہ بامقصد اور بارآور بنائیں گے۔ ہمارے ہاں طویل عمر پانے والے کم ہیں اور اگر آپ ذرا غور سے جائزہ لیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ایسے لوگ بالعموم بیزار سے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو کام کی عمر کے دوران بھی لوگ زیادہ کام نہیں کرتے تو ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کریں گے! بے مصرف بیٹھے رہنے سے انسان اپنے آپ سے بھی بیزار ہوتا جاتا ہے۔ کام کرنے کی عادت زندگی بھر نہ رہی ہو تو بڑھاپے میں بھلا کیسے پروان چڑھائی جاسکتی ہے؟
طویل عمر صرف اُن کیلئے کسی کام کی ہوتی ہے جو زندگی بھر کام کرتے آئے ہوں، بامقصد زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے وجود سے کسی کو فائدہ پہنچانے کی ذہنیت کے حامل ہوں۔ محض جیے جانا کسی کام کا نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ جی کیسے رہے ہیں۔ مقصد سے عاری طُولِ عمر کو عذاب سمجھیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں