آپشنز کی کوئی حد نہیں۔ ہر انسان جس طرح چاہے جی سکتا ہے۔ زندگی کیسے بسر کی جانی چاہیے اس کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے کا حامل نہیں ہوسکتا۔ کس کیلئے کس نوعیت کی زندگی موزوں اور مفید رہے گی‘ اس کا حتمی تعین ممکن نہیں کیونکہ کوئی بھی انسان جس ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے اُس میں سبھی کچھ ہر آن بدلتا رہتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو بدلنا ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یہ دریا کبھی رُکتا نہیں۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہوتا ہے انسان کو اُسی سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیاں یقینی بنانا ہوتی ہیں۔ ایسا کیے بغیر چارہ نہیں۔
انسان کو اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ اللہ کی طرف سے بخشی جانے والی عقل کی روشنی میں اپنے لیے بہترین لائحہ عمل تیار کرکے معقول زندگی بسر کرے۔ صرف انسان کو عقل عطا کی گئی ہے‘ اس لیے عقل کو بہترین انداز سے بروئے کار لانے کی ذمہ داری بھی غیر معمولی ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ انسان کو بے عقلی کیساتھ جینے کیلئے خلق کیا ہی نہیں گیا۔ بے عقلی کیساتھ جینے کیلئے طرح طرح کی مخلوق موجود تو ہے۔ پھر انسان کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ بے عقلی کیساتھ زندگی بسر کرنا کسی بھی انسان کو زیبا نہیں۔ بے عقلی قدم قدم پر مشکلات پیدا کرتی ہے۔ عقل اس لیے بخشی گئی ہے کہ ہم اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے راستے سے مختلف رکاوٹیں دور کرتے رہیں نہ کہ اس لیے کہ اسے ایک طرف پڑی رہنے دیں اور رکاوٹوں کو سینے سے لگائے رہیں۔
خالص بے عقلی کی زندگی کا نظارہ کرنا ہو تو حیوانات کو دیکھیے۔ ہمارے ماحول میں جتنے بھی حیوان ہیں وہ بے عقلی اور بے شعوری کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کسی بھی بڑی مشکل کو سامنے پاکر اپنے بچاؤ کے بارے میں سوچنا عقل نہیں‘ محض جبلت ہے۔ عقل کی یہ سب سے معمولی سطح ہے جو ہر جاندار کو عطا کی گئی ہے۔ وہ اپنے سامنے موجود خطرے یا خطرات کو تیزی سے بھانپ کر بچاؤ کا اہتمام کرتا ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ کسی جانور کو مارنے کیلئے ڈنڈا اٹھائیے تو وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ عقل کی محض اوپری سطح ہے اور اسے جبلت کا حصہ سمجھیے۔ انسان کو عطا کی جانے والی عقل بہت اعلیٰ سطح کی ہے اور بدیہی معاملات سے کہیں آگے جاکر سوچنے کے قابل بناتی ہے۔ اب اگر کوئی ایسی نعمت کو بروئے کار لانے سے گریزاں رہے تو اسے کفرانِ نعمت ہی سمجھیے۔ ہم اپنے ماحول میں دیکھتے ہیں کہ لوگ عقل کو زیادہ بروئے کار لانے سے گریز کرتے ہیں۔ عام آدمی کی ذہنی ساخت میں یہ بات کیل کی طرح ٹُھنک اور گڑ گئی ہے کہ زیادہ سوچنے اور سمجھنے سے زندگی کا حُسن غارت ہو جاتا ہے اور یہ کہ تھوڑی بہت بے عقلی سے زندگی کا سرور دوبالا ہو جاتا ہے! شاید اسی ذہنیت کو پروان چڑھانے کیلئے یہ کہا جاتا ہے عقل نہیں تے موجاں ای موجاں!
کوئی بھی انسان عقل کو بروئے کار لانے سے گریز کیوں کرتا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ عقل کی اہمیت سبھی تسلیم کرتے ہیں مگر اسے بروئے کار لانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ یہ تضاد بھی معاشرے ہی کا پیدا کردہ ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں مختلف طریقوں سے یہ بات ٹھونسی جاتی ہے کہ عقل کو زیادہ بروئے کار لانے سے مشکلات بڑھتی ہیں۔ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں‘ خالص شعوری سطح پر زندگی بسر کرتے ہیں‘ ان کی زندگی میں طرح طرح کی پیچیدگیاں دیکھ کر لوگ عقل کے استعمال کے حوالے سے بددل ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ عقل کے استعمال کی منزل سے دور ہی رہیں۔ یہ طرزِ فکر و عمل بھی خالص بے عقلی ہی کی دلیل ہے۔ فی زمانہ ہر اس انسان کیلئے مشکلات زیادہ ہیں جو خالص شعوری سطح پر زندگی بسر کرتا ہے۔ عقل کو بروئے کار لانے کی صورت میں چند ایک الجھنیں ضرور پیدا ہوتی ہیں مگر یہ فطری امر ہے۔ عقل استعمال نہ کرنے کی صورت میں تو مشکلات ہی پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں سوچنے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی جاتی؟ عقل بروئے کار لانے کی تحریک دینے والی باتیں ماحول میں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ اہلِ دانش بہت کچھ سکھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر لوگ سیکھتے نہیں۔ ہمارے ہاں ایک عجیب رویہ عام ہوچلا ہے۔ جب بھی کوئی شخص انتہائی سنجیدگی سے کوئی بات کر رہا ہوتا ہے تب لوگ توجہ کسی اور چیز کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ خالص سنجیدگی کیساتھ زندگی بسر کرنے کے بارے میں کچھ سکھانے کی کوشش کرنے والوں کو بخوشی قبول نہیں کیا جاتا۔ عمومی سطح پر لوگ اس تصور کے حامل ہیں کہ خالص شعوری سطح پر زندگی بسر کرنے سے زندگی کا لطف جاتا رہتا ہے اور یہ کہ ایسی حالت میں کچھ زیادہ ہی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
عقل‘ شعور اور دانش کے حوالے سے ہمارے ہاں جو تصورات پائے جاتے ہیں ان کی اکثریت بے بنیاد ہے۔ دنیا بھر میں ہمیں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے‘ جتنی بھی ترقی ممکن ہو پائی ہے‘ زندگی بسر کرنے کا جو انتہائی اعلیٰ معیار ممکن بنایا جاسکا ہے‘ وہ سب خالص شعور اور دانش کی سطح پر ہے۔ دنیا بھر میں علم و فن کے مختلف شعبوں میں پیش رفت کا سفر جاری ہے۔ صدیوں کی محنتِ شاقہ کے بعد کئی اقوام نے اپنے لیے انتہائی قابلِ رشک معیارِ زندگی ممکن بنایا ہے۔ یہ سب کچھ خالص شعوری سطح پر زندہ رہنے کی صورت میں ممکن ہو سکا ہے۔ خالص بے عقلی کی زندگی انسان کو کیا دیتی ہے اس کا نظارہ کرنا ہو تو پسماندہ معاشروں پر نظر دوڑائیے۔ ان معاشروں کا انتہائی بنیادی المیہ یہ ہے کہ انہوں نے عقل اور شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے زندہ رہنے کو ترجیح دینا چھوڑ دیا ہے۔ تیسری دنیا کے معاشروں کا انجام دیکھ کر سیکھا جاسکتا ہے کہ عقل سے بیگانہ رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔
بات کچھ یوں ہے کہ عقلی یا شعوری سطح پر زندگی بسر کرنے کی صورت میں چند ایک ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ لوگ ان ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں۔ بے عقلی کیساتھ جینے کی صورت میں کوئی بھی فوری ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ لوگ ایسی کیفیت کو نعمت سمجھنے لگتے ہیں جبکہ یہ تو خالص زحمت کا معاملہ ہے۔ جب انسان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تب زندگی بھی تو زندگی نہیں ہوتی۔ ایسی زندگی حتمی تجزیے میں انسان کو کچھ بھی نہیں دیتی۔ کبھی آپ نے کسی ایسے انسان کو پنپتے دیکھا ہے جس نے زندگی بھر عقل سے کام لینے کی زحمت گوارا نہ کی ہو؟ اگر کسی کو والدین سے ترکے میں کروڑوں کی نقدی یا املاک ملی ہوں تب بھی ذہن سے کام نہ لینے کی صورت میں سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ عقل کو خیرباد کہتے ہوئے جینے کی صورت میں مفت ہاتھ آئی ہوئی دولت بھی ٹھکانے لگ جاتی ہے تو سوچیے کہ کچھ حاصل کرنا کتنا دشوار ہوتا ہوگا۔ ترقی یافتہ اقوام کو دیکھ کر اندازہ لگائیے کہ اُنہوں نے کچھ پانے کیلئے صدیوں کتنی محنت کی ہوگی‘ اپنی طرزِ زندگی بھی بدلی ہوگی‘ سوچنے کے نئے ڈھنگ بھی اپنائے ہوں گے‘ نظم و ضبط سے جینا سیکھا ہوگا‘ بہت کچھ قربان کیا ہوگا‘ بہت کچھ اپنایا ہوگا۔ روحانی ارتقا کی تو بات ہی رہنے دیجیے‘ خالص مادّی ترقی بھی مفت ہاتھ نہیں آتی۔ اس کیلئے محنتِ شاقہ کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ اب عقل کو بروئے کار لانے کی ضرورت باقی نہیں رہی تو اسے احمق ہی گردانا جائے گا۔ شاندار بلکہ حیران کن مادّی ترقی نے انسان کیلئے قدم قدم پر آسانیاں پیدا کی ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ذہن کو بروئے کار لانے کی اہمیت باقی ہی نہیں رہی۔ آج بھی وہی لوگ زیادہ کامیاب اور خوشحال ہیں جو خالص شعوری سطح پر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک سے انتہائی باصلاحیت افراد کا ترقی یافتہ معاشروں میں روشن تر اور زیادہ ثمر بار امکانات تلاش کرنے کا سفر اس بات کی صریح اور ناقابلِ تردید دلیل ہے کہ آج بھی اہمیت انہی معاشروں کی ہے جو ذہن سے کام لیتے ہوئے جینے کو ترجیح دیتے ہیں۔