ذہنی الجھنوں کا بازار پوری دنیا میں گرم ہے۔ کوئی ایک خطہ یا معاشرہ بھی ایسا نہیں جو ذہنی الجھنوں سے مکمل طور پر پاک قرار دیا جاسکے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ دنیا ایسی ہی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ زندگی کی روش نہیں بدلے گی، ہمیں اپنی روش بدلنا ہوگی بلکہ یہ عمل تواتر سے اپنانا ہوگا۔
وقت ایسا بدلا ہے کہ اب پہلے سا کچھ بھی نہیں رہا۔ کل تک جو دنیا تھی وہ اب صرف حافظے میں آباد ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے موجودہ دنیا سے ہٹ کر کوئی دنیا تھی ہی نہیں! جن لوگوں کی عمریں آج 60 اور 80 سال کے درمیان ہیں وہ خود بھی یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ سب کچھ اتنا بدل گیا ہے کہ وہ جس دنیا کو دیکھتے اور برتتے آئے تھے وہ تو ناپید ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ معاملہ بھی کتنا عجیب ہے۔ ہمیں تبدیلیوں کا عادی ہو رہنا ہے مگر نہیں ہو پا رہے۔ جو چیز چلن میں ہو انسان کو اُس پر زیادہ تو کیا‘ بالکل حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ڈھنگ سے جینا اِسی کو کہتے ہیں۔
ہمیں سب سے زیادہ کوئی چیز سیکھنی اور سمجھنی ہے تو بس یہ کہ تبدیلی ایک بدیہی حقیقت ہے اور اِس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں مگر افسوس کہ یہی مرحلہ ہم سے طے نہیں ہو پا رہا۔ ہم قدم قدم پر اپنے آپ سے الجھتے ہیں اور پریشان ہوکر زندگی ہی سے بیزاری محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جس طور ہمارے ماحول کو ہر وقت بدلتے رہنے سے غرض ہے بالکل اُسی طور ہمیں دائمی بیزاری کو گلے لگائے رکھنے کا شوق ہے۔ ماحول کا تو ہم کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا آپشن تو میسر ہے۔
دنیا بھر میں نفسی امور کے ماہرین پر کام کا دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ اُن کے لیے بڑھتی ہوئی نفسی پیچیدگیوں سے نبرد آزما انسانوں کو درست راہ پر رکھنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ نفسی امورکے ماہرین اِس بات پر بہت زور دے رہے ہیں کہ تبدیلیوں کو سب سے بڑی حقیقت سمجھ کر قبول کرتے رہنا ہی اب زندگی کا سب بڑا اور بنیادی تقاضا ہے۔ اس معاملے میں قدرت کسی سے کوئی رعایت نہیں برت رہی۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ سب کچھ بدلتا رہے گا۔ ایک دنیا وہ تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوئی اور اب ہمارے حافظوں میں محفوظ ہے اور ایک یہ دنیا ہے جس کا ہم حصہ ہیں اور اِسے تواتر سے تبدیلیوں کی ہم نوائی کرتے پاکر ہماری حیرت دم نہیں توڑتی۔ آج کے انسان کو قدم قدم پر نفسی الجھنوں کا سامنا ہے اور یہ کیفیت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم کسی بھی اور معاملے سے کہیں بڑھ کر نفسی الجھنوں سے نپٹنے کو ترجیح دیں۔ تبدیلیاں چونکہ سب کے لیے ہیں اس لیے الجھنیں بھی سب کے حصے میں آئی ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے‘ تبدیلیوں کو سمجھنے اور اُن سے مطابقت رکھنے والی زندگی بسر کرنے کی راہ سے ہٹ کر نہیں چل سکتا۔ ہم سب زندہ ہیں۔ سانسیں چل رہی ہیں یعنی زندگی جیسی نعمت میسر ہے۔ جب اِتنا ہے تو اِس سے ایک قدم آگے جاکر ہمیں زندگی کے تقاضے نبھانے پر بھی متوجہ رہنا چاہیے۔ اب اگر یہ المیہ نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے کہ ہم زندہ بھی ہیں اور زندگی بسر کرنے سے بہت حد تک انکاری بھی ہیں۔ اپنے آپ کو نہ بدلنا زندگی سے انکار کے زُمرے میں آتا ہے۔ کوئی کتنی ہی دلیلیں دے‘ اگر وہ تبدیلی سے بچ کر چلنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کی مجموعی طرزِ فکر و عمل کو ماحول سے عدمِ مطابقت ہی پر محمول کیا جائے گا۔
کیا واقعی ہمیں زندگی سے محبت نہیں؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ ہم جینے کے خواہش مند نہیں؟ ہم سے مراد ہے اِس خطے یعنی جنوبی ایشیا کے لوگ۔ اِس خطے میں اب تک یہ تصور پایا جاتا ہے کہ صرف ہم الجھنوں کا شکار ہیں اور باقی دنیا تو مزے کر رہی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر ہم کُڑھتے رہتے ہیں۔ ہمیں یقین ہی نہیں آتا کہ ایک ایسی دنیا بھی ہے جس میں تمام بنیادی مسائل حل ہوچکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم یہ تصور بھی رکھتے ہیں کہ ہم سے زیادہ پسماندہ خطہ کوئی نہیں۔ اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمام بنیادی مسائل حل ہو جانے سے زندگی آسان نہیں ہو جاتی اور ہمارے خطے سے زیادہ پسماندہ خطے بھی ہیں اور اُن کے معاملات بہتر ہونے کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دے رہا۔
یہ نکتہ کسی بھی مرحلے پر فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ ترقی یافتہ دنیا کے بھی مسائل ہیں۔ اُن معاشروں میں بھی عوام و خواص کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ ہاں‘ اُن مسائل کی نوعیت چونکہ مختلف ہے اِس لیے ہم اُنہیں آسانی سے سمجھ نہیں پاتے۔ کوئی اِس گمان میں مبتلا نہ رہے کہ بعض معاشرے ترقی کی اُس بلندی کو چھوچکے ہیں جہاں مسائل نہیں پائے جاتے۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ تاریخ کا دستیاب ریکارڈ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہر عہد میں معیارات کا فرق رہا ہے۔ ہر دور کی آنکھوں نے دنیا کو ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ معاشروں یا ریاستوں کی شکل میں دیکھا ہے۔ ڈھائی‘ تین ہزار سال پہلے بھی ایسا ہی تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ یہ دنیا ہمیشہ الجھنوں سے عبارت رہی ہے۔ انسان کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ وہ الجھنوں سے نہ گھبرائے اور جیسے بھی ہوسکے، اپنا ذہن اُن سے نپٹنے کے لیے بروئے کار لائے۔
ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ آج کی زندگی نے اِتنی ساری الجھنیں ہماری طرف اُچھال کر ہم سے شدید نا انصافی کی ہے اور ہمارے لیے پنپنے کی برائے نام گنجائش بھی نہیں چھوڑی۔ ایسا بالکل نہیں ہے! زندگی کسی کے لیے بہت زیادہ الجھنیں پیدا کرتی ہے نہ بہت ساری آسانیوں کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ اپنے مزاج کے اعتبار سے بالکل غیر جانبدار ہے۔ اِس کی حیثیت تو کسی کلاس روم کے تختۂ سیاہ کی سی ہے۔ ہمیں زندگی بالکل سادہ تختۂ سیاہ کی سی ملتی ہے۔ اِس پر وہی کچھ لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے جو ہم لکھتے اور مٹاتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اچھا لکھیں گے تو اچھا دکھائی دے گا اور اگر بُرا لکھنے پر متوجہ رہیں گے تو بُرا ہی نظر آئے گا۔ تختۂ سیاہ کی حدود مقرر ہیں۔ اگر کسی بُری بات کے بجائے اچھی بات لکھنی ہو تو لازم ہے کہ بُری بات کو مٹا دیا جائے تاکہ کچھ اور لکھنے کی گنجائش پیدا ہو۔ زندگی کا بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ جب تک ہم اپنے بُرے معاملات سے نجات نہیں پالیتے تب تک اچھے معاملات کے ابھرنے اور پنپنے کی گنجائش پیدا نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ہم بُرے معاملات کو برقرار رکھتے ہوئے اچھے معاملات کو پروان چڑھانے کی کوشش کریں اور اِس کوشش میں بھرپور کامیابی بھی یقینی بنائی جاسکے۔ آج کی زندگی انتخاب در انتخاب ہے۔ قدم قدم پر ہمیں اپنے مطلب کے معاملات کو چُننا ہے اور باقی تمام معاملات کو ایک طرف ہٹانا ہے۔ مسائل ہر دور میں وسائل سے زیادہ ہی تھے۔ آج بھی معاملہ یہی ہے۔ محدود وسائل کی مدد سے تمام مسائل تو کسی طور حل نہیں کیے جاسکتے۔ ہاں‘ معقول سوچ اپناکر، ذہن کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنے لیے زیادہ گنجائش ضرور پیدا کرسکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں بات بات پر انتخاب کا مرحلہ درپیش رہتا ہے۔ ہمیں بہت کچھ چھوڑنا ہے اور دوسرا بہت کچھ اپنانا ہے۔ یہ اب زندگی بھر کا معاملہ ہے اِس لیے اپنی نفسی ساخت کو اس کا عادی بنانے کے سوا آپشن نہیں۔
یہ سوچ بھی بے بنیاد ہے کہ اگر کسی کے لیے کسی بھی طور سکون و راحت کا اہتمام نہیں ہوسکتا۔ آپ اپنے ماحول کو غور سے دیکھیے گا تو پائیے گا کہ آج بھی بہت سے لوگ معقول رویہ اپناکر اپنے لیے سکون و راحت کا سامان کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اُن کے معاملات کا جائزہ لیجیے بلکہ پوچھ دیکھیے کہ وہ اپنے لیے زیادہ سُکون کا اہتمام کرنے میں کیونکر کامیاب رہے ہیں۔ وہ چونکہ اِس عہدِ پُرفتن میں اپنے لیے ذہنی یا نفسی طور پر پنپنے کی گنجائش پیدا کرچکے ہیں اِس لیے اُن کی بات زیادہ وزن رکھتی ہے۔ اِس سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ آپ دوسروں کو قبول کرنے کی صلاحیت کے کس حد تک حامل ہیں۔ یہ بھی انتخاب ہی معاملہ ہے یعنی کامیاب اور خوش و خرم لوگوں سے رابطہ رکھنا اور ناکام انسانوں سے دور رہنا۔ ڈھنگ سے جینے کا ہنر اِسی طور سیکھا جاسکتا ہے۔